2013: ’عراق میں 8868 افراد مارے گئے‘

2013: ’عراق میں 8868 افراد مارے گئے‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سنہ 2013 کے دوران عراق میں کم از کم 7818 عام شہری اور 1050 سکیورٹی اہلکار پرتشدد واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔

صرف دسمبر کے ماہ میں ہی 759 لوگ ہلاک ہوئے جن میں سے 661 عام شہری تھے۔
گذشتہ پانچ سال میں عراق میں پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے تاہم 2006 اور 2007 میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث اس سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
تشدد کے واقعات میں اپریل کے بعد اضافہ ہوا جب شیعہ مسلک سے منسلک حکومت نے ایک سنی احتجاجی کیمپ کے خلاف کارروائی شروع کی۔
اس کے بعد القاعدہ سے وابستہ شدت پسند سنی گرہوں کے حملوں میں تیزی دیکھی گئی جبکہ شیعہ تنظیموں کی جانب سے بھی جوابی کارروائیاں ہوئیں۔
سنیچر کے روز سے بھی کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب سکیورٹی اہلکاروں نے ایک معروف سنی ممبر پارلیمان کو مغربی شہر رمادی میں گرفتار کیا۔ اس واقعے کے بعد جھڑپوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔
بدھ کے روز انبار صوبے میں القاعدہ کے شدت پسند کئئ سڑکوں پر دیکھے گئے اور انہوں نے خالی کیے گئے پولیس سٹیشنوں اور فوجی چوکیوں پر قبضہ کیا۔
شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم نوری المالکی نے سنی قبائل سے اپیل کی ہے کہ وہ ان مسلح گروہوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کریں اور وہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سنی عرب ایک سال سے زیادہ عرصے سے وزیراعظم مالکی کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت انسدادِ دہشتگردی کے سخت قوانین کے ذریعے اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد کشیدگی میں کمی لانا ہے۔
اقوام متحدہ کے عراق میں مشن کے سربراہ نے 2013 کے اعداد و شمار کے اعلان کے موقع پر کہا ’یہ ایک افسوس ناک اور انتہائی بری صورتحال ہے جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ حکام کو اس تشدد کی بنیادی وجوہات کا حل کرنا ہوگا۔‘
عراقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں 7154 افراد بشمول سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ 2003 سے عراق میں تشدد پر نظر رکھنے والی برطانوی غیر سرکاری تنظیم ’عراق باڈی کاؤنٹ‘ کا کہنا ہے کہ اس سال 9475 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
عراق باڈی کاؤنٹ کا کہنا ہے کہ اگر تشدد کے واقعات ایسے ہی جاری رہے تو 2014 شاید انتا ہی تباہ کن سال ثابت ہو جتنا 2004 تھا جب امریکی افواج نے دو مرتبہ فلوجہ کا گھیراؤ کیا تھا۔

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں