صحابہ کرام کی سیرت سے دوری؛ مسلمانوں کی مشکلات کی اصل وجہ

صحابہ کرام کی سیرت سے دوری؛ مسلمانوں کی مشکلات کی اصل وجہ

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیدنے صحابہ کرام اور اہل بیت نبوی کی سیرت کی پیروی پر زور دیتے ہوئے ان اکابر کی تعلیمات سے دوری کو مسلمانوں کی مشکلات و مصائب کی اصل وجہ قرار دے دیا۔

اکتیس جنوری دوہزار چودہ کو زاہدان میں خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیت: “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ”، (اے ایمان والو الله تعالیٰ سے ڈرو اور (عمل میں)سچوں کے ساتھ رہو۔) کی تلاوت سے کرتے ہوئے انہوں نے کہا: مسلم امہ اس بات سے عاجز ہوچکی ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کا حق ادا کرے، جو قربانیاں انہوں نے اسلام کی خاطر دی ہے اس کی مثال بعد کے مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہجرت وجہاد کے موقع پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اپنی دولت اور تن من سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن آگے بڑھایا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہجرت اور وطن کو پیچھے چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں، لیکن صحابہ کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وطن اور اس سے بڑھ کر خانہ کعبہ کو اللہ کی خاطر ترک کردیا۔ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا صحابہ کرام نے دین اسلام اور سرورِکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کیسی کیسی قربانیاں دیں، اس راہ میں انہیں سخت اذیت کا سامنا کرنا بھی پڑا، چوٹیں آئیں اور بہت سارے شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے۔

انہوں نے بعض غلط نظریات کی تردید کرتے ہوئے کہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقصد ان تمام قربانیوں سے محض اللہ کی رضامندی کا حصول تھا۔ ان کا اخلاص بے نظیر تھا، وہ پیکراخلاص وبندگی تھے، کوئی بھی ولی، امام اور صالح شخص اخلاص میں ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ صحابہ کرام تمام کوششیں اللہ تعالی ہی کی خاطر تھیں، ان کے پیش نظر کوئی عہدہ یا دنیوی مفاد نہیں تھا۔ جب ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ غارثور میں اپنے آقا ﷺ کے ساتھ تھے اور ان کی حفاظت کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے تھے، انہیں ہرگز معلوم نہ تھا کسی دن میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کو خلیفہ چناجائے گا۔ یہی حال تھا حضرات عمر، عثمان، علی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا۔ جب تین سوتیرہ مخلص مسلمان بدر کے میدان میںکفار کے لشکرجرار کے خلاف صف باندھ کر کھڑے تھے، انہیں معلوم نہ تھا ان سے کوئی زندہ بچے گا یا نہیں، انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ کفار کو سخت شکست ہوگی، بڑے بڑے سردار ہلاک ہوجائیں گے اور متعدد قیدی بن کر ذلت سے دوچار ہوں گے۔ ان عظیم ہستیوں کی تمام قربانیاں محض اللہ کی خاطر تھیں۔

گزشتہ دنوں ایک متعصب اسکالر نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ باتیں کی تھیں جس کے جواب میں متعدد ایرانی سنی شخصیات نے خطاب کیا یا مضامین شائع کروایا۔ خلیفہ ثالث کے دفاع میں مولانا عبدالحمید نے بھی ان کے فضائل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے ۔ حیاکا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے ۔آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک اور منفرد رخ نرمی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی ایک دختر نیک اختر کا آپ سے نکاح کرایا۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو دوسری بیٹی بیاہ دی اور ارشاد فرمایا: ’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کا نکاح بھی اس سے کردیتا جبکہ میں نے اس کا نکاح اللہ کی وحی کے سبب کیا ہے۔” مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا. سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے اُنؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔
وہ اپنے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے باغیوں سے انتہائی مشفقانہ انداز میں فرما رہے تھے: “میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے? میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی میرے نکاح میں دی، جب پہلی صاحب زادی فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی، میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا، میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی، جس ہاتھ سے حضور ﷺکی بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا، میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی، زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا، میں نے کبھی چوری نہیں کی، اور میں نے نبی ﷺکے زمانہ میں ہی پورا قرآن حفظ کر لیا تھا. اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا‘‘۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے آخر میں کہا: آج کے مسلمان مختلف قسم کے مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام کی راہ سے بٹ چکے ہیں۔ ہم مسلمان صحابہ واہل بیت کا نام احترام سے لیتے ہیں اور ان کی اچھائیوں اور فضائل پر روشنی ڈالتے ہیں لیکن عمل میں ان کے اخلاق اور کردار و اقوال کو بھول جاتے ہیں۔ لہذا سعادت وکامیابی کی واحد راہ یہی ہے کہ قرآن وسنت پر پوری طرح عمل کیاجائے جیسا کہ صحابہ کرام نے کیا۔ ان بزرگوں نے بھائی چارہ کے ساتھ اپنی زندگی گزاری، ہمیں بھی اخوت کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں