یہ غفلت نہیں قتل ہے… کس سے منصفی چاہیں

یہ غفلت نہیں قتل ہے… کس سے منصفی چاہیں

حضرت عمرؓ نے تو فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی مر گئی تو عمرؓ سے اس کے بارے میں یوم حشر کے دن سوال ہو گا۔

مگر ہماری بے حسی دیکھیں کہ تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے 124 بچے موت کی نیند سو چکے جو میری نظر میںان بچوں کا قتل تھا۔ اللہ کی پکڑ سے غافل بے حس قاتل ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ غفلت ہوگئی۔ قاتل وہ ہیں جنہوںنے تھر میں بھوک سے بلک بلک کر مرنے والے بچوں کو اپنی ’’غفلت‘‘ کی وجہ سے کھانے کو توکچھ نہ دیا مگر تھوڑی ہی دور سندھ فیسٹیول کے نام پر بے شرمی اور بے حیائی کے فروغ کے لیے ڈیڑھ ارب روپے اڑا دیے۔ اس فیسٹیول کا ایک مقصد حکومت کی تشہیر بھی تھا۔ پیسہ عوام کا مگر خرچ لیڈروں کی عیاشی پر۔ سندھ حکومت کے اہم ذرائع کے مطابق گزشتہ سال (2013) بھی حکومت سندھ کے سوشل ریلیف فنڈسے 85 کڑور روپیہ اہم رکن کی پبلسٹی کے لیے ایک اشتہاری ایجنسی کو دیا گیا۔ سوشل ریلیف فنڈ کا مقصد غریب اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ہوتا ہے مگر سندھ حکومت نے اس فنڈ میں سے یہ کثیر رقم تشہیر کے لیے دی۔ ذرائع کے مطابق قومی خزانہ سے یہ رقم دیتے وقت قانونی تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ جس اشتہاری ایجنسی کو یہ پیسہ دیا گیا اُس کی ذمہ داری اس حکومتی رکن کو یہ سکھانا تھا کہ اُس کو عوام کے سامنے کیسے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے، تقریر کا انداز کیا ہونا چاہیے، لباس کیسا پہننا چاہیے، گفتگو کیسے کرنی چاہیے۔ دراصل قومی خزانہ سے 85 کروڑ روپیہ اس لیے دیا گیا کہ ڈرامہ بازی سکھائی جائے۔ اس کو یہ بتایا جائے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ کس طرح حکومت میں کچھ کئے بغیر، کرپشن اور خراب حکمرانی کے باوجود عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم ہی تمھاری آخری امید ہیں۔ غریبوں کے لیے مختص اس 85 کروڑ کو اہم حکومتی رکن کی بجائے سندھ کے غریب کے لیے خرچ ہونا چاہیے تھا۔ اگر لاکھوں یا چند کروڑ کی خوراک ہی تھر کے بچوں کے لیے فراہم کی جاتی تو اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا۔ اگر ان بچوں کو علاج مہیا ہوتا توبھی حالات اتنے ابتر نہ ہوتے مگر غریبوں کے نام پر حکمرانی کرنے والوں کی سگندلی دیکھیں کہ اپنی عیاشیوں کے لیے تو اربوں خرچ کر دیتے ہیں مگر بھوک سے مرنے والے بچوں کے لیے نہ تو اُن کے پاس وقت ہے نہ پیسہ۔ کس آسانی سے کہہ دیاگیا کہ غفلت ہو گئی مگر اس پر نہ کسی کی سرزنش کی گئی اور نہ ہی کسی انکوائری کا حکم دیا گیا۔ جب ہر طرف شور اُٹھا تو معمول کی کاروائی کرتے ہوے تھر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو تبدیل کردیا۔ نجانے اور کتنے بچے ابھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھویں گے ۔ ٹویٹر اور ماڈلنگ کی سیاست کرنے والے نے بھی کسی شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی پچھتاوے کا بلکہ سارے معاملہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں یہ کہہ دیا کہ بچوں کی اموات قحط کی وجہ سے نہیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ وہ سندھی عوام کو ماضی کے طرح بے وقوف بناتے رہیں گے چاہے تھر کے کتنے ہی اور بچوں کا قتل ہوجائے۔ اگر انہیں واقعی غریب کا احساس ہوتا یا یہ ڈر اور خوف کہ سندھی عوام اُن سے جوب طلبی کر سکتے ہیں تو قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ ابھی تک قائم و دائم نہ ہوتی۔ دنیا کے کسی اور ملک میں یہ واقعہ ہوا ہوتا تو اس وقت تک اُس حکومت اور حکومتی پارٹی کے لیے قیامت آ چکی ہوتی۔ویسے تو پاکستان بھر میں غریب کا کوئی پرسان حال نہیں مگر سندھ کے غریب عوام کو حکومت کی طرف سے جس سرد مہری کا سامنا ہے اُس کا کوئی موازنہ نہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی حکومتیں پہلے کے مقابلہ میں کافی بہتر ہیں۔ بلوچستان کے عوام کے لیے بھی نواب رئیسانی جیسے نااہل حکمران کی جگہ ڈاکٹر مالک کا برسر اقتدار آنا خوش آئند ہے۔ مگر نجانے سندھ کی عوام نے کیا جرم کیا کہ جو پہلے اُن کی قسمت سے کھیل رہے تھے وہ اب بھی ان کی تقدیرکا فیصلہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں عوام نے ہمیں ووٹ دیا اور اب یہ اُن کا حق ہے کہ جو مرضی میں آئے پانچ سال تک کریں۔ گویا کہ license to kill مل گیا۔ جو مرضی آئے کریں۔ چاہے عوام مرے یا جئیں۔اور سندھ میں یہی ہو رہا ہے۔ چلیں اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ نے اس سنگین معاملہ کا نوٹس لے لیا۔ جو تھر میں ہوا وہ آئین کے ساتھ ساتھ اسلامی اصولوں کے بھی برخلاف تھا۔حکومت اور پیپلز پارٹی کے لیے تو یہ سنگدلی محض ’’غفلت‘‘ تھی مگر میری سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ تمام متعلقہ افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ انکوائری بھی کروائی جائے کہ سندھ حکومت نے سندھ فیسٹیول کے لیے کتنا پیسہ خرچ کیا اور سوشل ریلیف فنڈ کا استعمال کیسے کیا گیا۔ تھر کے بچوں کے اس قتل عام پر تمام ذمہ داروں کی سخت پوچھ گچھ ہونی چاہیے تا کہ آئندہ کوئی حکمران، کوئی حکومت ایسی ’’غفلت‘‘ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

انصار عباسی
بشکریہ جنگ نیوز

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں