خودکشی تقویٰ سے دوری کا نتیجہ ہے

خودکشی تقویٰ سے دوری کا نتیجہ ہے

 

 

 

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں خودکشی کے برے رجحان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے تقوی اور پرہیزکاری سے دوری کی علامت اور نتیجہ قرار دیا۔ 

یکم نومبر دوہزار تیرہ کے خطبہ جمعہ میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: «يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ» [اعراف: 26]، (اے اولاد آدمؑ کی ہم نے تمھارے لیے لباس پیدا کیا جو کہ تمھاری پردہ داریوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے یہ الله تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔) کی تلاوت سے کیا۔
تقوی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو دو قسم کا لباس عطا فرمایاہے؛ ایک ظاہری لباس ہے جو جسم ڈھانپنے اور زیب وزینت کیلیے استعمال ہوتاہے، یہ بھی اللہ کی نعمت ہے۔ دوسری قسم معنوی لباس ہے جسے قرآن پاک میں ’لباس تقوی‘ کہا گیا۔ یہ لباس پہلے والے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔
مولانا نے مزیدکہا: روایات میں آیاہے اگر کوئی شخص خواب میں کپڑا دیکھ لے تو اس کی تعبیر ’دین‘ ہے؛ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا جن کی قمیصیں چھوٹی یا بڑی تھیں، عمر (رضی اللہ عنہ) کا کرتا سب سے زیادہ لمبا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، اس کی تعبیرکیاہے؟ آپ نے فرمایا: دین۔ یعنی یہ زیادہ دینداری کی نشانی ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: تقویٰ سے بڑھ کر کوئی لباس نہیں ہے۔ سب سے زیادہ خوبصورت لباس بھی یہی ہے۔ جب کوئی تقوی اور پارسائی اختیار کرتاہے تو اللہ تعالی اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالتاہے۔ متقی لوگ دوسروں کے دلوں میں بستے ہیں۔ اللہ رب العزت اور فرشتے بھی ایسے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ متقی و پرہیزگار لوگ دوسروں کے حقوق پامال نہیں کرتے، شریعت کے تمام احکام پر عمل کرتے ہیں اور گناہوں سے سخت اجتناب کرتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا: آج کل دنیا میں بنی نوع انسان مختلف قسم کے بحرانوں اور مسائل سے دوچار ہے، اس کی اصل وجہ تقوی اختیار نہ کرنا ہے۔ آیندہ بھی اگر انسانیت کسی بحران کا شکار ہوجائے تو اس کی بنیادی وجہ تقوی سے دوری ہی ہوگی۔ جب بندہ تقوی کی راہ سے ہٹ جائے تو اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ضائع کرنے لگتاہے، احکام شریعت سے دوری اختیار کرتاہے اور نماز جیسی اہم عبادات میں کاہلی و سستی کا مظاہرہ کرتاہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے ’خودکشی‘ کے بڑھتے رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کل معاشرے میں خودکشی کا برا رجحان عام ہوتا جارہاہے۔ خودکشی حرام اور ناجائز ہے۔ جو خودکشی کرتاہے تو اس کی جگہ جہنم ہے۔ حدیث کے مطابق خودکشی کرنے والا جس طریقے سے اپنی جان لیتاہے، اسی انداز میں جہنم میں اپنی جان لیتا رہے گا۔ انسان کو زندگی کی سختیاں برداشت کرنی چاہیے۔ جو لوگ خودکشی کرتے ہیں دراصل ان کا ایمان اللہ پر کمزور ہے، یہ لوگ اللہ تعالی کو اچھی طرح نہیں جانتے۔ افسوس کی بات ہوگی کہ کوئی مسلمان جس کے پاس عقل اور وحی کی نعمتیں ہیں اس برے عمل کا ارتکاب کرے۔
اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے معاشرے کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے کہا: آج کل معاشرے میں قسماقسم برائیاں پائی جاتی ہیں؛ خواتین عریانی اور منشیات کی لت میں گرفتار ہوچکی ہیں۔ ان جیسے گناہوں اور برائیوں سے نجات کا واحد راستہ تقوی و پرہیزکاری ہے۔ اسی سے ایمان پختہ اور یقین کی تقویت ممکن ہوگی۔

کنکریٹ دیواروں اور پولیس گردی سے امن حاصل نہیں ہوسکتا
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کےدوسرے حصے میں پائیدار امن کی تلاش میں حیران حکومت کو تجویز کی ملکی سرحدوں کو کنکریٹ دیواروں سے بندکرانے اور پولیس گردی کے بجائے افہام وتفہیم سے کام لے اور اعتماد کی دیواریں تعمیر کروادے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایرانی بلوچستان میں رونما ہونے والے بدامنی کے تازہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے لوگ جن کاتعلق کسی بھی مسلک وقومیت سے ہو، ہرگز بدامنی کی حمایت نہیںکرتے ہیں۔ کوئی بھی اپنا صوبہ غیرمحفوظ نہیں دیکھنا چاہتاہے۔ جولوگ بدامنی اور انارکی پھیلاتے ہیں، چاہے جس لبادے میں ظاہرہوجائیں اورکسی بھی طریقے سے تشدد کا مظاہرہ کریں، لوگوں کے یہاں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
انہوں نے لسانی وفرقہ وارانہ لڑائیوں کو ’بدترین‘ قرار دیتے ہوئے کہا: فرقہ وارانہ فسادات اندھی لرائیاں ہیں جو لوگوں کی شکست اور بے عزتی کی باعث بنتی ہیں۔ ایسی لرائیاں انتہائی خطرناک اور نفرت انگیز ہیں۔ کوئی بھی دین اور منطق شیعہ وسنی مسلکوں کی مذہبی لڑائیوں کی توجیہ نہیں کرسکتی؛ قوموں کو ایسے فسادات سے بھاری نقصان اٹھانا پڑتی ہے۔
ممتازسنی عالم دین نے مزیدکہا: حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی اکثریت نے اپنا ووٹ تبدیلی کے حق میں استعمال کیا؛ لوگ اندرونی وبیرونی پالیسیوں میں مثبت تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ حسن روحانی کو زیادہ ووٹ اسی لیے ملا کہ ’امید اور تدبیر‘ ان کا نعرہ تھا۔ ہم پولیس گردی کے خلاف ہیں اور سیاسی ومذہبی آزادی کے خواہاں ہیں۔ صدر روحانی کا نعرہ یہ بھی تھا کہ مکمل طورپر آئین نافذ ہوجائے گا اور اس سلسلے میں بعض سرکاری اداروں اور شخصیات کی رکاوٹوں کو خاطرمیں نہیں لایا جائے گا۔ اگر اس وعدے پر عملدرآمد کیاجائے تو تمام اقوام اور مسالک ومذاہب کو ان کے جائز حقوق مل جائیں گے اور برابری نافذ ہوجائے گی جس سے اکثر مسائل حل ہوجائیں گے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان میں عوام کی بھاری اکثریت نے حسن روحانی کا نام بیلٹ بکسز میں ڈالا۔ اس کا مطلب ہے صوبے میں عوام افہام وتفہیم اور مکالمے پریقین رکھتے ہیں اور جائزطریقوں سے اپنے حقوق حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے لوگ بدامنی اورتشددکے خلاف ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کچھ انتہاپسند عناصر جو شیعہ وسنی دونوں مسالک میں پائے جاتے ہیں ، اس صوبے کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتے، وہ صدرمملکت کو اپنی پالیسیوں میں کامیاب دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہوجائے اور سنی برادری اپنے حقوق حاصل کرلے تو یہ ان کے مفادات کے خلاف ہوگا اور ان کا کاروبار جام ہوکر رہ جائے گا۔ اگر لوگ اپنی بات منوادیں تو انہیں شورمچانے کیلیے کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔ ملک میں بعض شیعہ حضرات بھی اقتدار میں صرف اپنے ہی لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو کسی حق کے مستحق نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سب اعتدال کی راہ سے ہٹ کرافراط کے رستے پر گامزن ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: صدرمملکت کو موقع دینا چاہیے تاکہ اپنی اعلان کردہ پالیسیوں اور نعروں کو جامہ عمل پہنادے۔ صدر روحانی نے کیا اچھا کہا ہے کہ اگر لوگوں کی بات نہ سنی تو شکست ہمارا مقدر ہوگا، یہ مثبت فکر ہے۔ ایسے میں چوکس رہنا چاہیے، بعض عناصر فضا کو آلودہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ روحانی کابینہ ناکام ہوجائے۔ لہذا جو حکومت قانونی طریقے سے برسراقتدار آئی ہے اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا قوم کیلیے ناقابل برداشت ہے۔
ایرانی اہل سنت کی سرکردہ شخصیت اور ممتاز رہ نما نے زور دیتے ہوئے کہا: ہماری خواہش ہے سیستان بلوچستان امن کا گہوارہ بن جائے۔ امن کے مسئلے میں ہماری اور حکام کی رائے ایک ہے۔ ہمارے خیال میں پائیدار امن کیلیے مشورہ، دوراندیشی اور گفتگو کی ضرورت ہے۔ غصہ اور جوش سے امن قائم نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں علمائے کرام، دانشوروں ، عمائدین سمیت حکام کے باہمی مشورے اور غوروفکر سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ بدامنی کا مقابلہ غصہ اور جوشیلے اقدامات سے ممکن نہیں ہے جو عوام کی دل شکنی و مایوسی کے باعث بنتے ہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: بندہ سرحد پر کنکریٹ دیوار تعمیر کروانے کے خلاف ہے؛ میرا خیال ہے لمبی اور آہنی دیوار تعمیر کرانے کے بجائے اعتماد اور بھروسے کی دیوار تعمیر کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر قوم کا اعتماد حاصل کیاگیا تو سرحد خودبخود پرامن ہوگی۔ آج کل دنیا میں جدائی ڈالنے والی دیواروں کو گرایاجاتاہے، اور ہم نئی دیواریں تعمیر کروانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں!
انہوں نے مزیدکہا: ہم تدبیراور گفت وشنید سے اپنے مسائل حل کریں گے اور کسی بھی فرد یا گروہ کو دیگر ملکوں میں جاری لڑائیوں کو اپنے ملک میں لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے لوگ اس صوبے میں عبادت گاہوں اور کاروباری مراکز سمیت دیگر عوامی مقامات پر بم حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔
اپنے خطاب کے آخرمیں ’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘ کے رکن نے کہا: جس طرح صدر روحانی نے وعدہ دیاہے ملکی سطح پر پولیس گردی ختم کردی جائے گی، ہمیں بھی یہی توقع ہے کہ صوبہ سیستان بلوچستان میں لوگوں کو مزید کوفت نہ پہنچایاجائے۔ یہاں بھی پولیس گردی ختم ہوجائے اور وزیرانٹیلی جنس کے وعدے کے مطابق آزادی، تدبیر اور امن ومکالمے کی فضا قائم ہوجائے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں