اسلام حلال روزی اور جائز کاروبار کی حوصلہ افزائی کرتاہے

اسلام حلال روزی اور جائز کاروبار کی حوصلہ افزائی کرتاہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطبہ جمعہ چودہ فروری دوہزار چودہ میں حلال روزی اور جائز کاروبار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے اسلام کا حکم اور شریعت کا تقاضا قرار دیا۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ» [نور: 37]، (ایسے آدمی جنہیں سوداگری اور خرید و فروخت الله کے ذکر اور نماز کے پڑھنے اور زکوٰة کے دینے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گی) کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اسلام نے نماز، روزہ، حج اور زکات کا حکم دیاہے تاکہ بندے اپنے رب سے غافل نہ ہوجائیں۔ اسلام ایک ہمہ گیر اور وسیع دین ہے جو انسانوں کو بھلائی اور دونوں جہانوں میں کامیابی کی راہ دکھاتاہے۔ اسلام ہرگز مسلمانوں کو گوشہ نشینی اور معاشرتی زندگی سے دوری کی ترغیب نہیں دیتا؛ اس آفاقی اور اللہ کے پسندیدہ دین کا حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کیاکرو، اسی کی بندگی کرو اور ساتھ ہی ساتھ کاروبار بھی کرو۔ پرامن اور آسودہ زندگی بھی مسلمانوں کا حق ہے۔ اسلام اس بات کے مخالف ہے کہ کوئی شخص صرف عبادت میں لگ جائے اور حلال روزی کمانے سے کترائے۔

صنعت، کھیتی باڑی اور جانورپالنے سے کمانے کی ترغیب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: دین اسلام ہمیں اپنے ہی ہاتھ کی قوت سے کھانے پر زور دیتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اہل مدینہ سے فرمایا کہ اپنی زمینوں میں خود کاشتکاری کریں اور اگر یہ کسی کے بس میں نہیں تو دوسروں کو زراعت کا موقع دیدیں۔ حلال روزی کا حصول عبادت ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد الہی ہے: «يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ» [مؤمنون: 51]، (ا ے رسولو! ستھری چیزیں کھاؤ اور اچھے کام کرو بے شک میں جانتا ہوں جو تم کرتے ہو)؛ اسلام صنعت وحرفت کی حوصلہ افزائی کرتاہے؛ لہذا سرمایہ کاری کریں اور دوسروں کو بھی حلال اور پاک روزی کمانے کا موقع فراہم کریں۔

’جائز کاروبار‘ کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ایسے تاجروں کی تعریف کی ہے جنہیں کاروبار اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتا اورتجارت کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کے احکامات بھی بجا لاتے ہیں۔ سرورِکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے سچے اور دیانتدار تاجرروزقیامت انبیا اور صدیقین کے ساتھ محشور ہوں گے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے حیا وپاکدامنی کی اہمیت واضح کرنے کے بعد کہا: اسلام نے عفت اور حیاپر زور دیاہے۔ گداگری اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا بے حیائی کی ایک قسم ہے۔ جب تک ممکن ہو بندے کو خود کمانا چاہیے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے سخت گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح بخل وکنجوسی اور بزدلی بری صفتیں ہیں جو کسی مسلمان کی شایان شان نہیں ہیں۔ ایک سچا مسلمان ہمیشہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اپنی حدتک محتاج و نادار لوگوں سے تعاون کرتاہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں ناجائز کاروبار کی مذمت بیان کرتے ہوئے خطے میں سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ پر زوردیا۔ انہوں نے کہا: منشیات اور شراب جیسی اشیا کا کاروبار گندا اور ناجائز ہے جس سے معاشرے کو سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آج کے معاشروں کے مسائل پر غورکیاجائے تو بہت ساری مشکلات کے تانے بانے ایسے ہی کاروباروں سے ملتے ہیں۔

اغواکاری اور بدامنی پھیلانا ایرانی اہل سنت کے ساتھ جفاہے
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ہرقسم کی بدامنی اور اغواکاری کی مذمت کرتے ہوئے ایسی حرکتوں کو سنی برادری کے ساتھ جفا قراردیا جس سے پوری قوم کا نقصان ہوتاہے۔

صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے خطیب اہل سنت نے ایران وپاکستان کی سرحد پر بعض اہلکاروں کے اغوا پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا: کسی بھی حال میں اور خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں اہل سنت کے نام پر بدامنی پھیلانا ناقابل قبول ہے۔ اب قوم کی مختلف اکائیوں نے اعتماد و امید کا اظہارکیاہے اور سب کو روشن مستقبل نظر آرہاہے، ایسے میں سکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کرنا درست اقدام نہیں ہوسکتا۔اغواکاری کسی بھی حال میں اچھا کام نہیں ہے۔ اس سے صوبے کی معیشت مزیدکمزور پڑے گی اور سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری سے گھبرائیں گے۔

انہوں نے مزیدکہا: ایران کی سنی برادری ہرگز بدامنی کے حق میں نہیں ہے اور بم دھماکوں سمیت ہرقسم کے تشدد کو جفااور ظلم سمجھتی ہے۔ اہل سنت کی نظر میں ایسے کام قابل مذمت ہیں۔ ملک میں حالات بدل چکے ہیں اور اب مکالمہ ومذاکرات سے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایران میں’مناسب سیاسی فضا‘ پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے کہا: خیرخواہی سے میں تمام مسلح مخالفین سے درخواست کرتاہوں ایسی حرکتوں سے بازآئیں اور مغوی اہلکاروں کو رہا کریں۔ بندہ آپ کا ناصح وخیرخواہ ہے اور میں اپنے مخالفین کی بھی بھلائی چاہتاہوں۔ میں اپنی پوری قوم کی کامیابی وسعادت کی راہ پر چلتاہوں۔ ملک میں اب حالات بدل چکے ہیں؛ مخالفین کی بات سنی جاتی ہے اور مکالمے کی فضا ملک میں قائم ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی کونے سے حکام سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ لیکن ہرگز یہاں بدامنی نہ پھیلائیں۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: الحمدللہ اب ملکی حالات کافی بہترہیں؛ عوام میں سیاسی شعور پیدا ہوچکاہے۔ لوگ اب اچھے اور برے کی تفریق کرسکتے ہیں اور حالات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ نئی حکومت سرمایہ کاروں کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ یہ حکومت بے روزگاری کے خاتمے اور مہنگائی پر قابو پانے کی محنت کررہی ہے۔ اسی لیے ہم اپنے صوبے اور ملک کے مستقبل پر پرامیدہیں۔

انہوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا: اس پروگرام کی وجہ سے عوام کافی مسائل سے دوچار ہوچکے تھے۔ اب دنیا کو معلوم ہوچکی ہے ایران نیوکلیئر ہتھیار نہیں بلکہ انرجی اور طاقت کے حصول کے درپے ہے۔ پرامن نیوکلیئر طاقت ایرانی قوم کا مسلمہ حق ہے۔ کوئی طاقت ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔

عالمی اتحادبرائے علماءمسلمین کے رکن نے ’امتیازی رویے‘ اور ’اقوام ومذاہب کو ان کاجائز مقام دینے‘ کو نئی حکومت کااپروچ قرار دیتے ہوئے کہا: نئی حکومت کا وعدہ ہے ایران کے تمام شہریوں سے رویہ پہلے درجے کے شہریوں جیسا ہوگا اور قانون کا مکمل نفاذ ہوجائے گا۔ امیدہے امتیازی سلوک اور پالیسیوں کا خاتمہ کرکے قوم کے اہل اور لائق افراد کی صلاحیتوں سے کام لیاجائے، اس سلسلے میں کسی کے مسلک، مذہب اور قومیت کومدنظر رکھنے کے بجائے اس کی صلاحیت دیکھی جائے۔ پائیدارامن اور قومی اتحاد اسی صورت میں حاصل ہوگا۔

جن شہریوں کے شناختی کارڈ نہیں ان کا مسئلہ حل کیاجائے
ایرانی سیستان بلوچستان کے ممتاز عالم دین نے متعددشہریوں کے گھمبیر مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ماضی میں ہزاروں شہریوں نے بوجوہ شناختی کارڈ حاصل نہیں کیے اور بعض دوسرے لوگوں کی شناخت اور شہریت ’مشکوک‘ قرار دی جاچکی ہے۔ بعض لوگ ایران کے شہری ہونے کے باوجود معاشرتی وشہری خدمات سے محروم قرار دیے جاچکے ہیں۔ اکثر کارروائیاں بھی غلط اور ذاتی دشمنیوں پر مبنی رپورٹس کے بنا پر کی گئی ہیں۔ لہذا متعلقہ حکام جلداز جلد ایسے لوگوں کا مسئلہ حل کریں۔

اس سلسلے میں مولانا نے پولیس کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: بعض اوقات شناختی کارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے بچوں اور خواتین کو کسی محرم کے بغیر مہاجر کیمپوں میں لے جایاتاہے۔ اسلامی شریعت کی روسے ایسا کرنا جائز نہیں۔

محکمہ جنگلات سے درخواست کرتے ہوئے مولانا نے کہا: متعدد شکایات موصول ہورہی ہیں کہ محکمہ جنگلات کی طرف سے گاوں اور بستیوں میں گھر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ شہر کے آس پاس بنائے گئے بعض گھروں کو مسمار بھی کیاجاچکاہے۔ یہاں بہت سارے تاریخی مکانات اور کنویں موجود ہیں، مگر کسی دستاویز کے بغیر؛ حکام کو چاہیے عوام کا خیال رکھیں اور اجازت دینے میں نرمی کا معاملہ کریں۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا نے حاضرین سے درخواست کی نکاح سمیت ہر کام کو متعلقہ اداروں اور محکموں میں رجسٹر ڈ کرائیں تاکہ بعد میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں