ویلنٹائن ڈے ،شریعت و تاریخ کی روشنی میں

ویلنٹائن ڈے ،شریعت و تاریخ کی روشنی میں

حدیث کی معتبر کتاب مسند احمد میں روایت ہے……حضرت عامر بن امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جوان شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا،

اے اﷲ کے رسولﷺ !مجھے زنا کی اجازت دیں۔ وہاں موجود لوگ اس کے قریب آئے اور اسے ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے، رک جا…… رک جا…… آپﷺ نے اسے اپنے قریب بلا کر بٹھا لیا اور فرمایا!کیا تو پسند کرتا ہے کہ ایسا تیری ماں کے ساتھ کیا جائے؟ اس نے جواب دیا۔ اﷲ کی قسم ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا۔لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے۔ آپﷺ نے پھر فرمایا، کیا تو ایسا اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا، اﷲ کی قسم نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، لوگ بھی اپنی بیٹیوں اسے پسند نہیں کرتے۔ آپﷺ نے فرمایا، کیا تو اپنی بہن کے لئے ایسا پسند کرتا ہے، اس نے کہا، اﷲ کی قسم ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا: کیا تو ایسا اپنی پھوپھی کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا، ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا،اپنی خالہ کے لئے؟ اس نے جواب دیا، اﷲ کی قسم ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا،لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔ آپﷺ نے اس کے سینہ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا! اے اﷲ اس کے گناہ بخش دے، اس کا دل پاک کر دے اوراس کی شرم گاہ کو محفوظ کر دے۔ صحابہ کرام فرما تے ہیں کہ پس اس کے بعد اس شخص کو کبھی بھی ادھر ادھر نظر اٹھاتے تک نہیں دیکھا گیا۔

آج یہ حدیث اس موقع پر یاد آئی ہے کہ جب 14 فروری سر پر آیا ہے۔ 14 فروری کو ہر سال ’’ویلنٹائن ڈے المعروف ’’عاشقوں کا دن‘‘ کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس روز آپس میں پیار و محبت کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے اظہار عشق کرتے ہوئے سرخ گلاب پیش کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو باقاعدہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ افسوس کہ ہمارا میڈیا بھی اس میں پورا حصہ ڈالتا ہے اور بے نوجوان غیر محرم لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے سے بے باکی سے بغلگیر ہوتے پھول پیش کرتے یوں دکھایا جاتاہے کہ جیسے یہ سب ہماری تہذیب کا حصہ ہو…… اب اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہ تہوار منانے والوں نے کبھی سوچا کہ اظہار عشق میں جو پھول وہ کسی کی بہن کو بھیجتے ہیں ، اگر ایسے ہی پھول کوئی ان کی اپنی سگی بہن کو پیش کرے یا ان کے گھر بھیج دے تو وہ اسے کتنابرداشت کر لیں گے……؟ اگر کوئی اپنی بہن کے لئے پسند نہیں کرتا تو یہ کسی دوسرے کی بہن کے لئے کیوں پسند کرتا ہے……؟

دنیا میں غلیظ ترین وبے حیا مذہب ’’ہندو مت‘‘ ہے۔ ہندوؤں کے مندر وں کی ہزاروں سال پرانی عمارتیں بھی دیکھ لیں، ان میں آپ کوہندو دیویوں اور دیوتاؤں کی حالت زنا میں اس قدر فحش و غلیظ، الف ننگے بت اور مورتیاں دکھائی دیں گی کہ انسانی تصور بھی کانپ اٹھتا ہے اور وہ ان کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندومذہب میں انسانی شرم گاہ کی پوجا کو بہت تقدس حاصل ہے اور ہر مندر میں اس کی بڑی سی پتھر سے بنی شبیہ لازمی موجود ہوتی ہے،جہاں اولاد کی طلب گار عورتیں خصوصی پوجا کرتی ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان ہندوؤں نے ’’ویلنٹائن‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آج بھارت میں ویلنٹائن منانے والوں پر سخت گیر مذہبی ہندو تنظیمیں حملے کرتی اور پھول و تحائف بیچنے والوں کی دکانیں توڑ پھوڑ دیتی ہیں۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ویلنٹائن سامان بے حیائی اور ان کی تہذیب و ثقافت کے انتہائی خلاف ہے۔ لہٰذا اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت میں ویلنٹائن ڈے انتہائی خوف و دہشت کے سائے میں منایا جاتا ہے لیکن اسلام کے ’’قلعہ‘‘ پاکستان میں ویلنٹائن کو باقاعدہ معاشرے اور سماج کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یوں ڈھٹائی سے ہر جگہ، ہردکان، ہر گلی، سڑک، محلے ہی نہیں سارے میڈیا میں اس کا غلغلہ مچتا ہے کہ جیسے اس کے بغیر نہ تو ہمارا نعوذباﷲ دین مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ……

ویلنٹائن کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جب موجودہ عیسائیت کے مرکز روم میں پہلی بار عیسائیت منظر عام پر آئی تو عیسائیوں نے اس حوالے سے جشن منانے کی کوشش کی اور پھر 14 فروری کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہ دن تھا جب رومیوں نے عیسائی پادری ویلنٹائن کو پھانسی دی تھی۔ اسے پھانسی دینے کا قصہ بھی عجیب ہے۔ اس زمانے میں روم پر ایک بادشاہ جس کا نام کلاڈیئس دوئم تھا کی حکومت تھی۔ جنگوں کے دوران قتل و غارت گری اس قدر ہوئی کہ اس کی فوج میں سپاہی کم ہو گئے اور پھر ملک کے نوجوان موت کے ڈر سے بیویوں کو چھوڑ کر جنگ میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ بادشاہ نے مسئلہ حل کرنے کے لئے شادیوں پر ہی پابندی عائد کر دی تاکہ نوجوان شادیوں کے چکر سے نکل کر فوج میں بھرتی ہوں۔ یہیں رہنے والے عیسائی پادری ’’ویلنٹائن‘‘ نے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے خفیہ شادیوں کا پروگرام بنایا۔ عقدہ کھلا تو بادشاہ کلاڈیئس دوئم نے اسے گرفتار کر کے جیل ڈال دیا۔ کمال یہ ہوا کہ وہاں پادری ویلنٹائن کا معاشقہ جیل کے انچارج آسٹیریئس کی بیٹی سے ہو گیا اور وہ یوں اسے روزانہ ملنے آنے لگی۔ عیسائی مذہب میں پادریوں کی شادیوں پر تو ویسے ہی پابندی تھی اور شادی تو ممکن نہ تھی۔ پھر یہ بات کھل گئی تو بادشاہ نے ویلنٹائن کو پیشکش کی کہ وہ عیسائیت چھوڑ کر رومی دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرے تو اسے مکمل معاف کر دیا جائے گا، بادشاہ اسے اپنی قربت دے گا اور اپنی سگی بیٹی بھی اس سے بیاہ دے گا، لیکن ویلنٹائن نے اس سب سے انکار کر دیا۔ یوں رومی جشن سے ایک روز پہلے یعنی 14 فروری 270 عیسوی میں اسے سزائے موت دے دی گئی۔ مرنے سے پہلے اس نے جیل انچارج کی بیٹی کو جو آخری خط لکھا اس کے الفاظ تھے ’’تمہارے ویلنٹائن کی جانب سے‘‘۔

پھر یوں یہ رسم چلی اور چلتی گئی۔ عیسائیوں نے اسے اپنایا کیونکہ مبلغ پادری ہونے کی وجہ سے ویلنٹائن ان کے لئے مقدس تھا لیکن آج صدیاں گزرنے کے بعد خصوصاً گزشتہ چند سالوں سے جب ہمارے ہاں ابلاغیات کا طوفان آیا ہے تو نام نہاد مسلمانوں نے بھی اسے کھلم کھلا منانا شروع کر دیا۔ اس کی مذہبی حیثیت کو دیکھا، نہ اس میں خرافات کی جانب نظر و توجہ کی۔ بس ایک اندھی چال چلی گئی اور ہمارے لوگوں کو تو کھیل تماشہ چاہئے، چاہے اس میں عزت برباد ہو یا گھر بار اور سب کچھ…… سچ فرمایا میرے نبیﷺ اپنی امت کے بارے میں:
ابو سعید حذریؓ بیان کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے سے پہلی قوموں کے طریقوں پر بالشت بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ لازماً پیروی کرو گے حتیٰ کہ ان میں سے کوئی گوہ کی بل میں گھسا ہو گا تو تم اس کی بھی پیروی کرو گے۔ ہم نے پوچھا (وہ قومیں) یہودی اور عیسائی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا، تو پھر اور کون ہے؟ (صحیح بخاری)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جو جس قوم کی مشابہت کو اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہو گا‘‘ اور اقبال نے تو یوں کہا تھا……
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ

گزشتہ سال کی بات ہے کہ جب 14 فروری قریب آیا تو عین اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ وہاں کی چند لڑکیوں نے مل کر پہلی بار راک بینڈ تشکیل دیا جسے ’’پراگاش‘‘ کا نام دیا گیا لیکن مفتی اعظم مقبوضہ کشمیر مفتی بشیر الدین اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ صادر فرما دیا تو ان لڑکیوں نے بلا چوں چراں بینڈ کو بند کر کے اس کام کو ’’فٹے منہ‘‘ کہہ دیا اور کہا کہ انہیں دین اور فتویٰ عزیز ہے، اپنی موسیقی اور گانا بجانا نہیں…… اس واقعہ نے بھارت کے اندر بہت زیادہ بھونچال کھڑا کر دیا۔
دوسری طرف سارے مقبوضہ کشمیر میں ان لڑکیوں کے اس عمل کو بے حد سراہا گیا اور ان کی تعریف و توصیف کی گئی۔ کشمیری قوم اور ان کی بچیوں نے دین پر عمل کرنے میں ذرا دیر نہیں کی کہ وہ اندر سے مسلمان تھے۔ کیا ہمارے ہاں بھی کبھی ایسا ہو سکتا ہے……؟

ہماری ویب

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں