الوداع جسٹس چوہدری!

الوداع جسٹس چوہدری!

یہ اٹل گھڑی آنا ہی ہوتی ہے۔کسی کا عہد اقتدار کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اور کوئی کتنے ہی عرصہ دراز تک کسی منصب بلند پر فائز کیوں نہ رہے،

اسے ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہی ہوتا ہے۔ جس طرح عمر کی طوالت کسی انسان کے نامہ اعمال کا حسن نہیں بن سکتی، اسی طرح کسی منصب دار کی کسی عہدے پر براجمان رہنے کی مدت طویل بھی اس کے سینے کا تمغہ اعزاز نہیں ہوتی۔ تاریخ کسی کے نام کو اپنی بیاض کے زریں ورق پہ کندہ کرنے اور کسی کو انبوہ خس و خاشاک کا رزق بنادینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔ اس کے ہاں سرسری سماعت کا دستور نہیں۔
ساڑھے آٹھ برس، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج رہنے کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری رخصت ہورہے ہیں۔ کل ان کے نام کے ساتھ بھی ’’ر‘‘ کا لاحقہ لگ جائے گا۔ یہ پاکستان کے آئین و قانون کا تقاضا ہے۔ بے شک انتظار کرنا ہوگا کہ تاریخ کی عدالت عظمیٰ ان کے بارے میں کیا حتمی فیصلہ صادر کرتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں ان کا نام حسین یاد کی طرح مہکتا رہے گا۔ کون بھلا پائے گا کہ انہوں نے اس وقت ایک بدمست ڈکٹیٹر کے سامنے حرف انکار کی جرأت کی جب اس کی رعونت شیش ناگ کی طرح پھنکار رہی تھی۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں ملک بدر کئے جاچکے تھے۔ پاکستان میں موجود بڑا نام اور اونچا مقام رکھنے والے بیشتر سیاستدان، پرویز مشرف کی حویلی میں نصب مسلم لیگ (ق) کے خیمہ خوش رنگ میں پناہ لے چکے تھے۔ آج ہر ٹی وی چینل پر ہزار داستان کی طرح چہکتے اور انقلاب نو کے لئے ٹسوے بہانے والے اس وقت ڈکٹیٹر کے سرکس میں بے جان پتلیوں کی طرح رقص کررہے تھے۔ حقیقی معنوں میں حبس کا وہ عالم تھا کہ لوگ لو کی دعا مانگ رہے تھے۔ مشرف کے مصاحبین اسے باور کراچکے تھے کہ 2008ء کے انتخابات سے بھی مسلم لیگ (ق) ہی کا آفتاب جہاں تاب طلوع ہوگا اور مزید پانچ برس کے لئے صدارت کا منصب اس کی تقدیر میں لکھا جاچکا ہے۔ کچھ وفاشعاروں نے البتہ کہا کہ افتخار محمد چوہدری نامی جج میں خودسری کے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ اسٹیل ملز پرائیویٹائزیشن کیس میں عالی جناب کی طرف سے واضح پیغام ملنے کے باوجود وہ نامطلوب فیصلہ دے چکا ہے۔ سو بہتر ہوگا کہ عدلیہ کو اپنی مٹھی میں رکھنے کیلئے پہلو میں کھٹکتے اس کانٹے کو نکال باہر کیا جائے۔ شہنشاہ معظم اور درباریوں میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ افتخار محمد چوہدری مزاحمت بھی کرسکتے ہیں۔
اس یوم کم نصیب کی کہانی کئی بار بیان کی جاچکی ہے جب مشرف اور ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کے جھرمٹ میں افتخار محمد چوہدری کو فائلیں دکھا دکھا کر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں لیکن اندھیرے میں ایک جگنو چمکا اور سفاک سناٹے میں ایک آواز گونجی ’’میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘‘۔ یہ جملہ آمریت کے لق و دق صحرا میں ایک گونج کی طرح پھیلتا چلاگیا۔ ٹھہری ہوئی جھیل میں پھینکے گئے ایک کنکر سے دائرے بنتے چلے گئے۔ وکلاء نے اس انکار کو للکار میں بدل ڈالا۔ سکڑی سمٹی اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم مل گیا۔ میں اس کہانی کو ایک کتاب کی صورت قلم بند کرنے کا ارادہ کررہا ہوں۔ خلاصہ صرف یہ ہے کہ اس حرف انکار کے افق سے ایک شفق پھوٹی۔ ایک ایسی پرعزم تحریک نے جنم لیا جس میں معاشرے کے سبھی طبقات نے اپنا حصہ ڈالا۔ افتخار محمد چوہدری کے خلاف لب کشائی کرنے والوں کے چہرے سیاہی سے تھوپ دیئے گئے اور میخوں والے ڈنڈوں سے جلوس نکالنے والے تنہا رہ گئے۔ عدلیہ بحالی کی یہ تحریک ، جمہوریت بحالی کی تحریک بن گئی۔ ہر آمر کی طرح مشرف نے سارے حربے آزما لئے لیکن اس کی لشکرگاہ اجاڑ ہوتی رہی اور عدلیہ بحالی کی پرچم بردار سپاہ، زخم کھا کھا کر آگے بڑھتی رہی۔ بالآخر مطلع تاریخ سے وہ دن طلوع ہوا، جب نہ خود پرست ڈکٹیٹر رہا، نہ اس کی لے پالک عدلیہ ، نہ میخوں والے ڈنڈا بردار نہ منہ ٹیڑھا کرکے یہ اعلان کرنے والے اہل دربار کہ ’’افتخار محمد چوہدری اب بھولی بسری کہانی ہوچکا ہے‘‘۔ مجھے اس امر میں رتی بھر شک نہیں ہوا کہ اگر 9؍مارچ 2007ء کو باوردی جرنیلوں کے حصار میں بیٹھے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دل و دماغ پر ایک باسعادت لمحے کا نزول نہ ہوتا،تو آمریت کی رات کہیں زیادہ طویل ہو جاتی اور ہماری تاریخ کا منظرنامہ خاصا مختلف ہوتا۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ ان کی بحالی کے بعد عہد نو کا آغاز اس وقت ہوا جب پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی اور جناب آصف زرداری منصب صدارت سنبھال چکے تھے۔ کاش وہ نواز شریف سے کئے گئے تحریری عہدوپیماں کے مطابق جسٹس افتخار محمد چوہدری اور تمام دیگر معزول جج صاحبان کو بحال کردیتے لیکن وہ ایک سال تک مشرف کی خانہ ساز سپریم کورٹ کے مزے لیتے اور عبدالمجید ڈوگر کے ذریعے اپنی خواہشوں میں رنگ بھرتے رہے۔ یوں افتخار محمد چوہدری کو ایک سال تک عدل گاہوں سے دور رکھا گیا۔ وہ بحال ہوئے تو ملک اپنی تاریخ کی سب سے نااہل اور بدعنوان حکومت کی گرفت میں تھا۔ ایسے بدچہرہ زمانوں میں انتظامیہ حکمرانوں کی کنیز بن کے رہ جاتی ہے۔ بیورو کریسی شاہی اصطبل کے کھونٹوں سے بندھی رہتی ہے اور کاروبار سلطنت ، کاروبار کوچہ و بازار بن جاتا ہے۔ انتظامیہ کا یہ کھوکھلاپن، عدالتوں کو فعالیت کا موقع فراہم کردیتا ہے۔ اس فعالیت کو میڈیا اور عوام کی تائید و حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ سو جسٹس افتخار محمد چوہدری کی افتاد طبع کو ایسا ماحول میسر آیا کہ وہ کرپٹ حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے اور ایسے توانا فیصلے صادر کرنے لگے جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اہل جبر اور زورآور طبقات ان کی فعالیت کا خصوصی ہدف بننے۔ ہمیشہ قانون کی گرفت سے دور رہنے والے وہ چہرے بھی عدالتی کٹہروں میں دکھائی دینے لگے جنہوں نے صدیوں سے ’’استثنیٰ‘‘ کی بکل ماری ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا یہ جری کردار، بالعموم عدالتی مزاح کا حصہ بنتا گیا۔ یہ تاثر زائل ہوگیا کہ ہماری عدلیہ ہمیشہ انتظامیہ کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی رہی ہے۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ کوئی وزیراعظم بھی توہین عدالت کا مرتکب ہو کر گھر جاسکتا ہے۔ جسٹس چوہدری نے انتظامیہ کو نکیل ڈالنے کے باوجود جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ ہمیشہ کے لئے طے کردیا کہ آئندہ کسی غیرآئینی بندوبست کے تحت ، پی سی او کا حلف اٹھانے والا جج، اپنے منصب پر براجمان نہیں رہے گا۔ بستیوں کو امن آشنا کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی ، انتظامیہ کی خودسری کا پھن کچلنے اور عدلیہ کے رعب و دبدبہ میں اضافہ کرنے کے لئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کردار کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ ان کی بے مثل جدوجہد عالمی اعزازات کی مستحق بھی ٹھہری اور اہل وطن کی بے کراں محبتوں کی حق دار بھی۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایک فرد کے بجائے ایک علامت اور ایک استعارہ بن چکے ہیں۔ میں عدلیہ بحالی کی جدوجہد کے دوران ان سے ملتا رہا۔ حتمی طور پر بحال ہوئے تو ایک دن خود یاد کیا۔ بولے ’’تم تو مبارک بادکہنے بھی نہیں آئے‘‘۔ میں نے کہا ’’مائی لارڈ میرا کام اب ختم ہوگیا ہے‘‘۔ اگلے دن میں بچوں کے ہمراہ انہیں ملنے گیا۔ اس کے بعد کسی تقریب میں شاید ملاقات ہوئی۔ عدالت بھی جاتا رہا لیکن براہ راست ملاقاتوں کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ اب کسی دن انہیں ’’مبارک باد‘‘ کہنے جائوں گا کہ انہوں نے بہرحال قومی تاریخ پر ایک گہرا نقش چھوڑا ہے۔
جسٹس چوہدری انسان ہیں۔ کوئی انسان غلطیوں ،کوتاہیوں اور لغزشوں سے پاک نہیں ہوتا۔ یہ امتیاز صرف پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے۔ جسٹس صاحب کی ساڑھے آٹھ سالہ میعاد کے دوران یقیناً ایسا کچھ بھی ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں کھٹکتی ان باتوں کا ذکر میں کسی اور کالم میں کروں گا۔ ایک اور بات کا تذکرہ بھی کروں گا جو میری چھٹی حس میں اکساہٹ سی پیدا کررہی ہے۔ لیکن آج اس مرد جری کو محبتوں بھرا سلام وداع، جس کی ضرب کاری نے رعونت کے سومنات میں سجے کتنے ہی بتوں کو پاش پاش کیا اور آمریت کے گونگے بہرے موسموں کو زبان بخشی۔
اللہ اسے ہمیشہ آسودہ رکھے۔
عرفان صدیقی
بشکریہ روزنامہ “جنگ

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں