حکیم اجمل دہلوی کے سوانح حیات

حکیم اجمل دہلوی کے سوانح حیات

محترم فاضل علامہ اجمل بن محمود بن صادق بن شریف حنفی دہلوی جو حکیم حاذق اور ”حاذق الملک“ کے نام سے مشہور ہیں، فن طب میں ذہین اور ماہر طبیبوں میں سے ہیں۔

سنہ ۴۸۲۱ھ ـ(1867) بمقام دارالسلطنت دہلی میں آپ کی پیدائش ہوئی، اولاً پورا قرآن کریم حفظ کیا پھر دوسرے علوم صدیق احمد دہلوی، شیخ مفسر عبدالحق کمتھلوی، مولوی عبدالرشید رامپوری اور مرزا عبداللہ بیگ و غیرھم سے حاصل کئے اور حکمت کی کچھ کتابیں اپنے بڑے چچا عبدالحمید خان سے پڑھیں اور کافی زمانہ تک دونوں ان کی خدمت میں رہے اس کے بعد (ان کے چچا جان نے سنہ ۹۰۳۱ھ بمقام دہلی جس مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی) اسی میں استاد بن کر زمانہ دراز تک تعلیم دیتے رہے۔

عہدہ رئیس الاطبائ
پھر ریاست رامپور کے نواب حامد علی خان نے اپنی ریاست میں آنے کی پیشکش کی اور وہاں رئیس الاطباءکے عہدہ پر فائز کیا، چنانچہ وہاں بھی ایک مدت تک آپ نے قیام کیا۔ پھر وہاں سے دہلی شہر واپس آگئے اور وہاں اپنے بھائی کے قائم مقام ہوکر پڑھانے کے علاوہ علاج و معالجہ میں مشغول ہوگئے۔

شفاءخانہ کا قیام
دہلی شہر میں بالخصوص زچگی کی تعلیم سے متعلق ایک مدرسہ اور مخصوص زنانہ شفاخانہ کی بھی بنیاد رکھی۔ پھر خاص طبی امور کے لیے ایک کانفرس کی بنیاد رکھی، کیونکہ وہ ان دنوں اس بات کے لئے بہت متفکر تھے کہ مخصوص زنانہ طبی مدرسہ جس کا ابھی تذکرہ ہوا اس کو بڑے سے بڑے درجات تک ترقی دی جائے۔ چنانچہ اس کے لئے ان کو شہر سے باہر زمین بھی مل گئی اور اس میں ایک بلند شاندار مدرسہ قائم کردیا۔
پھر عراق کا سفر کیا اور وہاں بغداد اور اس کے مخصوص مقدس مقامات کی زیارت کی۔ یہ تقریباً سنہ ۳۲۳۱ھ کا زمانہ تھا سنہ ۸۲۳۱ھ مغربی ممالک کا سفر کیا اور وہاں مدارس اور شفاخانوں کا خصوصیت کے ساتھ مشاہدہ کیا۔
ملک ہندوستان کے تقریباً تمام علاقوں میں آپ کی شہرت ہوگئی۔ حکومت برطانیہ نے بھی آپ سے متاثر ہو کر آپ کو سنہ۵۲۳۱ھ میں حاذق الملک کا خطاب دیا جو آپ کی طبی خدمات کے اعتراف کے طور پر تھا اور اس لیے بھی تھا کہ آپ کو اس ملک ہندوستان میں بڑی عزت اور بڑا مقام حاصل تھا۔
جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو حکومت اسلامیہ عثمانیہ کے ماننے والوں سے دشمنی کھل کر سامنے آگئی اور تمام دشمنان اسلام نے اس اسلامی مرکز اور اس کے ماننے والوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرلیا۔ اور چونکہ حکومت برطانیہ کو مسلمانوں کے ساتھ دشمنی رکھنے میں خاص نفع تھا اس لیے تمام ہندوستانی مسلمانوں کا ان کے خلاف نفرت کا جذبہ ابھر گیا یہاں تک کہ ہر سطح پر عام مسلمانوں نے ان کے خلاف بغاوت کا اظہار کیا۔

حاذق الملک سے مسیح الملک
چونکہ حکیم اجمل صاحب مسلمانوں کے نمائندہ بن کر انگریزوں سے گفتگو کرتے تھے اور انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا لہذا اس حکومت کی طرف سے حکیم اجمل صاحب کو جو کچھ نشانیان اور علامات (تمغے) کے علاوہ حکیم صاحب کو جو ’حاذق الملک‘ کا خطاب ملا تھا، ان سے اپنی نفرت کے جذبہ کے اظہار اور تمام ہندوستانی مسلمانوں سے اظہار محبت کی وجہ سے سب انگریز حکومت کو واپس کردیا، یہ واقعہ سنہ ۹۳۳۱ھ کا ہے۔
اس لیے تمام مسلمانوں نے خوش ہو کر دوسرا خطاب ”مسیح الملک“ کا جمعیة العلماءکی مجلس میں متفقہ طور پر دینا طے کیا۔ بالآخر یہی خطاب آپ پر غالب آگیا اور اسی لقب سے ہمیشہ کے لئے مشہور ہوگئے۔
ملک ہندوستان کو متحد رکھنے پر بھرپور زور لگایا اور ملک کے تمام لوگوں اور جماعتوں کو ایک جماعت میں قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی کہ متحد رہ کر ہی اپنے وطن کو آزاد کرایا جائے۔ اسی خیال سے عام ہندوستانیوں کی مشترکہ مجلسوں میں شرکت کی، بلکہ بعض بڑی مجلسوں میں تو صدر و غیرہ کے عہدے پر بھی آپ کو رکھا گیا۔ مسٹر گاندھی اور دوسرے علماءہند کے ساتھ مشترکہ طور پر ہر ممکن عمل کیا یہاں تک کہ دوسری جماعتوں کے لیڈروں کے گہرے دوست بن گئے۔ اسی بناءپر ساری جماعت والے آپ کو بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھتے، اپنی عقل سمجھ اپنی سنجیدگی اور صفائی ستھرائی یعنی مجموعی صفات رکھنے کی وجہ سے سب پر غالب آئے، ان تمام طبقات میں محترم اور بڑے اونچے مرتبے والے ہوگئے یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آگیا جب مسلمانوں اور غیرمسلموں میں زبردست اختلاف پیدا ہوگیا اور گروہی لڑائیاں ہونے لگیں۔
سنہ ۴۴۳۱ھ میں دوسری مرتبہ آپ نے یورپ کے دارالسلطنت کا سفر کرنے کے بعد ملک شام، فلسطین اور مصر و غیرہ بھی تشریف لے گئے اور ان علاقوں کی اسلامی حکومتوں میں ایک بڑی مجلس منعقد کی۔

مطالعہ کتب
آپ ان تمام سیاسی امور میں منہمک رہنے کے باوجود ہمیشہ مطالعہ کتب میں مشغول رہتے اور فن طبابت پر بھرپور توجہ رکھتے، اور اس بات کا پورا اہتمام رکھتے کہ یہ فن کس طرح بلند مقام حاصل کرے اور نئے حالات اور نت نئے علوم کے سامنے آنے کے باوجود یہ فن بھی ترقی پا تا رہے۔ ساتھ ہی ہمیشہ علاج معالجہ بھی کرتے رہتے اور بیماروں کے ساتھ بہت ہی شفقت سے پیش آتے۔ اس کے علاوہ مجلسوں اور معاملات اور عام نیکیوں کے کاموں میں برابر کے شریک رہتے۔
 پھر دربار مجلس ندوة العلماءکے صدر منتخب ہوئے۔ پہلی مرتبہ سنہ ۸۲۳۱ھ میں بمقام دہلی اور دوسری مرتبہ سنہ ۰۴۳۱ھ میں بمقام کانپور، اس کے علاوہ علوم ادبیہ میں بھی آپ کی پوری شرکت رہتی۔ آپ سے دلی عقیدت کی بناءپر علامہ محمد طیب مکی رحمہ اللہ اور رامپوری نے ”النفحة الاجملیة فی الصلات الفعلیة“ کے نام کی ایک کتاب بطور یادگار تصنیف کی۔ اور دمشق میں مجمع علمی عربی کے لئے آپ کو رکن کے طور پر منتخب کیا گیا۔

حلیہ و رہن سہن
جناب محترم حکیم اجمل صاحب رحمہ اللہ ذاتی طور پر اسم بامسمیٰ یعنی بہت جمیل حسین، حسین منظر، شیریں زبان، پاکیزہ میل ملاپ والے، فی الفور مناسب جواب دینے والے، پاکیزہ روح، سنجیدہ با وقار ہونے کے باوجود بشاش رہنے والے پاکیزہ نفس تھے۔کبھی کسی معاملہ میں گرم مزاجی آپ میں نہیں آئی اور جوش غالب نہیں آتا۔ ترک گفتگو کی نوبت نہیں آنے دیتے۔

تصنیفات
آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
القول المرغوب فی الماءالمشروب، ازالة المحن عن اکسیر البدن، ایقاظ النعسان فی اغالیط الاستحسان، التحفة الحامدیہ فی الصناعة التکلیسیہ، الاوراق المزہرة الساعاتیة۔ یہ تمام کتابیں عربی زبان میں ہیں اور رسالة فی الطاعون، رسالة فی النحو، رسالة فی ترکیب الادویة و استخراج درجاتھا، المحاکمة بین القرشی و العلامة، مبحث سرسام تک شرح الاسباب پر حاشیہ، اللغات الطیبہ المحمودیہ، اسی اللغات الطیبہ پر مقدمہ ہے، اور اردو میں خطب مبتکرة، مقالات معجبة فی السیاسة، مختارات فی المسائل الطبیہ۔

مسائل اختلافیہ فی الطب
آپ نے کئی مسائل میں تمام اطباءسے مخالفت کی ہے ان میں چند یہ ہیں:

(۱) چاند کے چکر کے اعتبار سے چند مخصوص دنوں میں بحران پیدا ہوتاہے جو کہ اگر چہ دوسرے اطباءکا متفقہ فیصلہ ہے مگر ان کے خیال میں اس دعویٰ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ ہم اکثر اس کے خلاف بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسی بناءپر وہ اس بات کے کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس بحران کا دوران ہمیشہ معین دنوں ہی میں نہیں ہوتاہے بلکہ آگے پیچھے ہوتا رہتاہے۔
(۲) عموماً اطباءصفراوی بخار آنے کے قائل اور اس کے مدعی ہیں مگر اس کا کوئی وجود نہیں ہے، کیونکہ صفراء(پتا) خود کئی دلیلوں سے بدبودار اور متعفن نہیں ہوتا ہے؛ پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ صفراءاپنی کڑواہٹ کی وجہ سے آنتوں کی طرف اٹھتا ہے اور اس کی موجود فضولیات گندگیوں کو بدبودار ہونے سے روکتاہے، اس لئے ایسی کوئی چیز جس میں قدرت نے یہ فطری صلاحیت رکھی ہو کہ وہ بدبو کو روکے وہ خود کس طرح بدبودار ہو سکتی ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ صفراءجو حیوانات کے بدن میں پایا جاتاہے اگر کبھی اسے یونہی کسی برتن میں رکھ کر چھوڑدیا جائے تو وہ بدبودار نہیں ہوتاہے۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ کڑوی اور صفراوی چیز مثلاً سرکہ یا شراب کے اندر ایک مخصوص قسم کی لطافت اور تیزی پائی جاتی ہے اور یہ دونوں چیزیں کبھی بھی بدبودار نہیں ہوتی ہیں۔
(۳) بدن میں جتنے اخلاط (خون، بلغم، سودائ، صفرائ) ہیں وہ جب تک رگوں میں رہتے ہیں ان میں بدبو نہیں پائی جاتی ہے، کیونکہ رگوں میں رہنے کہ وجہ سے اس کے اندر کا خون جو ہمیشہ تیزی کے ساتھ حرکت میں رہتا ہے اس سے وہ چیزیں بھی متحرک رہتی ہیں اور حرکت کرتی چیز کبھی بدبودار نہیں ہوتی ہے۔
(۴) صفراءکا مزہ کبھی کڑوا نہیں ہوتاہے کیونکہ ہم اکثر اس کے خلاف پاتے ہیں۔
(۵) مطلق غذا جو اخلاط کی طرف منتقل ہونے سے پہلے کی کیفیت میں ہو وہ ایک ہی حالت پر برقرار نہیں رہتی ہے، کیونکہ یہ بات بالکل محال ہے کہ پوری غذا ہی بدن کا حصہ بن جائے جیسا کہ لوگ کہتے ہیں۔ بلکہ اس کے اجزاءکے پورے طور پر ہضم ہونے تک اس میں آلودگی باقی رہتی ہے اور مطلق غذا میں بھی یہی کچھ آلودگی رہتی ہے۔
 ان مسائل اختلافیہ کے علاوہ اور بھی دوسرے اختلافی مسائل ہیں۔

شعر و شاعری
آپ کے چند اشعاریہ ہیں:
(۱) محبوبہ سعادتو یہاں سے کوچ کرگئی ہے اور میں تنہا باقی رہ گیا ہوں، تنہائی اور فراقی کی آگ میں خود کو جلتا ہوا پاتاہوں۔
(۲) ہم تو باغ میں اکٹھے ہی رہتے ہیں، لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اب میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں۔
(۳) اس محبوبہ کا سورج مغرب کی سمت میں غائب ہوگیا، یہاں تک کہ میں حیران ہوگیا اور اس کی آنکھوں نے میرے دل کو شکار کرلیا ہے۔
(۴) اور میں اب ایسا ہوگیا ہوں کہ رات بھرپور ہے اور میں اپنی نیند میں، لانبے گیسو میں محبت کو جمع کرنے والا ہوں۔
آپ کی وفات ۴ رجب ۶۴۳۱ھ (دسمبر 1927ئ) میں رام پور شہر میں ہوئی لیکن تدفین دہلی میں ہوئی۔

ماخوذ از: ”چودھویں صدی کے علمائے برِّ صغیر“، ”نزہة الخواطر“ کا اردو ترجمہ، 8/ ۹۵

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں