شام: ضرورت مند بچوں کی تعداد 55 لاکھ ہوگئی

شام: ضرورت مند بچوں کی تعداد 55 لاکھ ہوگئی

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کے دوران شام میں ضرورت مند بچوں کی تعداد دوگنی ہوکر 55 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

یونیسیف کی تازہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 10 لاکھ بچے ایسے علاقوں میں قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں ان کی اور دیگر انسانی ہمدردی کی تنظیموں کی رسائی نہیں ہے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ شام میں بچوں نے اپنی جانیں اور اپنے اعضاء گنوائے ہیں، یہاں تک کہ وہ بچپن کے تمام عناصر سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران شام کی خانہ جنگی میں 10 ہزار سے زیادہ بچے مارے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقیقی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
’انڈر سیج‘ یعنی محصور نامی یونیسیف کی رپورٹ میں موجود اعداد و شمار شام میں بچوں پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کا اشاریہ ہیں۔
تقریباً 10 لاکھ بچے ان علاقوں میں رہتے ہیں جو یا تو محصور ہیں یا پھر وہاں امدادی تنظیموں کے لیے پہنچنا بہت دشوار ہے جبکہ 30 لاکھ بچوں کی تعلیم مکمل طور سے انتشار کا شکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق اندرون ملک شام میں 30 لاکھ بچے بے گھر ہیں اور ایک سال کے اندر ان کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ 12 لاکھ بچے دوسرے ملکوں میں پناہ گزین بن کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ پہلے یہ تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ بتائی گئی تھی۔ مجموعی طور پر سوا چار لاکھ بچے پانچ سال سے کم عمر کے ہیں۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو وقت سے پہلے کم عمری میں ہی گذر بسر کے لیے کام کرنا شروع کرنا پڑتا ہے جبکہ پیسوں کے لیے لڑکیوں کو شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 12 سال تک کے لڑکوں کو جنگ میں لڑنے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تقریباً 20 لاکھ بچوں کو صدمے سے نکلنے کے لیے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ اب تک انھیں اپنے کام کو اچھے طور پر کرنے کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہے ان میں سے وہ صرف آٹھ فیصد ہی حاصل کر سکے ہیں۔
یونیسیف کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر انتھونی لیک نے کہا ’اس جنگ ختم ہونا چاہیے تاکہ بچے اپنے گھروں کو واپس آ سکیں اور اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ محفوظ زندگی گذار سکیں۔ شام کے بچوں کے لیے یہ تباہ کن تیسرا سال آخری ہونا چاہیے۔‘

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں