ملالہ، عافیہ صدیقی کے حق میں بھی آواز اٹھائیں

ملالہ، عافیہ صدیقی کے حق میں بھی آواز اٹھائیں

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں سوات میں طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ وہ مغرب کی کٹھ پتلی نہیں ، پاکستان کی بیٹی ہیں اور پاکستانی ہونے پر فخر ہے، پاکستانی مجھ سے محبت کرتے ہیں ،پاکستان میں سیاست کروں گی، ملک میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتی ہوں۔

ملالہ نے مزید کہا: ’پاکستان میں تعلیم اور توانائی سمیت دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کروں گی، پاکستان میں تعلیمی نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے‘۔

ملالہ یوسفزئی کی یہ وضاحت یقیناًبہت سے پاکستانی شہریوں کے اذہان و قلوب میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات رفع کرے گی جو مغربی ممالک میں اُس کی زائد از ضرورت پذیرائی اور علمی شعبے میں کوئی بڑی نمایاں کارکردگی نہ ہونے کے باوجود کی گئی اور اسے امریکی و مغربی تہذیب کے پرچم برداروں نے پاکستان اور عالم اسلام کے تمام شہریوں کے لیے رول ماڈل کے طورپر پیش کرنا شروع کر دیا۔

دوسری طرف ڈی سی سوات نے نئی بات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوات کا ہر شخص ملالہ یوسفزئی کو جانتا ہے لیکن کوئی بھی شخص ملالہ یوسفزئی کے ساتھ تعلق بنانا پسند نہیں کرتا اور ایسا کیوں ہو رہا ہے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔

سوات میں واقع گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ گرلز ڈگری کالج سیدو شریف کو ملالہ یوسفزئی کے نام سے منسوب کیا گیا لیکن کالج میں پڑھنے والی طالبات نے کالج کے نام کی تبدیلی کیخلاف احتجاج کیا۔

اس اختلاف رائے کے باوجود یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملالہ یوسفزئی نے واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما اور ان کی اہلیہ مشعل اوباما سے ملاقات کے دوران ڈرون حملوں پر تشویش کا اظہا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘‘۔

وہ پہلی پاکستانی طالبہ ہے جس نے انتہائی جرأت کے ساتھ امریکی صدر اوباما سے کہا کہ ’ڈرون حملے بند کریں،قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں سے شدت پسندی مزید بڑھ رہی ہے، ان ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں ‘۔

اوباما سے ملالہ کا یہ مطالبہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ 16 سالہ اس پاکستانی طالبہ نے عالمی طاقت کے صدر کے رو برو پاکستانی عوام کے سفیر کا کردار ادا کیا۔

ہم ملالہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ میں جرم بے گناہی میں قید کاٹنے والی مسلم دنیا اور پاکستان کی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھی آواز بلند کریں ۔

ملالہ عورتوں کی تعلیم کی علمبردار ہیں۔ انہیں دنیا کو آگاہ کرنا چاہئے کہ عافیہ صدیقی امریکہ ہی کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ترین اعزازات حاصل کرنے والی عورتوں میں سے ہے جسے 86سالہ انصاف کش قید کی سزا سنا کر پابند سلاسل رکھا گیا ہے؟ ملالہ اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز بلند کریں تو وہ پاکستانیوں کے دل میں گھر کر لیں گی۔

مقام حیرت ہے کہ پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں معمولی امداد فراہم کرنے والے جو عالمی مالیاتی ادارے امداد کو ہزار شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں کس ایجنڈے کے تحت ملالہ فنڈ کے لیے 20 کروڑ ڈالر بیک مشت فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ملالہ فنڈ پاکستان میں قائم کیا جائے اور مغربی مالیاتی ادارے اس کے لیے جو بھی فنڈز دیں وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے دیں اور اس کے اغراض و مقاصد سے حکومت پاکستان کو بھی آگاہ کریں۔

بشکریه روزنامه “نئی بات”


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں