گناہ ومعاصی سے انسان کی قدر گرجاتی ہے

گناہ ومعاصی سے انسان کی قدر گرجاتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے شریعت کے احکام پر عمل کرنے کو انسان کی قدر میں اضافے کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا:گناہ ومعاصی سے انسان کی قیمت و وقعت گرجاتی ہے۔

ستائیس دسمبر دوہزار تیرہ کے خطبہ جمعے کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے کرتے ہوئے انہوں نے کہا: جیسا کہ ارشاد نبوی ہے انسان کان اور معدن ہے؛ بعض سونا اور بعض چاندی کے کانوں کی مانند ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہر صورت میں انسان کی قیمت ’نقد‘ ہے۔ انسان کے درون کو سونا چاندی سے تشبیہ دے کر سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی بیش بہا قیمت ظاہر کردی جو تمام مخلوقات سے بڑھ کر ہے۔

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: یہ بات ذہن میں بٹھانے کے قابل ہے کہ سونے کو جب کان سے نکالاجاتاہے تو وہ ابتدا ہی سے خالص دھات نہیں ہے بلکہ اسے آگ میں ڈال کرپھگلایا جاتاہے تاکہ مٹی اور پتھر اس سے دور ہوجائے۔ اسی طرح انسان بھی جب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتاہے تو وہ خالص نہیں ہوتا؛ تکبر، غرور، خودپسندی اور سینکڑوںدوسری برائیاں اس کے اندر ہوں گی، لیکن خوش قسمت لوگ اپنی اصلاح کرکے خالص اور متقی بن جاتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: جب انسان نیک ہو، تو اس کی قدروقیمت فرشتوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو بڑی عزت سے نوازا ہے۔ مومن لوگ عام فرشتوں سے زیادہ اللہ کو پیارے ہیں اور خاص انسان تو فرشتوں کے خواص بھی زیادہ محبوب خالق بن جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت دیگر انبیا کا مقام مقرب ملائکہ سے بھی اونچا ہے۔ لیکن اس انسان کو ’خالص‘ بننے کیلیے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ اصلاح نفس کے بغیر انسان حقیقی انسان نہیں بن سکتا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: روئے زمین پر کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے دربار میں بہت ہی محبوب ومقبول ہیں، اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ بعض انسان اپنی کرتوتوں کی وجہ سے جانوروں سے بھی زیادہ پست وحقیر بن جاتے ہیں۔ جو قتل، چوری، زنا اور دیگر جرائم کا مرتکب ہوتاہے، یقینا اس کی کوئی قیمت اور وقعت باقی نہیں رہتی۔ ایسے لوگ اللہ کے یہاں قابل نفرت ہیں۔ اللہ کے دربار میں صرف متقی وپرہیزکار لوگ قدروقیمت رکھتے ہیں جو سیدھی راہ پر چلتے ہیں، اسی کی اطاعت کرتے ہیں اور اخلاقی بے راہ رویوں سے اجتناب کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الاسلام نے عذاب الہی کو انسانوں کے اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا: اگر اللہ تعالی کسی کو جہنم میں گرادیتاہے، کسی کو قبر میں سزا دیتاہے اور کسی کا گھر اس پر مسمار کرتاہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بندے نے اپنے رب کے قوانین کی مخالفت کی ہے۔ انسان اس وقت صاحب قدر وقمیت بن جاتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کا فرمان بردار ہو۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں اللہ تعالی کے تمام احکام کو حکمتوں سے بھرا قرار دیتے ہوئے کہا: ہر حال میں احکام شریعت پر عمل کرنا چاہیے؛ یاد رکھیں اللہ کا کوئی حکم کسی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض احکام کی حکمتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، لیکن اگر یہ احکام حکمت سے بھی خالی ہوتے تو ہمیں ان پر عمل کرنا ہی چاہیے تھا۔ اس تابعداری سے انسان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور برعکس گناہ کرنے سے بندہ اللہ کی نظروں سے گرجاتاہے۔

’سیستان بلوچستان‘ توجہ طلب ہے
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں بعض اعلی حکام کی سیستان بلوچستان آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ میں بعض اعلی حکام نے ہمارے صوبے کا دورہ کیا۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ موجودہ حکومت ہمارے پس ماندہ صوبے کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: ماضی کے بہت سارے ’پس ماندہ‘ صوبے اب ’برخوردار اور ترقی یافتہ‘ بن چکے ہیں، لیکن سیستان بلوچستان ابھی تک پس ماندگی کا شکارہے۔ یہاں صنعتی مراکز نہ ہونے کے برابرہیں اور زمینیں بھی بنجر ہیں؛ یہ ہمارے بعض مسائل ہیں جن کی وجہ سے صوبے کے ماتھے پر ابھی تک پس ماندگی کا نشان باقی ہے۔

ممتاز بلوچ عالم دین نے خطے کی پوشیدہ خداداد صلاحیتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارا صوبہ محروم و پس ماندہ رکھاگیاہے؛ ورنہ یہ زمین بہت زرخیز ہے۔ یہاں بہت سارے باصلاحیت لوگ رہتے ہیںجن کی صلاحیتوں کو اعلی حکام بروئے کار لاکر صوبہ سیستان بلوچستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بناسکتے ہیں۔ اگر حکام دقت نظری سے کام لیں تو ہمارے لوگ دارالحکومت کو بھی اپنی خدمات پیش کرسکیں گے۔

انہوں نے ’صدر روحانی کی مزید توجہ‘ اور ’دورے‘ پر زور دیتے ہوئے کہا: جیس طرح صدر روحانی ہمارے صوبے پر خاص توجہ دیتے ہیں، ان سے درخواست ہے اپنی مزید توجہات سے صوبے کے مسائل حل کرائیں۔ ہمیں امیدہے صدرمملکت جلد اس صوبے کا دورہ کریں تاکہ قریب سے لوگوں سے ملیں اور ان کی باتیں سنیں۔

’بھائی چارہ‘ اور’تشدد وتکفیر سے بیزاری‘ ایرانی اہل سنت کا طریقہ ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ہمارے صوبے سمیت تمام ایران کے سنی باشندے تشدد پر یقین نہیں رکھتے، یہ لوگ انتہاپسندی، تشدد، تکفیر اور تکفیری گروہوں سے بری ہیں۔ ہمارے لوگوں کی راہ بھائی چارہ، مکالمہ اور رواداری ہے۔ ایرانی اہل سنت کی سوچ میں وسعت پائی جاتی ہے اور وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اتحاد ویگانگی کی خواہش رکھتے ہیں۔

خطاب کے اختتام پر مولانا عبدالحمید نے امید ظاہرکی ایران کی تمام برادریاں بشمول شیعہ وسنی اور مختلف قومیتیں ہمیشہ انتہاپسندی سے گریز کریں، ملک کی ترقی کی خاطر متحد رہیں اور دوراندیشی سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں