اصلاح ودعوت میں سستی دکھانا معاشرے کی موت کی نشانی ہے

اصلاح ودعوت میں سستی دکھانا معاشرے کی موت کی نشانی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے فرد اور معاشرے کی اصلاح وتزکیہ پر زور دیتے ہوئے اس ذمہ داری میں سستی وغفلت کے مظاہرے کو کسی بھی معاشرے کی موت کی علامت قرار دے دیا۔

مولانا نے اپنے چوبیس جنوری دوہزار چودہ کے خطبے کا آغاز قرآنی آیت:  «وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [توبه:71]، (اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کےمددگار ہیں نیکی کا حکم کرتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکواة دیتے ہیں اور الله اور ا‘س کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر الله رحم کرے گا بے شک الله زبردست حکمت والا ہے)کی تلاوت سے کیا۔

انہوں نے مزیدکہا: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو مسلم معاشرے کے ہرفرد کو اپنی اصلاح وتزکیہ کا حکم دیتاہے، دوسرے مرحلے پر دیگر افرادکی اصلاح کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: اسلام ایک عالمی دین ہے جو کسی مخصوص علاقہ، قوم یا لسانی گروہ کے لیے نہیں اترا ہے۔ یہ دین سب کے لیے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک نبی برحق ہیں اور تمام پیغمبر آپﷺ کے امتی شمار ہوتے ہیں۔

انہوں نے معاشرے کی اصلاح کو عوامی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ کچھ لوگوں کا تصور یہ ہے دعوت اور اصلاح صرف علمائے کرام اور مبلغین کا کام ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی کاروبار اور تجارت کے لیے چین، جاپان اور امریکا سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہیں، لیکن جب دین کی باری آتی ہے تو بہت تھوڑے لوگ اس کام کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اسی لیے معاشرے میں غفلت اور فساد کا راج ہے، گناہ ومعاصی کا ارتکاب کثرت سے ہوتاہے اور اس نافرمانی کا دائرہ دن بہ دن بڑھتاجارہاہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی، اہل خانہ ، اعزہ واقارب اور تمام انسانوں کی اصلاح کے لیے کوشش کریں۔ جب دنیا کے کسی کونے میں کوئی ظلم کرتاہے اس پرخاموشی اختیار نہ کریں بلکہ اپنی طاقت کی حدتک اصلاح اور علاج کی فکر کریں۔ عاجزی کی صورت میں کم ازکم معاصی اور ظلم وجبر کی بیخ کنی کے لیے دعا کریں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: آج کے معاشرے میں سیاہ کاری، چوری، ڈکیتی اور قتل جیسے گناہ عام ہوچکے ہیں۔ یادرکھیں جس طرح اللہ کی عبادت اور قرآن کی تلاوت سے آسمانی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح معاصی وگناہوں سے اللہ کا غضب نازل ہوتاہے اور معاشرہ برائیوں سے ملوث ہو جاتاہے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے لقمان حکیم کی حکایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزیدگویاہوئے: قرآن مجید کے مطابق حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے پہلے اس کو توحید پر قائم رہنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیاہے، پہر نماز وزکات کا اور بعد میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترغیب دی ہے۔ ان آیات سے واضح ہوتاہے شرک سے بڑھ کر کوئی گناہ اور ظلم نہیں ہے۔ نیز عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے بعد دعوت الی اللہ کی ذمہ داری آتی ہے۔ لوگوں کو اچھے کاموں کی جانب بلائیں اور برے کاموں سے منع کریں۔

شروع میں تلاوت کی گئی قرآنی آیت کی طرف لوٹتے ہوئے مولانا نے کہا: اگر انسان دنیا وآخرت کی سعادت چاہتاہے تو اس کا واحد راستہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اگر کسی معاشرے میں یہ مہم معطل رہی تو یہ اس معاشرے کی موت کی نشانی ہوگی۔ اصلاح کی کوشش کرنا زندہ قوموں کا کام ہے۔

مولانا عبدالحمید نے بیان کے آخر میں صہیونی ریاست کے سابق وزیراعظم اور فلسطینیوں کے قاتل آرئیل شارون کی عبرتناک موت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: شارون نے ہزاروں نہتے فلسطینیوں کو خون میں نہلایا اور اس کا انجام تمام جابر وظالم حکمرانوں کے لیے سبق آموز ہے۔ لمبے عرصے تک سکرات موت میں باقی رہنا اس دنیا میں تاریخ کے اس مجرم کی سزا تھی اور آخرت کی سزا اس سے کہیں زیادہ سخت ہے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں