خشوع کی حقیقت اور حصول

خشوع کی حقیقت اور حصول

عملی کوتاہی
میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کو علم کی فکر ہے، لیکن عمل کی نہیں ۔ بڑا اہتمام اس کا ہوتا ہے کہ ہم ساری کتابیں پوری کر لیں، ہدایہ بھی ، صدرا بھی ، شمس بازغہ بھی، لیکن عمل کرنے کی ذرا بھی فکر نہیں ، قوتِ عملیہ اس درجہ ضعیف ہو رہی ہے، اس درجہ اس میں خلل آگیا ہے، اس قدر مختل ہو رہی ہے ۔

جس کا حساب نہیں ، ایسی ایسی خفیف حرکات کرتے ہیں جس سے افسوس ہوتا ہے، بہت سے معاصی ہیں کہ ان میں شب وروز مبتلا ہیں اور خیال بھی نہیں آتا کہ ہم نے کوئی گناہ بھی کیا ۔ کسی کی چیز بلا اجازت اٹھالی اور جہاں چاہا ڈال دی ۔ کسی کی کتاب بلا اجازت لے لی اور ایسی جگہ رکھ دی کہ اس کو نہیں ملتی ۔ وہ پریشان ہو رہا ہے ۔ کسی سے کسی اچھے کام کا وعدہ کیا اور اس کے کرنے کی اصلاً فکر نہیں ۔ اسی طرح سینکڑوں قصے ہیں کہاں تک بیان کیے جاویں۔

لیکن باوجود ان سب باتوں کے پھر بھی ان کے علم وفضل میں شک نہیں ہوتا، حالاں کہ فقط کسی چیز کا جان لینا کوئی ایسا کمال نہیں۔ یوں تو شیطان بھی بہت بڑا عالم ہے، بڑے بڑوں کو بہکاتا ہے ۔ تفسیر میں وہ ماہر، حدیث سے وہ واقف، فقہ میں وہ کامل ، کیا ہے جس کو وہ نہیں جانتا او راگر زیادہ نہ جانتا ہوتا تو علماء کو بہکا کیسے سکتا ہے؟ جب کوئی شخص کسی فن میں ماہرہوتا ہے جب ہی تو وہ اپنے سے کم جاننے والے کو دھوکا دے سکتا ہے اس میں ( یعنی شیطان میں ) اگر کمی ہے تو صرف اسی بات کی کہ اپنے علم پر عمل نہیں کرتا، چناں چہ حدیث شریف میں بھی آیا ہے ایسا علم جو عمل کے لیے نہ ہو جہنم کا ذریعہ ہے۔

خشوع کی اہمیت
اس حدیث میں (لیجادل بہ العلماء ولیماری بہ السفھاء) ”اس علم کے ذریعہ علماء سے جھگڑا کریں اور عوام کو بے وقوف بنائیں“۔مشکوٰة میں یہ حدیث ان الفاظ سے منقول ہے ۔ من طلب العلم لیجاری بہ العلماء او لیماری بہ السفہاء۔ مشکوٰة34 وغیرہ الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔ ہم لوگ ایسے غافل ہو رہے ہیں کہ اپنی اصلاح کی ذرا فکر نہیں کرتے، بعض لوگ گو قصداً گناہ نہیں کرتے، لیکن بے پروائی کی وجہ سے ان سے گناہ ہو جاتے ہیں ۔ وہ بھی شکایت کے قابل ہیں۔ اگر کوئی ملازمِ سرکاری بے پروائی کرے اور کام خراب کر دے تو اس سے باز پرس نہیں ہو گی ؟

لوگوں نے عبادت کا ست نکال لیا ہے مثلاً بظاہر اٹھ بیٹھ لیے او رنماز ادا ہو گئی ۔ خصوصاً اہل علم بھی اس کا خیال نہیں کرتے کہ سوائے ظاہری قیام وقعود کے اور بھی کچھ ہے اور وہ ضروری بھی ہے۔ جس قرآن میں﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ﴾ ہے، اسی میں خاشعون بھی آیا ہے جب صلاتہم کے لفظ سے نماز کو مطلوبِ شرعی سمجھتے ہیں تو کیا وجہ ہے خاشعون سے خشوع کو مطلوب نہیں سمجھتے؟اسی طرح او رمقامات سے پتہ چلتا ہے کہ خشوع بھی ویسا ہی ہے جیسے قیام ورکوع وغیرہ۔ اسی غلطی کو دفع کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک کو تو ضروری سمجھیں اور دوسرے کو ضروری نہ سمجھیں، حالاں کہ دونوں کا حکم یکساں ضروری ہے۔ یہ خشوع ہی ہے جس سے عبادت اچھی ہوتی ہے، احسان اسی سے حاصل ہوتا ہے ۔ احسان کے متعلق تین چیزیں ہیں۔ اول احسان کا ضروری ہونا۔ دوسرے احسان کی حقیقت۔ تیسرے تحصیلِ طریق احسان۔ اجمالاً اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ احسان خشوع سے حاصل ہوتا ہے اور خشوع کا مطلوب ہونا﴿أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ…﴾۔ سے معلوم ہو چکا ہے، اب اس کا ضروری ہونا سنیے۔ خدا ئے تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا یَکُونُوا کَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْْہِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُہُمْ﴾․(سورہٴ الحدید:16)

ترجمہ:” کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نصیحت اور دین حق ( جو منجانب الله) نازل ہوا ہے اس کے سامنے جھک جائیں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان کے قبل کتاب ملی تھی، پھر ان پر زمانہ گزر گیا( اور توبہ نہ کی ) پس ان کے دل سخت ہو گئے۔“

یہاں ذکر الله میں خشوع کی ضرورت کا بیان ہے اور ذکر الله میں ساری عبادتیں آگئیں۔ دیکھو! عبادت میں خشوع نہ ہونے پر کیسی وعید ہے؟ شکایت کی ہے اور یہود ونصاریٰ سے تشبیہ دے کر ذکر کیا ہے کہ ایسے نہ بنو۔ اس سے ظاہر ہے کہ ترکِ خشوع کیسی بری چیز ہے؟ جس کے باعث کفار کے ساتھ آدمی مشابہ ہو جاتا ہے او را س کا ثمرہ بیان فرمایا:﴿فَقَسَتْ قُلُوبُہُم﴾ قساوت قلب نہایت بری چیز ہے قرآن میں آیا ہے۔﴿ فَوَیْْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکْرِ اللَّہِ أُوْلَئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ﴾

ترجمہ:” یعنی تباہی اور ہلاکت ہے ان کو جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ کھلی گم راہی میں پڑے ہیں۔“

خشوع اختیار نہ کرنے کی وجہ
رسول الله  صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، قلب قاسی خدا سے بہت دور ہے۔ ان نصوص سے ثابت ہوا کہ قساوت بری چیز ہے او رخشوع ضروری ہے، لیکن خرابی یہ ہو رہی ہے کہ لوگ خشوع کی حقیقت نہیں سمجھتے۔ اسی وجہ سے اس کی فکر بھی نہیں کرتے ۔ جو شخص کسی چیز سے واقف نہ ہو گا وہ اس کو حاصل کیا کرے گا؟ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خشوع کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے سوا کسی کا خیال نہ آوے۔ ایسی مدہوشی ہو جاوے کہ تیر برچھا کچھ ہی لگے اس کی خبر نہ ہو ۔ یعنی انسان جماد کی طرح بن جاوے۔ آدمیت سے گزر جاوے، کوئی پوچھے یہ معنی لکھے کہا ہیں اور کس نے لکھے ہیں؟ اس کا کچھ جواب نہیں اور واقعی کہیں بھی یہ معنی نہیں لکھے، یہ شبہ کم فہم اور غیر شفیق واعظوں کی بدولت پڑا ہے، انہوں نے ایسی حکایتیں بیان کیں جن سے لوگ دھوکے میں پڑگئے، پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے ناواقف ہیں۔

مدارس میں کتب تصوف پڑھانے کی ضرورت
اور کیوں نہ ہوں؟ ان کے درس میں کوئی تصوف کی کتاب تو ہے نہیں لیکن عام لوگوں کے سنانے کے لیے موجود ہو گئے، امراض قلبی اور امراضِ باطنی کے علاج کرنے پر آمادہ ہیں۔ وعظ ونصیحت کرنے پر مستعد ،حالاں کہ خود نہیں سمجھتے۔ ان کی تو ایسے شخص کی مثال ہے جس نے نہ طب پڑھی، نہ مطب کیا اور علاج کرنے لگا۔ علاج کے لیے پہلے طب پڑھنا ضروری ہے او رپھرمطب کرنا بھی لازمی ہے، بغیر اس کے قابلیت علاج نہیں آسکتی ،ایسے ہی مدارس کی نسبت کسی نے کہا ہے #
        ایھا القوم الذی فی المدرسة
        کل ما حصلتموہ وسوسہ
        علم نبود غیر علم عاشقی
        ما بقی تلبیس ابلیس شقی
”اے قوم! جو کچھ تم نے مدرسہ میں حاصل کیا وہ وسوسہ تھا، علم عاشقی کے علاوہ جو علم بھی ہے اور ابلیس شقی کی تلبیس ہے۔“

جیسے کنز وہدایہ ضروری ہے ویسے ہی ابو طالب مکی کی ” قوت القلوب“ اور امام غزالی کی ”اربعین“ اور شیخ شہاب الدین کی ” عوارف“ کا پڑھنا بھی ضروری ہے، یہ گویا طب پڑھنا ہے او راس کا مطلب یہ ہے #
        قال را بگذار مرد حال شو
        پیش مرد کاملے پامال شو
”قال کو چھوڑو ، حال پیدا کرو، یہ اس وقت ہو گا جب کسی اہل الله کے قدموں میں جاپڑو“۔

علم باطنی کے حصول کا طریقہ
کیسی ناانصافی ہے کہ جب دس برس علمِ ظاہری کی تحصیل میں صرف کیے تو دس ماہ تو باطن کی اصلاح میں صرف کرو اور اس کا یہی طریق ہے کہ کسی کامل کی صحبت میں رہو۔ اس کے اخلاق، عادات، عبادات کو دیکھو کہ غصہ کے وقت اس کی کیا حالت ہوتی ہے؟ شہوت کے وقت وہ کیسی حالت میں رہتا ہے؟ خوشامد کا اس پر کہا ں تک اثر پڑتا ہے؟ اسی طرح تمام اخلاق کا حال ہے، کیوں کہ پھر جب کبھی اس کو غصہ آئے گا تو سوچے گا کہ اس کامل کی غصہ کے وقت کیا حالت ہوئی تھی ہم بھی ویسا کریں۔ اس کے اخلاق وعادات پیش نظر ہو جاویں گے ۔ یہ اس کا مطلب ہوا۔ چناں چہ کہا ہے #
        اے بے خبر بکوش کہ صاحب خبر شوی
        تا راہ بیں نباشی کہ راہبر شوی
        در مکتب حقائق پیش ادیب عشق
        ہاں اے پسر بکوش کہ روزے پدر شوی
” اے بے خبر! کوشش کر کہ صاحب خبر ہو جائے، جب تک راستہ دیکھنے والا نہ ہو گا راستہ دکھانے والا کیسا ہو گا؟ اس لیے حقائق کے مدرسہ میں ادیب عشق کے سامنے کوشش کر، ایک نہ ایک روز باپ یعنی (مصلح) بن جائے گا۔“

واعظوں کی خرابیاں
ساری خرابیاں ان ہی ناعاقبت اندیش واعظوں کی ڈالی ہوئی ہیں، ایسی ایسی حکایتیں بیان کرتے ہیں جس سے لوگ سمجھتے ہیں کہ عمل کرنا بہت دشوار ہے اور جو کچھ کرتے ہیں ایسی حکایتوں کی وجہ سے اس کو بھی چھوڑ بیٹھے ہیں۔

مثلاً طلبِ حلال کے متعلق یہ حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب حلال روزی کی طلب میں نکلے ۔ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جس کے پاس حلال روزی کی خبر لگی تھی ۔ اس نے جواب دیا، تھی تو میرے پاس لیکن چند روز سے حلال نہیں رہی۔ اتفاق سے میرا بیل دوسرے کے کھیت میں چلا گیا۔ دوسرے کھیت کی مٹی اس کے پیر میں لگ کر میرے کھیت میں آگری ہے، اس لیے اب روزی حلال نہیں رہی ۔

محض مستبعد بات ہے، اول تو یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی کے بیل کھیت ہی میں ہمیشہ رہا کریں۔ باہر نکلنے کی نوبت ہی نہ آئے، اگر ہو بھی تو اس سے کہیں حرمت آتی ہے او رتمام امور سے قطع نظر کرکے اگر اس کی کوئی توجیہ بھی ہو تو اس بزرگ کی خاص حالت ہو گی، عام تکلیف تو نہیں دی جاسکتی ہے، اب ظاہر ہے کہ اس حکایت کو سن کر یہ خیال پیدا ہو گا کہ حلال روزی تو ممکن نہیں ۔ اس لیے پھر خوب دل کھول کر حرام ہی کمایا جائے۔ جس طرح ملے چوری سے ، دغا بازی سے ، رشوت سے، سود سے، سب لینا چاہیے اور اس طرح تباہ ہو جاتے ہیں ، ایسی باتیں بیان کرنے سے ان کی غرض ہوتی ہے کہ وعظ میں ذرا رنگ آجائے، نئی بات ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پسند آئے، خوب واہ واہ ہو۔ شریعت میں ہر گز ایسی تنگی نہیں ہے۔

احمق بخیل کی حکایت
اس تنگی کی تو ایسی مثال ہے جیسے ایک بخیل صاحب کی حکایت ہے کہ ایک دفعہ بے چراغ بڑھائے ہوئے نماز پڑھنے کو مسجد چل کھڑے ہوئے، راستہ میں یاد آیا کہ یہ فضول خرچی ہے، لوٹ کر چراغ گل کرنے آئے، لونڈی نے پوچھا خیر تو ہے؟ حضور کیسے لوٹ آئے؟ اتنی فضول خرچی ہوئی کہ آپ کے یہاں تک آنے میں جوتا گھس گیا ہو گا۔ بڑے خوش ہوئے او رجواب دیا کہ چراغ جلتا چھوڑ گیا تھا ،اس کے بجھانے کو آیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے پہلے ہی گل کر دیا تھا۔ وہ بولے کہ شاباش! تو بڑی محتاط ہے اور تجھے فکر ہے کہ کوئی فضول خرچی نہ ہو، حتی کہ میرے جوتے گھسنے کا بھی خیال ہے، لیکن سمجھ لے کہ میں نے لوٹتے وقت جوتا اتار کر بغل میں دبالیا تھا۔

(لاحول ولا قوة الا بالله) شریعت ایسی مہمل باتوں سے پاک ہے، ایسی تنگی اس میں کہاں؟

خشوع کے غلط معنی
بلکہ جب حلال صورتیں بکثرت بتلائی جائیں گی تب توفیق عمل کی ہو گی، حلال روزی کی فکر کریں گے، سمجھ لو کہ ہدایہ وکنز وغیرہ میں تو جو چیزیں حلال لکھی ہیں وہ بلاشبہ حلال ہیں۔ اس میں ذرا شک نہیں، بات کیا ہے کہ اہل باطن مغلوب الحال تھے ،یہ ان کی حکایتیں ہیں ،عوام کے سامنے اس کو بیان کر دیا۔ یہ تو وہی مثل ہے کہ ایک شخص کو پیچش کا عارضہ تھا ،حکیمصاحب نے اس کے لیے وہی خشکہ تجویز فرمایا او رایک شخص کو ضعف دماغ تھا۔ اس کے لیے مقوی چیزیں گوشت، یخنی، دودھ ، قورمہ تجویز کیا۔ ا ب اگر پیچش والا سن کر اس پر عمل کرنے لگے تباہ نہیں ہو گا تو کیا ہو گا ،مرے گا۔

اسی طرح جو حالات بیان کیے تھے سچ تھے، لیکن یہ کس کے تھے اہل باطن کے لیے ، یہ ضروری نہیں کہ ہر سچی بات بیان کرہی دی جائے، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی خشوع ہے اور یہی بڑا کمال ہے کہ تیر بھی لگے تو خبر نہ ہو، حالاں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ نماز کو ذرا طویل کروں، لیکن کسی بچہ کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں پریشان ہو جائے گی۔

اب بتلائیے کہ یہ کمال کی حالت ہے یاوہ ؟ تیر کی خبرنہ ہونا بھی ایک حالت ہے، جسے استغراق ومحویت کہتے ہیں۔ لیکن وہ خشوع نہیں ہے، نماز کے معنی اگر کوئی بیان کرے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک نہ کھانا تو یہ غلط ہے، اگر چہ نماز بھی کوئی چیز ہے، لیکن یہ نماز نہیں ہے، اسی طرح یہ حالت تو ضرور ہے، لیکن یہ خشوع نہیں ہے۔یہ تو ایسی ہی بات ہوئی جیسے کہ ایک مرتبہ مقدمہ پیش ہوا۔ مدعا علیہ نے گواہ پر جرح کی کہ نماز نہیں پڑھتا۔ اس نے کہا کہ واہ صاحب! میں تو حج بھی کر آیا ہوں۔

قاضی نے اس سے پوچھا کہ اچھابتلا زمزم کیا ہے؟ اور عرفات کیا چیز ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ زمزم ایک بوڑھا آدمی ہے او رعرفات ایک باغ ہے، جس میں وہ بوڑھا بیٹھا ہوا ہے۔ قاضی نے کہا کہ کیا غلط کہتا ہے، فضول بکتا ہے، ہم نے خود حج کیا ہے، زمزم ایک کنویں کا نام ہے اور عرفات ایک جنگل ہے ۔اس نے کہا جب میں گیا تھا اس وقت تو یہی تھا، آپ کے جانے کے وقت بدل گیا ہو گا۔

خشوع کے معنی یہ کہنا کہ کچھ خبر نہ ہو، ایسا ہی ہے جیسے حاجی کا ذب نے کنویں اور عرفات کی حقیقت بیان کی تھی ۔ ہاں اس کا انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ بھی ایک حالت ہے، جیسے عرفات وزمزم کا وجود واقعی تھا گو جو وہ کہتا تھا، نہ تھا۔ گو بعض لوگ سرے سے اس حالت ہی کا انکار کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ یہ امر خلافِ فطرت ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص نماز پڑھتا ہو اس طرح کہ اس کو تیر لگنے کی خبر نہ ہو ۔ اس منکر کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی مادر زاد عنین لذتِ جماع کا انکار کرے یا کوئی مادر زادا اندھا کہے کہ لوگ جس کو دیکھنا کہتے ہیں وہ کوئی چیز نہیں، حالاں کہ ایسے واقعات ثابت ہوئے ہیں۔

امام مالک کا ادبِ حدیث
امام مالک حدیث شریف کا بیان کر رہے تھے، ان کی آستین میں کہیں سے کم بخت ایک بچھو گھس گیا تھا۔ وہ ڈنک مارتا تھا، جس کے صدمہ سے ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا، لیکن اُف نہیں کرتے تھے۔ اور برابر حدیث شریف بیان کرتے رہے۔ حتی کہ گیارہ بار اس نے نیش زنی کی، جب گھر میں آکر کرتا اتارا تو کرتے میں خادم نے بچھو کو دیکھ کر عرض کیا کہ آپ نے اس وقت کیوں نہیں اظہار فرمایا؟ جواب دیا کہ مجھے شرم آئی کہ حدیث شریف کے بیان کے وقت دوسری طرف متوجہ ہوں۔

لیکن باوجودیکہ خشوع کے یہ معنی نہیں کہ دوسرا خیال نہ آوے، جو شخص خشوع کی حقیقت نہ سمجھے گا، سخت غلطی میں مبتلا ہو گا، سمجھے گا کہ دوسرا خیال تورک نہیں سکتا اور بندہ خشوع کا ہے مکلف اس لیے﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا﴾(سورہ بقرہ)

ترجمہ:” الله تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے“ میں شک کرنے لگا۔ ایسی حکایتوں سے یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔

خشوع کی حقیقت
اب چاہیے کہ خشوع کی حقیقت کو خوب سمجھ لیا جائے، پہلے لغت کے موافق اس کے معنی بیان کیے جاتے ہیں، پھر شرعیات سے اس کی تائید کر دی جائے گی، اس سے معلوم ہو جائے گا کہ خشوع کیا چیز ہے؟ خشوع کے معنی ہیں دب جانا، پست ہو جانا، یعنی سکون، جیسا کہ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے ﴿وَمِنْ آیَاتِہِ أَنَّکَ تَرَی الْأَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْْہَا الْمَاء اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ﴾․(سورہٴ السجدہ:39)

”یعنی منجملہ اس کی (قدرت اور توحیدکی ) نشانیوں کے ایک یہ ہے کہ اے مخاطب! زمین کو دیکھ رہا ہے کہ دبی دبائی پڑی ہے، پھر جب اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے۔“

چوں کہ ”اہْتَزَّتْ وَرَبَت“ سے ”خَاشِعَة“ کا مقابلہ کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اہتزاز اوربڑھنے اور ابھرنے میں حرکت ہے تو خاشعة کے معنی سکون اور پستی والے کے ہوں گے او رمقابلہ سے ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ خود لغت شاہد ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شے کی حرکت وسکون جدا گانہ ہوتا ہے، مثلاً اگر کہا جاوے کہ ہاتھ چل رہا ہے تو اس کے معنی ہلنے اور نقل مکانی کے ہوں گے اور اگر کہا جاوے کہ فلانے کی طبیعت خوب چلتی ہے تو یہاں یہ معنی نہیں مراد ہوں گے ،بلکہ یہاں اور معنی ہوں گے یعنی ذکر کرنا اور سوچنا جب یہ معلوم ہو گیا تو اب سنیے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو دو قسم کی چیزیں عنایت فرمائی ہیں، ظاہر او رباطن یا یوں کہو کہ جوارح اور قلب، پس کمال خشوع کے یہ معنی ہوئے کہ جوارح بھی ساکن ہیں اور قلب بھی، لیکن دونوں کا سکون جدا جدا ہے۔

جوارح کا سکون تو یہ ہے کہ ادھر ادھر دیکھے نہیں ، ہاتھ پیر نہ ہلائے اوراس کے خیالات کا نام حرکت ہو گا اور قلب کا سکون اس کی حرکت کے مقابل ہے، حرکت تو یہ ہے ، خیال کرنا ، تصور کرنا، فکر کرنا، یعنی سوچنا فعل اختیاری ہے اور قدرت واختیار ضدین سے متحقق ہوتا ہے، پس جب یہ حرکت اختیاری ہے تو اس کے مقابل سکون بھی یعنی نہ سوچنا بھی اختیاری ہو گا ۔ اور آدمی اختیاری ہی چیزوں میں مکلف ہوتا ہے لہٰذا خشوع کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنے اختیار سے دوسرا خیال نہ لانا۔ یہ نہیں کہ دوسرے خیال کا دل میں نہ آنا، یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں، خیال کا آنا تو اختیاری نہیں ہے اور خیال کا لانا اختیاری ہے ،پس خشوع کے یہ معنی ہوئے کہ اپنے اختیار سے دوسرے خیالات دل میں نہ لاوے ،رہا اگر کوئی خیال بلا اختیار آوے تو وہ خشوع کے منافی نہیں۔

غیر اختیاری وساوس کی حقیقت وعلاج
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بعض صحابہ رضی الله عنہم نے پوچھا کہ ہمارے دل میں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ جل کر کوئلہ ہو جانا ان سے آسان معلوم ہوتا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( أوجدتموہ؟ قالوا: نعم قال: ذلک صریح الایمان) یعنی آپا نے دریافت فرمایا کیا تم نے اس کو پایا ہے یعنی کیا ایسے خیالات آتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں! آپ نے فرمایا یہ تو صریح ایمان ہے ۔او رکیوں نہ ہو؟ چور تو وہیں آتا ہے جہاں مال ہو، متاع ہو۔ اسی طرح شیطان وہیں آتا ہے جہاں متاعِ ایمان ہو۔ مولانا روم فرماتے ہیں #
        دیو آید سوئے انساں بہر شر
        پیش تو نیاید کہ از دیو بدتر
”شیطان تو انسان کی طرف شر کے لیے آتا ہے، تیرے پاس نہ آئے گا کہ تو شیطان سے بدتر ہے۔“

شیطان بڑا استاذ ہے، اپنے فضول وقت ضائع نہیں کرتا، جو خود شیطان بن گیا ہے اس کو بہکانے کی کوشش نہیں کرتا۔ ہاں! جس میں کچھ ایمان باقی ہے اس کی فکر میں رہتا ہے، اپنی دھن کا پکا ہے، ایمان داروں ہی کے پیچھے پڑا رہتا ہے ہم لوگوں کو تو اس سے اس خاص صفت میں سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔

ایک چور نہایت نامی تھا، ہمیشہ چور ی کیا کرتا تھا ،آخر ایک مرتبہ سولی دے دی گئی حضرت جنید  نے دوڑ کر اس کے پیر چوم لیے، لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ اس کی استقامت قابل تعریف ہے، اگر ہم خدا کی اطاعت میں ایسی استقامت کریں تو ہمارے مدارج کا کہیں ٹھکانا ہی نہ رہے۔

اپنے کام میں لگا رہنا چاہے اور وسوسے اور خیالات کی کچھ پروانہ کرنا چاہیے، بڑے بڑے خطرات جن پر عمل نہ ہو مگر طبیعت منقبض ہو ان کی پرواہ نہ کرے، نہ الجھے، بزرگوں کو ہی آتے ہیں، فاسقوں کو ایسے خیالات نہیں آتے اور ان وساوس سے پریشانی کا باعث یہی ہے کہ کسی طبیب قلب کی صحبت نہیں نصیب ہوئی۔ اگرکوئی جاننے والا مل جاتا تو کہہ دیتا کہ اگر وسوسے آتے ہیں تو آنے دو، کچھ پروانہ کرو۔ قلب کی حالت تو شاہی سڑک کی سی ہے کہ اس پر حاکم، رئیس اور ادنیٰ چمار دونوں گزرتے چلتے جاتے ہیں #
        بحر تلخ وبحر شیریں ہمعناں
        درمیاں شاں برزخ لا یبغیاں
”بحر تلخ اور بحر شیریں دونوں برابر جاری ہیں، مگر ان کے درمیان ایسا پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے باہم مختلط او رمشتبہ نہیں ہوئے۔“

شیطان کی حالت کتے کی سی ہے۔ کتا بھونکا کرے اور التفات نہ کیا جائے تو آپ چپ ہو جاتا ہے او راگر اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کو دفع کرنا چاہے او رزیادہ غصہ کرکرکے بھونکتا ہے، اسی طرح وساوس شیطانی کی طرف التفات ہی نہ کرے۔ کیوں کہ شیطان سے جو دبتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے، اس کے سامنے آموجود ہوتا ہے، وسوسہ پر جو غمگین ہو گا وہ سخت پریشان ہو گا، بلکہ جب وسوسہ آئے تو او رخوش ہونا چاہیے کہ الحمدلله دولتِ ایمان موجود ہے، اگر آدمی میں قوت توکل اور اعتماد علی الله کی صفت ہو تو ایک شیطان کیا اگر لاکھ شیطان ہوں تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں! قصداً خیال کا لانا بے شک منافی خشوع او رحضورِ قلب کے ہے۔

اب اس تقریر سے ذہن نشین ہو گیا ہو گا کہ خشوع او رحضورِ قلب اختیاری ہے اور نہایت آسان ہے۔

حضور قلب کا طریق
لیکن تاہم جب تک طریق نہ معلوم ہو اور اس پر عمل نہ کیا جائے، کام یابی نہیں ہو سکتی، کپڑا سینا آسان ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ کیسے کپڑا سیتے ہیں، لیکن سینا جب ہی آسکتا ہے کہ کسی درزی سے طریقہ سیکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، اسی طرح حضورِ قلب کا حال ہے، اس طریق کا سمجھنا ایک مقدمہ پر موقوف ہے، یہ مسئلہ عقلی ہے کہ #
        النفس لاتتوجہ الی شیئین فی أن واحد
”یعنی پوری توجہ ایک ہی چیز کی طرف ہوا کرتی ہے ایک آن میں“

اگر دو چیزیں خیال میں ہوں تو سمجھنا چاہیے کہ دونوں میں سے کسی کی طرف بھی پوری توجہ نہیں یا دو چیزیں نظرآتی ہیں تو توجہ کامل دونوں میں سے ایک کی طرف بھی نہیں۔ جس چیز کو آدمی گھورتا ہے اسی کی طرف دیکھنے میں توجہ ہوتی ہے، اس سے معلوم ہوا ہو گا کہ طریقہ یہی ہے کہ ایک کا خیال رکھیں تو دوسرے خیالات خود دفعہ ہو جائیں گے اور کوئی خیال نہ آئے گا، کیوں کہ اگر یہ کوشش کی جائے کہ ایک ایک کرکے خیالات دفع کیے جائیں تو سخت دشواری پیش آئے گی اور دفعہ ہونا ناممکن ہو جائے گا، کیوں کہ اول تو دیکھی ہوئی چیزیں انسان کی بکثرت ہیں، پھر علاوہ اس کے انسان کی قوتِ متفکرہ متخیلہ کو ترکیب دے دے کر بے تعداد فرضی صورتیں اختراع کیا کرتی ہیں۔ (جاری)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
جامعہ فارقیہ کراچی

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں