سردی سے موت نہیں ہوتی ورنہ سائبیریا میں کوئی زندہ نہ ہوتا

سردی سے موت نہیں ہوتی ورنہ سائبیریا میں کوئی زندہ نہ ہوتا

بھارت کی ریاست اتر پردیش میں ہندو مسلم فسادات کے بعد نقل مکانی کرنے والے افراد کی خیمہ بستیوں میں کم سے کم 34 بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔

لیکن اتر پردیش کے چیف داخلہ سکریٹری اتل گپت کا کہنا ہے کہ ’سردی سے کسی کی موت نہیں ہوتی ہے۔‘
اتل گپت جمعہ کو مظفرنگر امدادی کیمپوں میں بچوں کی موت کی جانچ کے لیے ریاستی حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے نتائج کو میڈیا کے سامنے رکھ رہے تھے۔
انھوں نے کہا: ’بچوں کی موت نمونیا سے ہوئی ہے، سردی سے نہیں۔ سردی سے کسی کی موت نہیں ہو سکتی ہے۔ اگر سردی سے لوگوں کی موت ہوتی تو سائبیریا میں کوئی زندہ نہیں رہتا۔‘
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق شمالی ریاست اتر پردیش سے ستمبر میں نقل مکانی کرنے والے 4783 لوگ اب بھی مظفر نگر اور شاملی اضلاع میں قائم پانچ خمیہ بستیوں میں مقیم ہیں۔
واضح رہے کہ ستمبر میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں کم سے کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ گذشتہ ایک دہائی میں بھارت میں ہونے والا بدترین تشدد تھا۔
ایک خاتون کو ہراساں کرنے کے الزام میں تین افراد کے قتل کے بعد شروع ہونے والے ان فسادات کی وجہ سے ہزاروں افراد کو علاقے سے نقل مکانی کرنا پڑی۔
حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے ایک پینل کے مطابق تین ماہ میں ان خیمہ بستیوں میں رہنے والے 12 سال سے کم عمر کے کم سے کم 34 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ان میں سے بیشتر بچے شدید سردی کے باعث ہلاک ہوئے۔
اتل گپت نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ’ان تمام بچوں کی موت کی وجوہات مختلف ہیں۔ ان میں سے کم سے کم چار نمونیہ سے ہلاک ہوئے، بعض آنتوں کے ورم سے اور ایک بچہ وقت سے پہلے پیدائش کے باعث ہلاک ہوا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر بچوں کو علاج کے لیے خمیہ بستیوں سے باہر لے جایا گیا یا مقامی سرکاری ہسپتالوں کو لے جانے کو کہا گیا۔
اتر پردیش میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے65 لوگ ہلاک اور 85 زخمی ہوئے تھے۔ ان فسادات کی وجہ سے پچاس ہزار لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
گذشتہ ہفتے کانگریس پارٹی کے نائب صدر اور ممبر پارلیمان راہل گاندھی نے مغربی اترپردیش کے شاملی اور مظفرنگر اضلا‏ع میں کیمپوں میں رہنے والے فسادات کے متاثرین سے ملاقات کی اور ان سے واپس اپنے گھر جانے کی اپیل کی تھی۔
اس سے پہلے راہل گاندھی نے الزام عائد تھا کہ بی جے پی نے اتر پردیش میں سیاسی فوائد کے لیے فسادات کی آگ بھڑکائی جسے کانگریس نے بجھایا۔
فسادات کے متاثرین نے راہل گاندھی سے کہا ہے کہ وہ واپس نہیں جاسکتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے گا‎‎ؤں میں اپنی جان کی فکر ہے۔
گجرات میں دو ہزار دو کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
دو اراکین اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نےمرنے والوں کے لواحقین کے لیے سرکاری نوکریوں اور تمام متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔
مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لیے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بی بی سی اردو

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں