شعائر ﷲ کی تعظیم اہل اسلام پر واجب ہے

شعائر ﷲ کی تعظیم اہل اسلام پر واجب ہے

کتاب ﷲ قرآن کریم میں کئی مقامات پر لفظ شعائر ﷲ کاتذکرہ ہوا۔ شعائر ﷲ کا عام مفہوم یہی ہے کہ ﷲ کی نشانیاں۔ یہ کونسی نشانیاں ہیں کہ جن کی تعظیم کا ﷲ نے حکم فرمایا۔

مختلف مواقع پر ﷲ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنی طا قت اور حقانیت کا اظہار فرمایا یا ﷲ کے پیاروں نے معرفت الہی سے سرشار ہو کر ﷲ پاک کے ہر اس حکم کی تعمیل کی جو عام انسان کی سوچ اور ہمت سے ماوراء ہے۔ یا کبھی ﷲ کے پیاروں کی حقانیت اور سچائی کے اظہار کے لیئے بطور سند عجائبات کا ظہور فرمایا۔ روئے زمین پر ایسی نشانیاں شعائرﷲ قرار دی گئیں۔ سورۃ البقرۃ آئت نمبر۱۵۸ کا مفہوم : بے شک صفا اور مروہ ﷲ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو ﷲ نیکی کا صلہ دینے والا خبردار ہے: یہ دو پہاڑ ہیں جو کعبہ معظمہ کے مقابل جانب مشرق ہیں مروہ شمال کی جانب اور صفا جنوب کی طرف کوہ ابو قبیس کے دامن میں ہے ۔ ان دونوں پہاڑوں کے قریب جہاں اب چاہ زم زم ہے بحکم الہی سیدہ حضرت ھاجرہ سلام ﷲ علیھازوجہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل ﷲ علیہ السلام نے اپنے لخت جگر سیدنا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ہمراہ سکونت اختیار فرمائی۔ یہ چٹانی مقام تھا جہاں پانی یا سبزہ کا نام و نشان بھی نہ تھا ، جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پر پیاس کی شدت کا غلبہ ہوا توممتا اپنے لخت جگر کے لیئے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان دوڑیں اور ساتویں چکر میں اپنے لخت جگر کے پاؤں میں چمک پاکر جب قریب آئیں تو پانی تیزی کے ساتھ زمین سے نکلتا پایا اور فرمایا رک جا رک جا(زم زم)پانی نے عظیم المرتبت اماں جی سلام ﷲ علیہا کا حکم مانا اور بہنا بند کیا۔ اب یہ پہاڑ اور آب زم زم شعائرﷲ میں داخل ہوئے۔ جنت کی نہر کا دہانہ ﷲ کے نبی کے قدموں میں کھول دیاگیا۔ اسے نبی کریم ﷺ نے مومن اور منافق کی پہچان قرار دیاہے۔ بیت ﷲ شریف کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے کی تو جس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہوکر تعمیر کعبہ کی اسے بھی شعائرﷲ میں شامل کیا گیااور فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ پر نماز پڑھو۔ جنت سے لایا گیا پتھر بھی شعائرﷲ میں داخل ہے۔پھر دیکھئے کہ ﷲ کے حکم کی تعمیل میں باپ نبی اپنے نبی بیٹے کو ذبح کرنے چلے ۔ ابلیس نے انہیں ﷲ کے حضور گرد ن رکھنے سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کی مگر دونوں باپ بیٹے سے پتھرکھاکر ذلیل و خوار ہوکر چلا گیا۔ تین مقامات پراسکی درگت بنی تو ﷲ تعالیٰ نے ان مقامات کو بھی شعائرﷲ قرار دیا اور حج کے ارکان میں شیطان کی ٹھکائی لازم ہے۔ جہاں جہاں باپ بیٹا ٹہرے وہی حج ہے۔

قربانی بھی انہیں کی سنت ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ﷲ تعالیٰ نے قربانی کے لیئے مخصوص کیئے جانے والے جانوروں کو بھی شعائرﷲ فرمایا۔ حرمت کے مہینے بھی شامل ہیں دیکھیئے سورۃ المائدہ آئت نمبر ۲۔ سورۃ الحج آئت نمبر ۳۶ میں بھی اﷲ تعالیٰ نے ڈیل دار جانور اونٹ اور گائے کو بھی شعائر ﷲ فرمایا گیا۔ اور انکی تعظیم واجب ہے۔

سورۃ الحج کی آئت نمبر ۳۲ کا مفہوم ذرا پڑھ لیں: بات یہ ہے اور جو ﷲ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔

یہاں ﷲ تعالیٰ نے شعائرﷲ کی تعظیم کو دلوں کی پرہیز گاری قرار دیا۔ یہی وجہ ہے سیدالانبیا ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر جگہ ،اور ہر چیز ﷲ کے نشانوں میں سے ہے۔ ان کا شما ر کرنا ممکن ہی نہیں۔کتب سماویہ میں آپ ﷺ کے تذکرے شعائرﷲ ہیں۔ آپ ﷺ کے آباو اجداد کے عجیب واقعات بھی شعائرﷲ ہیں کیونکہ ان سے دلوں کو قوت ملتی ہے۔ ابرہہ کا واقعہ ، حضور ﷺ ابھی اپنی والدہ صاحبہ کے ہاں امانت تھے کہ انکی پیشانی سے نور نکلا اور بیت ﷲ شریف کا روشن ہونا بھی شعائراﷲ میں سے ہے۔ جس گھر میں حضور ﷺ کو ﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا، اسی گھر میں آپ ﷺ نے پیدا ہوتے ہی ﷲ تعالیٰ کے حضور زمین پر پہلا سجد ہ ادا فرمایا ۔ اسی مقام پر پہلی مرتبہ آپ ﷺ نے امت کے لیئے دعائے مغفرت فرمائی۔ جس گھر میں رحمۃ للعلمین ﷺ کا ظہور ہوا یقینا وہ گھر شعائر ﷲ میں ہے۔ کیونکہ اس گھر میں بڑے عجائبات کا ظہور ہوا۔ حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ سلام ﷲ علیہا نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ کی پیدائش ہوئی تو ایک نور برآمد ہوا جس کی روشنی میں میں نے شام کے محلات دیکھے، جب آپ ﷺ کی پیدائش مبارک ہوئی تو ایران کے شاہی محل کے کنگرے گر گئے، ایران کا آتش کدہ ٹھنڈا ہوگیا، بحیرا سادہ جو بت پرستوں کا گڑھ بنا ہوا تھا خشک ہوگیا۔ اسی گھر میں ملائکہ اور حور وں نے سرور کون و مکاں ﷺ کی زیارت کی۔ ﷲ تعالیٰ کے نشانوں میں آپ ﷺ کا گھر مبارک ﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا نشان ہے پھر اسے تو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ ہجرت تک سرورکون و مکاں ﷺ اسی گھر میں تشریف فرمارہے۔ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی ﷲ عنہا کا گھر بھی شعائر ﷲ میں ہے۔ مقام جعرانہ ، مقام مسجد جن بھی شعائرﷲ ہیں۔ با لخصوص جبل نور پر وہ مقام جہا ں دستور کائنات کے نزول کی ابتداء ہوئی اور سید العالمین ﷺ نے مسلسل پانچ سال ﷲ تعالیٰ کے ساتھ رازونیاز میں گذارے ، اس مقام کو دلوں اور ایمان کی تقویت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد اس مقدس مقام کی زیارت کے لیئے جاتی ہے اور کئی ضعیف مردو زن وہاں جاتے ہیں۔ اسی طرح سفر ہجر ت میں سیدالکونین ﷺ کا غار ثور میں ٹہرنا جبل ثور کی اس غار کو تقدس بخش گیا۔ میں نے خود عمر رسید ہ لوگوں کو پانچ ہزار فٹ کی بلندی پرایمان کی قوت سے جاتے دیکھا۔ یہ مقام بھی شعائرﷲ ہے یعنی ﷲ کے نشانوں میں بڑی ممتاز حیثیت کا حامل ہے کہ جہاں قرآن کا نزول ہوا : اے پیارے غم نہ کھا ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ ٍٍمقام یوم الفرقان یعنی وادیء بدر جہاں پہلی مرتبہ ﷲ نے اپنے محبوب ﷺ کی سربراہی میں عساکر ملائکہ کوشمولیت کا اعزاز بخشا ۔ اس مقام پر بڑے کفار خناس عذاب الہی کا شکار ہوئے اور ﷲ نے اپنے رسول ﷺ کے لشکر کو فتح عطا فرمائی۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق بھی وہ مقامات ہیں کہ جہاں ﷲ تعالیٰ نے حیران کن نصرت عطافرمائی۔ یہ سبھی واقعات عقل انسانی سے ماوراء ہیں ۔ ﷲ تعالیٰ نے ان مقامات پر نہائت واضح طور پر اپنے حبیب کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی نصرت فرمائی اور دشمنان رسول کو تہس نہس کردیا۔ یہ امور قرآن کریم کا منشاء ہیں کہ ﷲ اپنے نور کو پورا کرے گا بے شک کافر برا منائیں۔ ﷲ نے دین مصطفےٰ کو سب ادیان پر غالب کردیا۔ یہ تمام مقامات ﷲ کی قدرت کے مظہر ہیں اور شعائرﷲ ہیں۔ ان تمام مقامات کو آنیوالی نسلوں تک جوں کا توں محفوظ رکھنا خادمین حرمین شریفین کا فرض ہے۔ ان کو دیکھ کر ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ﷲ کا جلال اور نبوت مصطفٰے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کا کمال ظاہر ہوتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ آل سعود کو سمجھ عطا فرمائے کہ انہیں اس کی معرفت نہیں۔سیدنا حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ کی رہائی کے لیئے انکے یہودی مالک نے ایک بڑی رقم اور تین صد کھجوروں کے درختوں کا باغ مانگا۔ رحمت عالم ﷺ کے پیار نے جوش مارا ﷲ کی رحمت شامل حال ہوگئی اور مدینہ طیبہ میں تین صد کھجوروں کا باغ اپنے دست مبارک سے لگایا سوائے چند ایک کے جو حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ نے لگائیں ۔ جو قد میں چھوٹی ہی رہیں۔

دعائے رسول ہوئی دست مبارک کا اٹھنا تھا کہ رحمت چھم چھم برسی، کھجوروں کے درخت آنافانا بڑے ہوئے اور پھل کے خوشے لٹکنے لگے یہ مژدہ تھا حضرت سلیمان فارسی رضی ﷲ عنہ کی رہائی کا۔ یہ حق کا نشان آل سعود نے مٹادیا۔ آنے والی نسلیں کتابوں میں پڑھ کر انہیں کہاں تلاش کریں گی؟ غزوہ احد سے واپسی پرصحابہ کرام رضی ﷲ عنھم زخموں سے چور چور ایک مقام پر بیٹھے اور سرور کون و مکاں سے شدت تکلیف کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ خاک تمہارے زخموں کے لیئے شفاء ہے اسے اپنے زخموں پر ڈالو۔ اس خاک پاک سے سب کو شفا ملی۔ مگر اس مقام پر ایک گندا نالہ اور ساتھ سڑک بنا دی گئی ہے۔ اہل ایمان ہر اس چیز کو محفوظ رکھتے ہیں کہ جن سے ایمان کو قوت اور جلا ملتی ہے۔ مگر افسوس کہ اہل ایمان کے ایمانی روحانی اثاثوں کو مٹایاگیا۔ مسجد نبوی کی توسیع کے بہانے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ کا وہ آستانہ مبارک بھی منہدم کردیاگیا کہ جہاں حضور ﷺ نے قیام فرمایا تھا۔ حرم بیت ﷲ شریف میں جبل صفا اور کوہ جبل ابو قبیس کے درمیان بلند وبالا شاہی محل تعمیر کردیا گیا ہے۔ کیا ﷲ کے گھر کی یہ توہین نہیں؟ جبل ابو قبیس پر سرور کون و مکاں ﷺ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے کیئے اور پھر جوڑ دیئے ۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ لیکن اسی جبل ابو قبیس کو توڑا جارہا ہے۔ سابقہ دورکے ابواب توڑ دیئے گئے۔ اب سنا ہے کہ مسجد الحرام کی توسیع کی آڑ میں حضور سید العالمین رحمۃ للعالمین ﷺ کی جائے پیدائش جو آپ ﷺ کا آبائی گھر ہے اور جہاں آجکل کتبخانہ قائم ہے اسے منہدم کرنے کی سازش تیار ہوئی ہے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ کا گھر مبارک بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ سعودی حکومت اسے اسی حالت میں رکھے تاکہ اہل علم حضرات علمی استفادہ کرتے رہیں۔ اس مبارک کاشانہ کی موجودگی اہل اسلام کے ایمان و ایقان میں اور معرفت رسول ﷺ میں اضافہ کا موجب ہے۔شعائر ﷲ میں یہ مقام سب سے مقدم ہے۔

یہاں یہ بھی عرض کروں کہ مقامات مقدسہ جملہ مسلمانان عالم کے مشترکہ اثاثے ہیں ۔ سعودی حکمران ہی انکے وارث نہیں بلکہ وہ خادم ہیں اورخادم بن کر رہیں۔ سعودی حکومت چند ملاؤں کے اشارے پر عالم اسلام کی دل آزاری کرتی رہتی ہے اور خوداس بے ادبی اور گستاخی کے عواقب سے بے خبر ہے۔ اس سے قبل تخت ختم المرسلین ﷺ کے منتقل کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ اس کا خمیازہ کتنے لوگوں نے بھگتا؟ بقیع شریف میں عظیم المرتبت ہستیوں کی قبور کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے۔ اگر جناب رحمۃ للعلمین ﷺ کے کاشانہ اقدس کے بارے سعودی حکومت نے کوئی اقدام کیا تو مجھے خدشہ ہے کہ آل سعود پر ﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت نازل نہ ہو۔ اس لیئے انہیں سیدالانبیاء ﷺ کی تشریف آوری اور نزول رحمۃ للعلمین ﷺ کے مقام کو عزت و احترام کے ساتھ قائم رکھنا چاہیئے۔ ﷲ انہیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ ایسے افعال بد سے دور رہیں اور مسلمانان عالم کی دل آزاری نہ کریں۔ آمین۔
بقلم اکبرحسین ہاشمی

ہماری ویب

 

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں