قیامت میںنجات کے لیے پاک اور مومن دل کی ضرورت ہے

قیامت میںنجات کے لیے پاک اور مومن دل کی ضرورت ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اسلامی اخلاق کی پاسداری پر زندگی کے ہر لمحے میں زور دیتے ہوئے ’پاک اور ایمان سے بھرے دل‘ کو انسان کی نجات کے لیے واحد راستہ قرار دیا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ اٹھائیس فروری دوہزار چودہ کا آغاز قرآنی آیات: «يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ*إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ» [شعراء: 88-89]، (جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دے گی مگر جو الله کے پاس پاک دل لے کر آیا) کی تلاوت سے کیا۔

انہوںنے کہا: اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاوں کے تذکرے کے بعد ان آیات کے ذریعے ہمیں خبردار کیا کہ آخرت میں کیا کام آئے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زبان اور عمل دونوں کے ذریعے جہادکیا ؛ آپ نے حق کو کھل کر بیان کیا اور بتوں کو توڑ ڈالا۔ حضرت ابراہیم نے ایک ایسے معاشرے میں بہادری کا مظاہرہ کیا اور لوگوں کو حق کی جانب بلایا جہاں معاشرے کے تمام افراد ان کی مخالفت کرتے تھے، حتی کہ ان کا خاندان اور گھروالے بھی ان کی بات نہیں مانتے تھے۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی: ”اور مجھے جنت کے وارثوں میں کردے۔“ اور پھر دعا کی: ”میرے باپ کوبخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا۔“لیکن جب انہیں معلوم ہوا ان کے والد کا خاتمہ کفر وشرک پر ہوگا تو آپ نے اس سے برائت کا اعلان کیا اور اللہ کے دربار میں عذر پیش کیا۔

ممتاز سنی عالم دین نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے ساتھ روز محشر کا تعارف بھی یوں فرمایا: ”جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دیں گے۔“ لوگ اس دنیا میں اپنی اولاد کی خاطر حلال حرام کی پرواہ نہیں کرتے، دھوکہ بازی اور حرام خوری کرکے اپنی آخرت تباہ وبرباد کرتے ہیں؛ لیکن قیامت کو یہ بچے ان کے کسی کام میں نہیں آئیں گے۔

شیخ الاسلام نے ’پاک وصاف دل‘ کو آخرت میں نجات کا واحد راستہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا: مال و اولاد نہیں بلکہ نفاق، شرک اور ریا وتکبر سے پاک دل کی ضرورت ہے تاکہ انسان نجات پالے۔ گناہوں سے خالی دل جو ایمان سے مالامال ہو انسان کو کامیابی کی دہلیز پر لے جاسکتاہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے حاضرین کو اسلامی اخلاق کی پاسداری کی ترغیب دیتے ہوئے کہا: جیسا کہ احادیث میں آیا ہے اللہ کی صفات اور اخلاق اختیار کریں ؛ بدزبانی، بداخلاقی اور سختی سے گریز کرکے لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اچھے اخلاق کا مطلب ہے لوگوں کے لیے مفید وکارگر ہونا۔ اگر کوئی کسی محکمے میں ملازمت کرتاہے تو اسے لوگوں کا کام پورا کرنا چاہیے، بلاوجہ کسی کا وقت ضائع مت کریں۔ مقروض لوگ قرضہ جلدی واپس کرائیں اور قرض خواہ حضرات بھی اپنا پیسہ واپس لینے میں نرمی کا مظاہرہ کریں۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی تعلیمات اور اخلاق سے مسلم قومیں دور ہوچکی ہیںاور بعض غیرمسلم قومیں اس سلسلے میں ہم سے آگے ہیں۔ اللہ کی قسم اگر ہم قرآن وسنت پر عمل کریں، اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی اور پوری دنیا ہمارے سامنے سرتسلیم خم کرے گی۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں