اسلامی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہیں

اسلامی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اسلام کو پوری انسانیت کے لیے خیرو برکت کا باعث قرار دیتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔

مولانا عبدالحمید نے اپنے سات فروری دوہزار چودہ (سات ربیع الثانی) کے خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیت: «الیوم أکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا»  کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا:دین اسلام اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمتوں میںسے ایک ہے جس کی بدولت اللہ نے انسانیت کو عزت وشرف بخش دی ہے۔ کائنات کی بقا کا راز دین اسلام ہی میں ہے۔ جب تک یہ دین باقی ہے اور اللہ کی عبادت ہوتی رہتی ہے، دنیا بھی قائم رہے گی اور اللہ کی عبادت ہوتی رہے گی۔

انہوں نے مزیدکہا: دین اسلام تمام اہل دنیا کے لیے ہے؛ حتی کہ جو لوگ اسلام سے دشمنی کرتے ہیں یہ دین ان کے لیے بھی باعث برکت ہے۔ اسلام محض چند احکام تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کا یہ پسندیدہ دین وسیع اور جامع ہے جو زندگی کے ہر شعبے کے لیے تعلیمات کے حامل ہے۔ کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، حج اور زکات اسلام کی بنیادیں ہیں، لیکن حلال خوری، دیانتداری، عفت وحیا، انصاف کی فراہمی اور سچائی بھی اسلامی تعلیمات ہی ہیں۔

ممتاز عالم دین نے ”حیا وعفت“ کو اسلام کے اہم احکام میں شمار کرتے ہوئے کہا: اسلامی شریعت نے مسلمان مرد وخواتین کو حکم دیاہے اپنی نظریں نیچی رکھیں خاص طورپر شہوت انگیز نگاہوں سے سخت اجتناب ضروری ہے۔ اسلام کاحکم ہے کوئی شخص اجازت لیے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہیںہوسکتا۔ جب معاشرہ گناہوں کے دلدل میں پھنس جائے تو اسلام خطرے میں پڑجائے گا، اسی لیے گناہوں کے خاتمے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔ اصلاح معاشرہ بہت اہم ذمہ داری ہے۔

معاشرے میں گناہوں کے عام ہونے پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ظلم و جور، بدنظری، قتل وخونریزی اور لڑائی جیسی برائیاں معاشرے میں عام ہوچکی ہیں، کچھ لوگ تھپڑ کا جواب گولی سے دیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں عفو وبخشش کا سبق سکھایاہے۔

انہوں نے مزیدکہا: بے پردگی، نشہ، چوری اور دیگر معاصی کسی مسلمان کی شان میں نہیں ہیں، ایک سچا مسلمان تمام گناہوں سے جان چھڑاکر صحیح رستے پر چلتاہے۔ ایک حدیث شریف میں آتاہے کہ حقیقی مہاجر وہی ہے جو گناہوں سے ہجرت کرتاہے۔ ایک دوسری روایت میں آتاہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔ لہذا ہمیں پوری طرح اسلام میں داخل ہونا چاہیے اور زندگی کے ہر پل اسلامی تعلیمات کا خیال رکھنا چاہیے۔

اپنے بیان کے پہلے حصے کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے والدین سے درخواست کی شادی کے معاملے پر اپنے بچوں کی آراءمعلوم کرلیں اور ان کا مشورہ لے لیا کریں۔ بلاوجہ کسی رشتے کی مخالفت نہ کریں۔

اتحاد، انصاف اور اعتدال سے ہرحکومت کی بقا ممکن ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبے کے دوسرے حصے میں ایران میں 1979ءکے عوامی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایران کے سن اناسی کا انقلاب انتہائی انوکھا تھا جو معاشرے کے تمام طبقوں بشمول قومیتوں، مسالک ومذاہب، مدارس اور یونیورسٹیز کے طلبا واساتذہ کی محنتوں کی بدولت کامیاب ہوگیا۔ عوام نے فردِواحد کی حکومت کے خلاف قدم اٹھایا تاکہ خود اپنی تقدیر بدل سکیں اور اس میں حصہ دار بن جائیں۔

انہوں نے مزیدکہا: جس طرح یہ انقلاب پوری قوم کے اتحاد کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوگیا، بالکل اسی طرح اس کی بقا بھی اتحاد ویکجہتی ہی سے ممکن ہے۔ میرے خیال میں جس طرح اس نظام حکومت کی بقا اتحاد میں ہے، اسی طرح فرقہ واریت اس کے لیے بہت بڑا چیلنج اور خطرہ ہے۔ اختلاف اور تفرقہ کسی بھی قوم کے لیے زہرقاتل ہیں۔

مولانا نے اعتدال ومیانہ روی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: کسی بھی حکومت کی بقا کی گارنٹی میانہ روی ہے۔ حکومت کے تمام ارکان اور محکمے جب اعتدال کی راہ پر چلیں گے تو عوامی حمایت بھی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالی کو افراط وتفریط پسند نہیں ہے۔ اسلام نے انتہاپسندی وتفریط سے منع کیاہے۔ اسی طرح عدل وانصاف کی فراہمی سے حکومتیں دیرپا ہوتی ہیں، حکام کو چاہیے عدل کا معاملہ کریں۔

کرپشن کو ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: موجودہ نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ کرپشن اور رشوت ستانی ہے۔ کرپشن کے انسداد کے لیے تمام اداروں کو حرکت میں آنا چاہیے، جنہوں نے بیت المال کو لوٹاہے، چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہوں، انہیں تعاقب کرکے قوم کی دولت واپس لانا چاہیے۔

انہوں نے سیاسی دھڑوں اور جماعتوں کو ملک کے لیے ’موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا: سیاسی جماعتوں کو ملک میں ’خطرہ‘ قرار نہیں دینا چاہیے، یہ جماعتیں پرامن انداز میں مقابلہ کرسکتی ہیں، البتہ سب کو فراخدلی اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اپنے خطاب کے آخر میں سرمایہ کاروں کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان میں حالات بدل چکے ہیں اور پہلے کی طرح سرمایہ کاروں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب نئی حکومت سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ لہذا تمام سرمایہ کار اس پس ماندہ صوبے کا رخ کریں تو خود ان کے لیے بھی اچھا ہوگا اور ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو بھی روزگار اور رزق حلال نصیب ہوگا۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں