سچائی سے اعمال کی اصلاح ممکن ہوجاتی ہے

سچائی سے اعمال کی اصلاح ممکن ہوجاتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں سچائی کی اعمال پر تاثیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:سچی بات اور سچائی اعمال کی اصلاح ودرستی کے باعث ہیں۔

ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان کے سنی خطیب مولانا عبدالحمید نے ستائیس ستمبر دوہزار تیرہ کے خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیات: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا*يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا» [احزاب: 70-71]، (اے ایمان والو الله سے ڈرو اور راستی کی بات کہو۔ الله تعالیٰ (اس کے صلہ میں) تمہارے اعمال قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور جو شخص الله اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔) کی تلاوت سے کیا۔

انہوں نے کہا: اعمال کی اصلاح دین میں انتہائی اہم اور کلیدی موضوع ہے۔ ہمارے اعمال اس وقت تک قبول اور اللہ تعالی کی رضامندی کے باعث نہیں ہوں گے جب تک درست راہ پر نہ ہوں۔ اللہ رب العزت کو درست اور صحیح راستے پر چلنا پسند ہے اور استقامت دکھانے والوں سے اللہ محبت فرماتاہے۔ اللہ تعالی کا برگزیدہ دین درست رستے پر ہے؛ ارشادالہی ہے: ۔ نماز میں سب سے بڑی چیز جو بندہ مانگتاہے صحیح راستے پر ہدایت ہے۔یہ راستہ انبیائے کرام، صلحا وشہدا اور صدیقین کا ہے جن پر اللہ تعالی نے خاص انعام فرمایاہے۔

اوپر تلاوت کی گئی آیات کی تشریح کرتے ہوئے ممتازسنی عالم دین نے کہا: سورت الاحزاب کی آیات مبارکہ کی تصریح سے معلوم ہوتاہے سب سے پہلے بندے کا کلام درست اور سچا ہونا چاہیے۔ جب سچائی گفتگو میں آجائے تواعمال ٹھیک ہوجائیں گے۔ اگر گفتگو صحیح، سچی، معتدل اور انصاف پر مبنی نہ ہوتو کردار اور اعمال بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ حتی کہ دشمن کے سامنے بھی انصاف سے کام لینا چاہیے۔ کسی مسلمان کیلیے مناسب نہیں کہ دوسروں پرظلم کرکے انصاف کا دامن چھوڑدے۔ چنانچہ ارشاد ہے: «قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [انعام: 161]، (آپ کہدیجئیے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلایا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم جو طریقہ ہے ابراہیمؑ کا جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔)

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہرفرد اپنی باتوں کا خود ذمہ دار ہے؛ «مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ» [ق: 18]، (وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا مگر اسکے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔) انسان کی تمام باتیں فرشتوں کے ذریعے ریکارڈ ہوتی ہیں۔ نہ صرف ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں، کے ذمہ دار ہیں بلکہ اپنے دشمنوں کے حق میں کہی گئی باتوں کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔ کہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اعزہ واقارب کی خاطر غلط بات زبان پر لائیں اور عدل وانصاف سے دوری کریں۔ عادلانہ بات سے انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے۔ یہ کوئی کمال نہیں کہ ہم اپنے دوستوں کے حق میں انصاف سے کام لیں بلکہ کمال اس میں ہے جب ہم اپنے دشمنوں کے حوالے سے انصاف کا مظاہرہ کریں۔ ہمارے کردار وگفتار میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عماررضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہا ہے: انصاف ان خصلتوں میں سے ہے جو ایمان کی تکمیل کا باعث بنتاہے۔

انہوں نے مزیدکہا: عادلانہ باتوں سے نہ صرف اعمال اصلاح وٹھیک ہوجاتے ہیں بلکہ اللہ تعالی انسان کے گناہوں کو بھی معاف فرماتاہے۔ چونکہ سچی بات ایمان وتقوی کے مطابق ہے۔

اپنے بیان کے اس حصے کو ختم کرتے ہوئے انہوں نے زور دیکر کہا: کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہمارے اعمال اور گفتار کی بنیاد اللہ کی رضامندی کا حصول ہو؛ اللہ کی خاطر تعلقات قائم کریں اور اسی کی خاطر تعلقات ختم بھی کردیں۔ زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی رضامندی کو مدنظر رکھیں۔ ہمیشہ اپنی آخرت کی فکر میں رہیں۔

بلوچستان کے متاثرین زلزلہ سے ہمدردی وتعاون کریں
ایرانی بلوچستان کے سرکردہ عالم دین نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صوبہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع میں حالیہ تباہ کن زلزلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے غم اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے حاضرین سے درخواست کی متاثرین زلزلے کیلیے مخصوص چندہ بکسز اور کیمپس میں اپنی عطیات جمع کرادیں۔ دارالعلوم زاہدان سے وابستہ محسنین ٹرسٹ کا امدادی وفد جلد سرحد پارکر متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیاں شروع کرے گا۔
مولانا عبدالحمیدنے زلزلے میں جاں بحق افراد کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہوئے پس ماندگان کیلیے اجروصبر کی دعا مانگی۔

صدرمملکت کا دورہ نیویارک مفیدرہا
ایرانی اہل سنت کے ممتاز رہ نما نے ایرانی صدر اور وفد کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت اور خطاب کو معتدل اور قابل قدر قرار دیتے ہوئے کہا: جب کوئی رہنما عالمی قوانین کے دائرے میں رہ کر منطق اور بہادری کے ساتھ گفتگو کرے اور مادی قوتوں سے مرعوب نہ ہوجائے تو اس کی باتیں عادلانہ شمار ہوں گی۔

انہوں نے مزیدکہا: صدر روحانی ایک معتدل مزاج شخص ہیں اور ان کی صدارت اور معروضی حالات کا تقاضا یہی ہے کہ مغربی دنیا خاص کر امریکا اورمشرق وسطی کے اہم ممالک اس موقع کا مناسب فائدہ اٹھائیں۔ اگر موجودہ حالات سے صحیح فائدہ لیاجائے تو بہت سارے تنازعات کا تصفیہ بآسانی ممکن ہوگا۔ ہم مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں اور امیدیہی ہے کہ سیاسی قیادت کی تدبیرو میانہ روی سے اندرونی وبیرونی مسائل سے قوم نجات حاصل کرے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے آخرمیں کہا: قابض اسرائیل کے سوا قریبا تمام ممالک نے ایرانی صدر کی باتوں کا خیرمقدم کیا۔ اسرائیل کے غصے کی وجہ یہ ہے کہ اب شورمچانے کے مواقع اس کے ہاتھ سے جارہے ہیں اور آئندہ اسے معصومیت کی واویلا کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں