علمائے دیوبند کے فتاویٰ

علمائے دیوبند کے فتاویٰ

دارالعلوم دیوبند، ایشیا کے مسلمانوں کی ایک عظیم مرکزی اور دینی درس گاہ ہے، جو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ مدّت سے تفسیر و حدیث، فقہ و کلام اور تہذیب و اخلاق وغیرہ علومِ دینیہ کے احیا اور ترقی کی زبردست خدمت انجام دے رہی ہے۔

ہندوستان میں مغل سلطنت کے زوال کے بعد جب انگریزوں نے اپنے سیاسی مصالح کے پیشِ نظر اسلامی علوم و فنون کی قدیم درس گاہوں کو یکسر ختم کر دیا تھا، اس وقت نہ صرف اسلامی فنون و علوم اور اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے، بلکہ خود مسلمانوں کو مسلمان رکھنے کے لیے ضرورت تھی کہ عظیم بنیادوں پر ایک عظیم درس گاہ قائم کی جائے، جو ہندوستان کے مسلمانوں کو الحاد اور بے دینی کے فتنہ ٴ عظیم سے محفوظ رکھ سکے، اس وقت اسلام کے تحفظ کی تمام تر ذمہ داری علمائے کرام پر تھی، ہندوستان کی سر زمین شاہد ہے کہ علمائے کر ام نے بر وقت اپنا فرض انجام دینے میں کوتاہی نہیں کی، دارالعلوم کے ذریعہ سے یہ توقعات بدرجہ اتم پوری ہوئیں اور قلیل مدّت میں دارالعلوم کی شہرت بامِ عروج پر پہنچ گئی اور بہت جلد یہ دارالعلوم نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ایک بین الاقوامی تعلیم گاہ بن گیا، جس سے بالواسطہ اور بلا وسطہ لاکھوں کی تعداد میں علماء تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں ہے، بلکہ درحقیقت ایک تحریک ہے، ایک مستقل مکتب فکر اور ایک بحر بے کراں ہے، جس سے ہند وپاک کے علاوہ دنیا بھر کے تشنگانِ علوم سیراب ہو رہے ہیں، بر صغیر کے اطراف میں جس قدر دینی مدارس اس وقت موجود ہیں ان کے اساتذہ تقریباً بلا واسطہ یا بالواسطہ دارالعلوم ہی کے فیض یافتہ ہیں اور ہر سال سینکڑوں طلبہ ان اداروں سے فارغ ہو کر دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل کر درس و تدریس،وعظ و تبلیغ اور تصنیف وتالیف کے ذریعے اشاعتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔

1283ھ سے1434ھ تک تقریباً ڈیڑھ سوسال کی مدّت میں اگر دارالعلوم کی ان خدمات کا جائزہ لیا جائے جو اس نے سرانجام دیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے ہر ہر خطے میں اس نے اپنے فرزندان رشید کو پہنچا یا ہے، جو اس خطے میں آفتاب و مہتاب بن کر چمکے اور مخلوقِ خدا کو ظلمتِ جہل سے نکال کر انہوں نے نورِ علم سے مالا مال کیا۔

فضلائے دارالعلوم کی تصنیفی خدمات
دارالعلوم دیو بند کی تعلیمی و تدریسی خدمات ایک معروف حقیقت ہے اور دنیا نے اس کا اعتراف کیا ہے، علمائے دیو بند نے درس و تدریس ، وعظ وتقریر اور دوسرے دینی مشاغل کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی جو عظیم الشان کارنامے انجام دیے ہیں وہ نہ صرف بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیائے اسلام کے لیے بھی ایک قابلِ فخر سرمایہ ہے، علوم دینیہ سے متعلق کوئی علم و فن ایسا نہیں ہے جس میں ان کی تصنیفات و تالیفات موجود نہ ہوں، ان میں بڑی بڑی ضخیم کتابیں بھی ہیں اور چھوٹے چھوٹے رسالے اور کتابچے بھی ہیں،عوام الناس کے لیے آسان اور سہل انداز میں لکھی جانے والی کتابیں بھی ہیں اور علمی گتھیوں کو سلجھانے والی تحقیق کتب بھی …

علمائے دیوبند کے اس تحریری سرمائے کا مدار شام کے ایک جلیل القدر عالم شیخ عبد الفتاح ابو غُدہ کے بقول ” گہرے علم اور وسیع مطالعے کے علاوہ تقویٰ و صلاح، روحانیت اور استغراق فی العلم ہے“، چناں چہ شیخ ابو الفتاح ابو غُدہ علمائے دیوبند کی تصانیف کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”علم و تقویٰ کے اساطین سے مالا مال اس عظیم الشان ادارے کے علمائے عظام کی خدماتِ جلیلہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں، بلکہ اگر ذرا جرات کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمارا ایک واجبی حق ہے، جس کا مطالبہ میں کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ان علمائے کرام کا فریضہ ہے کہ اپنے متفردانہ عقول کے نتائجِ فکر بیش بہا علمی فیوض و تحقیقات کو عربی زبان کا جامہ پہنا کر عالم اسلام کے دوسرے علماء کے لیے استفادے کا موقع فراہم کریں، فریضہ ان حضرات پر اس لیے عائد ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص ہندوستان کے علمائے محققین کی کوئی تصنیف پڑھتا ہے تو اس میں اس کو وہ نئی متفردانہ تحقیقات ملتی ہیں جن کا مدار گہرے علم اور وسیع مطالعے کے علاوہ تقویٰ اور صلاح اور روحانیت پر ہوتا ہے،چوں کہ ہندوستان کے یہ علماء و شیوخ کرام، صلاح، روحانیت اور استغراق فی العلم جیسی شروط پر نہ صرف یہ کہ پورے اُترتے ہیں، بلکہ سلفِ صالحین کے صحیح وارث اور ان کے نمونے ہیں، اس لیے ان کی کتابیں نئی اور کار آمد چیزوں سے خالی نہیں ہوتیں، بلکہ ان حضرات کی بعض کتابیں تو وہ ہیں جن میں ایسی چیزیں ملتی ہیں جو متقدمین علمائے اکابر مفسرین و محدثین اور حکماء کے یہاں بھی دست یاب نہیں ہوتیں“۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند:2/394)

علمائے دیوبند کی تصنیفات و تالیفات ہر فن میں ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ،جن کے صرف تذکرے کے لیے بھی ایک ضخیم جلد درکار ہے۔ ہر فن میں علمائے دیوبند نے اپنی جامعیت کا لوہا منوایا ہے ،لیکن فقہ وفتاویٰ کے ساتھ ان کے تعلق کی شان نرالی ہے ، دسیوں ضخیم فتاویٰ کے علاوہ مختلف فقہی موضوعات پر مقالات و رسائل ان حضرات کے علم فقہ کے ساتھ گہرے لگاوٴ اور تعلق کے منھ بولتا ثبوت ہیں ۔شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مد ظلہم ” فتاویٰ محمودیہ “ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
”علمائے دیوبند نے فتاویٰ کے ضمن میں جس طرح علم فقہ کو منقح ومہذب انداز میں پیش کیا اور مفتی بہ اقوال کی تعیین کی اور نئے پیش آنے والے مسائل کو سابقہ اصول اور تفریعات پر منطبق کیا،اسے دیکھ کر اگر کہا جائے کہ علمائے دیوبند فقہ حنفی کے مجدّد ہیں تو اس کی صحت میں تامل نہیں ہونا چاہیے“۔ (فتاویٰ محمودیہ :1/30، ناشر :ادارہ الفاروق ،کراچی)

ذیل میں علمائے دیوبند کے تحریر کردہ فتاویٰ کا تعارف پیش ہے،جو ان کی علمی صلاحیتوں کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔

فتاویٰ رشیدیہ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا، تمام علوم وفنون میں آپ کو ملکہ تامہ حاصل تھا، لیکن فقہی شان سب سے نمایاں تھی، حضرت نانوتوی، آنجناب کو ” ابو حنیفہ عصر“ فرماتے تھے اور حضرت مولانا انورشاہ کشمیری آپ کو ” فقیہ النفس“ قرار دیتے تھے۔

”فتاویٰ رشیدیہ “ حضرت گنگوہی کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جو آپ نے دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی دور میں لکھے، اس میں چند فتاویٰ وہ بھی ہیں جو آپ کے تلامذہ نے لکھے ہیں۔ فتاویٰ رشیدیہ کا تعارف کراتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں:
” دارالعلوم کے فتاویٰ کا ابتدائی دور فتاویٰ رشیدیہ سے شروع ہوتا ہے، لیکن نہایت حسرت کا مقام ہے کہ حضرت ممدوح کے فتاویٰ کی نقول محفوظ رکھنے کا شروع میں نہ تو کوئی انتظام تھا، پھر کچھ مختصر اور نا تمام سا انتظام ہوا بھی، مگر ان کے ضبط و اشاعت یا حضرت ممدوح کی نظر ثانی کا کوئی موقع نہیں آیا، ان کی اشاعت حضرت کی وفات کے بعد مختلف اطراف میں گئے ہوئے خطوط کو جمع کرکے کی گئی اور ان میں ایک اختلاط یہ بھی پیش آگیا کہ1314ھ میں حضرت گنگوہی قدس سرہ کی ظاہری بینائی نزول ماء سے جاتی رہی تھی(تذکرہ ،ص 100ج 1) خود لکھنے پڑھنے سے معذور ہوگئے تھے، اس وقت اکثر خطوط اور فتاویٰ کا جواب حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرمایا کرتے تھے، جن میں کبھی تو حضرت بطور املاء کے الفاظ لکھواتے تھے اور کبھی مضمون بتلادیا کہ یہ لکھ دیں ،اس لیے جو استناد و اعتماد کا درجہ حضرت ممدوح کے فتاویٰ کو ہونا چاہیے تھا اس میں ایک حد تک کمی رہ گئی، فتاویٰ رشیدیہ کے نام سے جو تین حصے شائع ہوئے ہیں ان میں بعض مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق حضرت گنگوہی قدس سرہ کے مخصوص تلامذہ ، مریدین اور خلفاء حضرت ممدوح کا فتویٰ ،شائع شدہ فتویٰ کے خلاف نقل کرتے ہیں، یہ ممکن ہے کہ ان میں ابتداء ً حضرت گنگوہی کا وہی فتویٰ ہو جو شائع ہوا، لیکن آخر تک حاضر خدمت رہنے والے اکابر علماء نے جو نقل کیا، وہ وہی آخری فتویٰ اور راجح قول شمار ہوگا، مثلاً :”ربوافی دارالحرب“ کے متعلق فتاویٰ رشیدیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کے قول مشہور کے موافق دارالحرب میں کفار سے سود لینے کو ناجائز لکھا ہے، مگر حضرت گنگوہی قدس سرہ کے متعدد خلفاء اور حضرت حکیم الامت قدس سرہ سے بارہا یہ سنا کہ حضرت گنگوہی کا فتویٰ اس باب میں صاحبین اور جمہور کے موافق تھا اور اسی وجہ سے حضرت ممدوح نے حضرت حکیم الامت کے رسالہ” تحذیر الاخوان “پر دستخط نہیں فرمائے کہ اس کے مضمون سے حضرت کو اختلاف تھا ، اسی طرح سماع موتیٰ کے مسئلے میں جو مضمون فتاویٰ رشیدیہ میں طبع ہوا ہے، استاذی وسیدی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب سابق مفتی دارالعلوم، حضرت گنگوہی کا فتویٰ اس کے خلاف نقل فرماتے تھے۔ واللہ اعلم بحقیقة الحال“۔( امداد المفتین،ص:92)

”فتاویٰ رشیدیہ“ مختلف اداروں سے شائع ہوچکا ہے ، حال میں اس کا ایک جدید ایڈیشن ادارہ صدائے دیوبند سے جدید تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہوا ہے ۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (قدیم)
یہ فتاویٰ دو حصوں پر مشتمل ہے:پہلا حصہ ” عزیز الفتاویٰ“ کے نام سے موسوم ہے، یہ حصہ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب کے ان فتاویٰ پر مشتمل ہے جو آپ نے 1329ھ سے 1334ھ تک تحریر کیے تھے، 745 صفحات پر مشتمل اس حصے میں حضرت مفتی صاحب کے 1491فتاویٰ ہیں۔

دوسرا حصہ ” امداد المفتین“ کے نام سے موسوم ہے، جو مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جو آپ نے دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی ہونے کی حیثیت سے دیے تھے، اس حصے میں حضرت مفتی صاحب کے 1349ھ سے1362ھ کے فتاویٰ مذکور ہیں جن کی تعداد966 ہے، اس حصے کے آخر میں ” اختیار الصواب فی مختلف الأبواب“ کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے، جس کے تحت ان مسائل کا ذکر ہے، جن سے حضرت مفتی صاحب نے رجوع کیا ہے، ان دونوں اجزا کی ترتیب کا فریضہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے سر انجام دیا ہے۔اس جز میں حضرت مفتی صاحب  کے فتاویٰ کے ساتھ ساتھ مختلف فقہی موضوعات پر لکھے جانے والے اٹھارہ رسائل بھی شامل ہیں۔

یہ فتاویٰ دو جلدوں میں ”دارالاشاعت ،کراچی “ سے شائع ہوچکے ہیں ۔

امداد الفتاویٰ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے فتاویٰ کا مجموعہ: یہ مجموعہ ابتدا میں ” فتاویٰ اشرفیہ “ کے نام سے موسوم تھا ، بعد میں اس کا نام ”امداد الفتاویٰ “ رکھا گیا ۔اس فتاویٰ کی ترتیب و تہذیب کا فریضہ مفتی محمد شفیع صاحب  نے سر انجام دیا ہے ۔6جلدوں پر مشتمل اس مجموعہ میں حضرت تھانوی کے 1296ھ سے1326ھ تک فتاویٰ شامل ہیں ،جن کی تعداد تقریباً ساڑھے تین ہزار ہے ۔ اس مجموعہ کے مستند ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت تھانوی کے قلم سے تحریر کیے گئے ہیں، لیکن اس کی مزید خصوصیت یہ ہے کہ سن1296ھ سے 1301ھ تک کے فتاویٰ حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے تصدیق کردہ ہیں اور 1301ھ سے 1323ھ تک کے اکثر اہم فتاویٰ میں حضرت گنگوہی  کے مشورے اور اصلاح شامل ہے ، جس نے اس مجموعہ کے استناد کومزید بڑھا دیا ہے ۔

مفتی محمدتقی عثمانی صاحب  ” امداد الفتاویٰ “ کی اہمیت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”امداد الفتاویٰ کی تیسری جلد مطالعہ فرمائیں، یہ کتاب البیوع سے شروع ہوتی ہے اور زیادہ تر معاملات پر مشتمل ہے ۔ اس میں جدید معاملات کے بھی بہت سے مسائل آئے ہیں اور میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ معاملات کے موضوع پر اس سے زیادہ صاحبِ ثروت کتاب کوئی اورنہیں ہے … معاملات جدیدہ کو سمجھنے اور اس کا فقہی حل نکالنے کے لیے فہم کی ضرورت ہوتی ہے ، اس کتاب کو اگر اچھی طرح پڑھ لیا جائے تو معاملات کا فہم و تفقہ پیدا کرنے میں یہ کتاب بے نظیر ہے ۔“(اصلاحی مضامین:125)

یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہوئی ہے ۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند(جدید)
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب دیوبندی کے تحریر کردہ ہزاروں فتاویٰ کا مجموعہ: حضرت مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند کے باقاعدہ پہلے مفتی تھے۔ آپ چھتیس سال دارالعلوم دیوبند کے منصب افتاء پر فائز رہے، اس دوران آپ کے قلم سے کم و بیش سوا لاکھ فتاویٰ جاری ہوئے، لیکن ابتدا میں نقل فتاویٰ کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر جو فتاویٰ محفوظ رہے ان کی تعداد 37561ہے ۔

مفتی عزیز الرحمن صاحب کے تحریر کردہ فتاویٰ کا ایک مجموعہ ” عزیز الفتاویٰ “ کے نام سے مفتی شفیع صاحب  نے بھی جمع کیا تھا ،لیکن اس میں صرف حضرت مفتی صاحب  کے پانچ سالہ فتاویٰ تھے، جب کہ اس مجموعہ میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کے تمام فتاویٰ کو جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب لکھتے ہیں :
”… جس کا شاہد عدل ذخیرہ فتاویٰ ہے ،جس کا ایک حصہ بہت پہلے مولانا محمد شفیع صاحب مفتی پاکستان نے ” عزیز الفتاویٰ “ کے نام سے شائع فرمایا تھا، مگر اس طرح کہ کچھ حصے مرتب تھے اور کچھ غیر مرتب، کچھ تصحیح جس پیمانہ پر ہونی چاہیے تھی ،نہ ہو سکی تھی ۔ اصل ذخیرہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا میں محفوظ ہے ، اب اس ذخیرہ کو از سر نو دارالعلوم کے ایک پورے عملے کے ذریعہ باضابطہ مرتب کیا جارہا ہے …“۔

یہ مجموعہ 8 جلدوں اور 16 اجزا پر مشتمل ہے ۔ ابتدائی 6 جلدوں اور12 اجزاء کی ترتیب کے فرائض مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب نے سر انجام دیے ہیں ،جب کہ بقیہ آخری اجزا کی ترتیب کے فرائض مفتی محمد امین صاحب پالن پوری نے سر انجام دیے ہیں ۔

فتاویٰ کا یہ مجموعہ دارالاشاعت کراچی سے شائع ہوا ہے ۔اس کا پشتو ترجمہ بھی مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ سے شائع ہوچکا ہے ۔

امداد الاحکام
فتاویٰ کا یہ عظیم ذخیرہ حکیم الامت حضرت تھانوی کے بھانجے حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب کے تحریر کردہ فتاویٰ کا ہے ،جو انہوں نے حکیم الامت  کی زیر نگرانی تحریر کیے ہیں۔ویسے تو حضرت تھانوی  اپنے پاس آنے والے سوالات کے جواب خود ہی تحریر فرماتے تھے، لیکن سوالات کی کثرت کے باعث خانقاہ تھانہ بھون کے بعض دیگر مفتیان کرام سے بھی فتاویٰ لکھواتے تھے ،جو حضرت تھانوی کی نگرانی و راہ نما ئی میں جواب لکھتے تھے،”امداد الاحکام “ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔حضرت تھانوی فرماتے ہیں :
”بعدالحمد والصلاة عرض ہے کہ1340 ھ میں جب بر خوردار مولوی ظفر احمد سلمہ بقصدِ قیام ِ مستقل تھانہ بھون آئے تو منجملہ اور کاموں کے میں نے فتاویٰ کاکام بھی ان کے سپرد کردیا، کیوں کہ کثرت مشاغل کی وجہ سے مجھے کتابوں کی تلاش و تفتیش کی فرصت نہ ہوتی تھی ، بر خوردار سلمہ اُس فتویٰ کو جس میں کچھ بھی کسی اہمیت سے حیثیت ہوتی تھی، اول اول بالالتزام مجھے دکھالیتے تھے اور معمولی فتاویٰ خود لکھ دیتے تھے۔ خدا کے فضل سے فتاویٰ کے کام کو انہو ں نے بااحسن وجوہ انجام دیااور بعد چندے جب دیکھا گیا کہ ماشاء اللہ فتاویٰ نہایت تحقیق سے لکھے جاتے ہیں اور بحمد اللہ ہر ہر پہلو پر نظر کافی ہوجاتی ہے ،تو پھر سب فتاویٰ کے دکھلانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ۔ ہاں ، پھر بھی اکثر فتاویٰ میں مجھ سے مشورہ کرلیتے تھے اور بعض فتاویٰ کو دکھلا بھی دیتے تھے، چناں چہ یہ مجموعہ جو جناب کے سامنے ہے ،اُن ہی فتاویٰ کا مجموعہ ہے ، اس میں اگر چہ سب میرے دیکھے ہوئے نہیں ہیں ،مگر بر خوردار سلمہ کے فتاویٰ پر مجھے تقریبًا ایسا ہی اطمینان ہے، جیسا خود اپنے لکھے ہوئے فتاویٰ پر ، اسی لیے اس کا نام ”امداد الاحکام ضمیمہ امداد الفتاویٰ “ تجویز کرتا ہوں ۔ وباللہ التوفیق“․

چار جلدوں پر مشتمل فتاویٰ کا یہ مجموعہ تقریباً 19 سال (محرم1340ھ تا شوال 1358ھ)کے فتاویٰ پر مشتمل ہے ،جس میں کل فتاوی 2171ہیں ،جن میں 501حضرت مولانا مفتی عبد الکریم گمتھلوی کے تحریر کردہ ہیں اور باقی فتاویٰ حضرت مولانا عثمانی  کے تحریر کردہ ہیں ۔البتہ چند ایسے بھی ہیں جو حکیم الامت حضرت تھانوی کے تحریر فرمودہ ہیں ۔

اس فتاویٰ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اکثر فتاویٰ پر حضرت تھانوی کے تصدیقی دستخط موجود ہیں اور جہاں دستخط نہیں وہ بھی اکثر آپ کے مشورے اورراہ نمائی میں لکھے گئے ہیں ۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلائل کی تفصیل زیادہ ہے ، خصوصاً حضرت مولانا عثمانی  کے فتاویٰ میں احادیث کے دلائل نہایت شرح و بسط کے ساتھ محدثانہ اصول پر ذکر کیے گئے ہیں ۔

فتاویٰ کا یہ عظیم مجموعہ چار ضخیم جلدوں میں مکتبہ دارالعلوم کراچی سے شائع ہوا ہے ۔

کفایت المفتی
مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب  کے فتاویٰ کا مجموعہ:
مفتی صاحب فتویٰ نویسی میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے ،فتاویٰ میں اصابت رائے آپ کا طرہ امتیاز تھا ، جس کی بنا پر آپ کے اساتذہ بھی آپ کے فتاویٰ پر اعتماد کرتے تھے۔مفتی صاحب نے تقریباً نصف صدی (1316ھ تا 1363ھ )فتویٰ نویسی کی خدمت مختلف اداروں میں سر انجام دی اور اس دوران ہزاروں کی تعداد میں فتوے لکھے، لیکن ابتدائی 35 سال کے فتاویٰ انتظام نہ ہونے کی بنا پر محفوظ نہ رہ سکے،آخری 15 سال کے فتاویٰ جو محفوظ رہے ،وہ اور اسی طرح مختلف رسائل و جرائد سے اخذ کر کے، نیز دیگر مختلف مقامات وذرائع سے مفتی صاحب کے فتاویٰ حاصل کر کے مفتی صاحب کے صاحب زادے مولانا حفیظ الرحمن آصف نے ان تمام فتاویٰ کو مرتب کیا، جو اس وقت ہمارے سامنے ” کفایت المفتی “ کے نام سے مدون و مطبوع موجود ہے۔ جس میں تقریباً 4558 فتاویٰ ہیں ۔

فتاویٰ کا یہ مجموعہ 9 جلدوں میں دارالاشاعت ،کراچی سے شائع ہوا ہے ۔ حال ہی میں اس کاجدید ایڈیشن نئی ترتیب و تخریج کے ساتھ14 جلدوں میں جامعہ فاروقیہ کراچی سے شائع ہوا ہے ۔ترتیب جدید و تخریج کے فرائض رفقائے دارالافتاء جامعہ فاروقیہ نے سر انجام دیے ہیں ۔

فتاویٰ رحیمیہ
حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری کے فتاوی کا مجموعہ:
مفتی عبد الرحیم صاحب  کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا تھا ، بالخصوص فتویٰ نویسی آپ کا طرہِ امتیاز تھا۔ آپ نے زمانہ طالب علمی سے ہی فتوے لکھنا شروع کر دیے تھے اور آپ کے فتاویٰ پر اکابر علمائے دیوبند نے بھی اطمینان کا اظہار فرمایا ہے ، جن میں علامہ انور شاہ کشمیری ، حکیم الامت حضرت تھانوی اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب  جیسے اساطین علم شامل ہیں ۔ حضرت مفتی صاحب  بھی اہم مہم مسائل میں اکابر علماء کی طرف رجوع فرماتے تھے۔

مفتی صاحب  کی نظر نہایت وسیع اور عمیق تھی ،جس کا اندازہ مذکورہ فتاویٰ کو دیکھ کر ہوسکتا ہے ۔مفتی صاحب کے فتاویٰ کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ سوال کے ہر ہر گوشے ہر نظر ڈال کر جواب دیتے ہیں اور عبارتوں پر عبارتیں نقل کرتے جاتے ہیں ، نیز آپ صرف کتبِ فقہ پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ قرآن و سنت اور تعامل صحابہ کو بھی ذکر کرتے ہیں ۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ بعض جوابات میں تو اس قدر تفصیل سے کام لیا ہے کہ وہ ایک مکمل رسالہ بن گئے ہیں ،خصوصاً اختلافی مسائل میں مخالفین کے دلائل کے نہایت معقول جواب کے ساتھ ساتھ اہل حق کے تمام دلائل عقلیہ و نقلیہ کو نہایت ہی شرح وبسط سے ذکر کرتے ہیں ۔

” فتاویٰ رحیمیہ“ حضرت مفتی صاحب کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جو آپ نے مختلف اوقات میں تحریر فرمائے ۔یہ فتاویٰ ایک گجراتی ماہ نامہ ”پیغام“ میں شائع ہوتے رہے ، اس کے بعد انہیں اردو کے قالب میں ڈھالا گیا۔ اس فتاویٰ کی ابتدائی ترتیب مولانا محمد میاں صاحب اور حضرت مولاناسعید احمد پالن پوری صاحب نے سر انجام دی ، جس کی صورت یہ تھی کہ ہر جلد میں تمام ابواب فقہ کے مسائل شامل تھے۔

ان فتاویٰ کو جدید طرز پر مرتب کر نے کی ضرورت تھی ،چناں چہ جامعہ بنوری ٹاوٴن کراچی کے دارالافتاء کے رفیق مفتی محمد صالح صاحب  نے اس کو جدید انداز میں مرتب کیا، اس طرح دس حصوں اور پانچ جلدوں میں یہ مجموعہ دارالاشاعت کراچی سے شائع ہوا۔

حال ہی میں اس کا ایک اور ایڈیشن ”مکتبہ حجاز، دیوبند“ سے شائع ہواہے ، جس کی ترتیب نوو تہذیب کے فرائض دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری مد ظلہ اور ان کے بھائی مولانا محمد امین صاحب پالن پوری (مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،جلد:۱۳ تا ۱۵)نے سر انجام دیے ہیں ۔ اس ایڈیشن کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری مد ظلہ نے بعض مقامات پر اپنے قیمتی حواشی تحریر فرمائے ہیں ۔

منتخبات نظام الفتاویٰ
مفتی نظام الدین اعظمی صاحب  کے فتاویٰ:
مفتی نظام الدین اعظمی صاحب  کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک طویل عرصہ دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم الشان ادارے میں افتا کی خدمت سر انجام دی اور ہزاروں کی تعداد میں فتوے لکھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جدید مسائل اور ان کے حل میں غیر معمولی مہارت عطا فرمائی تھی ۔زیر نظر مجموعہ حضرت کے ہزاروں فتاویٰ میں سے ان منتخب مسائل کا مجموعہ ہے جو جدید مسائل سے متعلق ہیں ،مثلاً : سائنس و ٹیکنالوجی،طب و صحت ،جدید ایجادات ، نئے معاملاتی نظام اور مختلف النوع مالیاتی اسکیم… وغیرہ ۔ان فتاویٰ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے ان پیچیدہ اور الجھے ہوئے جدید مسائل ومعاملات کو نہایت شستہ و دل نشین انداز میں سمجھایا ہے ۔مفتیان کرام اور تخصص فی الفقہ الاسلامی کے طلبہ کے لیے یہ مجموعہ جدید مسائل و معاملات کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید اور کا ر آمد ہے ۔

دو جلدوں میں موجود اس مجموعے کو مولانا عبد القیوم قاسمی نے مرتب کیا ہے ۔” مکتبہ رحمانیہ “ لاہور سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے ۔ (جاری)

مفتی محمد ساجد میمن
الفاروق میگزین (جامعہ فاروقیہ)

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں