معارف سورۃ یوسف(علیہ السلام)

معارف سورۃ یوسف(علیہ السلام)

اﷲ تعالیٰ نے اس اُمت کو جو خاص نعمتیں عطاء فرمائی ہیں…… وہ کسی اور اُمت کو نہیں ملیں……

قرآن مجید جیسی کتاب کسی کے پاس نہیں…… نور ہی نور، روشنی ہی روشنی اور سکون ہی سکون…… صرف’’سورۂ یوسف‘‘ کو ہی دیکھ لیں…… کون ساغم اور کون سی پریشانی ہے جس کا علاج اس میں نہ ہو…… ایک عالم دین کا طریقہ تھا کہ اُن کے پاس کوئی بھی پریشان حال آدمی آتا اور اپنے مسئلے کا حل پوچھتا تو وہ فرماتے روزآنہ دوبار سورۂ یوسف پڑھ لیا کرو……پریشانی گھریلو قسم کی ہو یا خاندانی…… کوئی مالی پریشانی ہو یا سیاسی…… کسی کی جدائی کا غم ہو یاکوئی محبوب بچھڑ گیا ہو……راستے بند ہوگئے ہوں یا مایوسی چھا گئی ہو…… روتے روتے آنکھیں بہہ گئی ہوں یا جیل کی سلاخیں بہت موٹی ہو گئی ہوں…… واقعی عجیب سورت مبارکہ ہے…… اس میں ایک تاریک کنواں ہے اور پھر اس سے نجات بھی…… ہم میں سے کتنے لوگ طرح طرح کے اندھے کنوؤں میں گرے پڑے ہیں …… اس سورۃ میں جیل بھی ہے اور پھر ٹاٹھ اور شان والی رہائی بھی…… آج بھی ظالمانہ جیلوں میں گمنام جوانیاں سسک رہی ہیں…… پرسوں مصر کے صدر محمد مرسی یاد آئے تو دل رو پڑا……کیا جرم اور قصور ہے اس مسلمان شخص کا؟…… عافیہ بہن بھی جیل میں…… اور ہر طرف جیلیں ہی جیلیں…… سورۃ یوسف، جیل کے اندر کا ماحول بھی دکھاتی ہے…… اور بے قصور قیدیوں کے حالات بھی سناتی ہے……ویسے دنیا بھی توجیل خانہ ہے…… درد، غم، گھٹن،بیماری اور پریشانی کی جگہ…… دھوکہ،فریب، جھوٹ اور مکاری کا گھر…… حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے رہائی ملی تو سیدھے بادشاہ کے مقرب بنے…… کیونکہ جیل میں بے قصور تھے…… اسی طرح جو دنیا کے قید خانے میں جرائم نہیں کرے گا…… مالک کو راضی رکھے گا وہ یہاں سے رہائی پاتے ہی شہنشاہ حقیقی کا مقرب مہمان بن جائے گا……

اچھا ایک بات بتائیں…… سورہ یوسف کب نازل ہوئی؟ اور اس سورۃ کی سب سے بڑی تأثیر کیا ہے؟…… جواب بالکل آسان…… یہ سورہ مبارکہ’’عام الحزن‘‘ کے موقع پر نازل ہوئی…… غموں کا سال…… میرے آقاﷺ کے لئے بڑے غموں کا سال…… جب ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے…… جان کے دشمن، عزت وآبرو کے دشمن اوردین کے دشمن…… تب دوسایہ دار درخت اس کڑی دھوپ میں میرے آقاﷺ کو راحت پہنچاتے تھے…… ایک تو حضرت امّی جان سیدہ خدیجہ الکبری رضی اﷲ عنہا…… سبحان اﷲ! کس شان اور مقام کی خاتون تھیں…… قیامت تک کی عورتیں اُن پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہیں…… مجھے ایک مسلمان مصنفہ کا یہ جملہ بہت پسند آیا کہ…… ہم عورتوں کے پاس سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا…… ہیں…… ہمیں اور کیا چاہئے؟…… سبحان اﷲ!کس طرح سے حضرت آقا مدنیﷺ کی خدمت فرمائی ، کس طرح سے دلجوئی کی اور کس طرح سے آپﷺ کی تسلّی دی…… اور کیسا شاندار ساتھ نبھایا…… یہ سب کچھ آسان کام نہیں تھا، بہت مشکل تھا ، بے حد مشکل…… مگر وہ کائنات کی افضل ترین عورتوں میں سے ایک تھیں…… ما شاء اﷲ بہت اونچی شان والی…… اُن کا انتقال ہو گیا…… میرے آقاﷺ کے لئے کڑکتی دھوپ میں جو سایہ دار درخت تھا وہ جنت البقیع میں جا سویا…… اور پیچھے چار بچیاں…… پہلے ہی سارے جہاں کا بوجھ…… چار وں طرف دشمن اور اب گھر میں چار بیٹیاں اکیلی…… اور دوسرے چچا ابوطالب…… وہ ایک ناقابل شکست ڈھال کی طرح آپ ﷺ کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے…… وہ بھی رخصت ہو گئے…… ایک ہی سال میں یہ دو بڑے حادثے…… ان حادثوں کی شدّت کو ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا…… اتنے عظیم کا م کا بوجھ، اتنی بھاری ذمہ داری، زمین پر ہر طرف دشمنی ہی دشمنی…… اور حمایت کرنے والوں کی مظلومیت اور کمزوری…… ایسے وقت میں یہ دو شخصیات بھی وفات پا گئیں…… تب عرش سے تسلی اور مرہم لئے سورہ یوسف اُتری……سبحان اﷲ! اول تا آخر تسلی ہی تسلی…… مرہم ہی مرہم…… اور کچھ ایسے اٹل قوانین جن کے ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے مخلص بندے کبھی مایوس نہیں ہو سکتے…… سورہ یوسف کی سب سے اہم تأثیر ہی یہی ہے کہ…… وہ مایوسی کو توڑتی ہے…… اور اعلان فرماتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا صرف کافروں کا کا م ہے مسلمانوں کا نہیں…… سورۃ کا آغاز ہی ایک عجیب منظر سے ہوتا ہے…… ہم اسے ’’منظر محبت‘‘ کہہ سکتے ہیں…… بیٹا کتنے لاڈ سے اپنے ابا جی کو خواب سنا رہا ہے…… اور ابا جی خواب سنتے ہی دو متضاد کیفیتوں میں…… ایک تو بے انتہا خوشی کہ محبو ب بیٹا بھی بڑے مقام والا ہے جو خواب میں دکھایا گیا ہے…… اور دوسرا ایک دم پریشانی کہ یہ با مقام بیٹا کہیں حسد اور حادثات کے تیروں کا شکار نہ ہو جائے……

پہلا منظر…… محبت کا ہے…… اور دوسرا منظر جدائی، فراق، غم اور صدمے کا ہے…… ایک دم بچھڑ گیا…… نہ بیٹے کوباپ کی خبر اور نہ باپ کو بیٹے کی…… بھائیو اور بہنو! اندازہ لگاؤ ، حضرت آقا مدنیﷺ کو خوشی پہنچے تب بھی اُمت کو فائدہ پہنچاتے ہیں…… اور جب آپﷺ کو غم پہنچے تو آپﷺ کے غم کے واسطے سے بھی اُمت کو فائدہ ملتا ہے…… بے شک آپﷺ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں…… آپﷺ کے غم کے وقت سورہ یوسف نازل ہوئی…… اور اس سورت نے قیامت تک کے انسانوں کے بے شما رغموں اور بیماریوں کا علاج بتا دیا…… دنیا میں شائد کسی کو گناہ کا ایسا موقع ملا ہو جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ملا…… آپ اپنے وطن اورخاندان سے دور تھے اور بالکل گمنام تھے……یعنی جب’’نام‘‘ ہی نہیں تھا تو بدنامی کا کیا خطرہ؟…… گناہ کی طرف بلانے والی معمولی عورت نہیں تھی بلکہ حسب نسب اور جمال و رعنائی میں اپنی مثال آپ تھی…… وہ آپ کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہی تھی…… گھر بند تھا، دیکھنے والا کوئی نہ تھا…… وہ عورت جس مقام پر تھی، ایسے مقام والے لوگ کبھی اپنے گناہوں کو ظاہر نہیں کرتے…… الغرض گناہ کے لئے ہر سہولت، ہر کشش اور ہر حفاظت موجود تھی…… ایسے حالات میں اﷲ تعالیٰ کے حکم پر مضبوطی سے عمل کرنا…… انسان کے لئے کامیابی کا ہر دروازہ کھول دیتا ہے…… اوریہی ہے وہ’’اخلاص‘‘ جو کامیابی اور قبولیت کی چابی ہے…… آج اُمت مسلمہ نے خود کو’’بے بس‘‘ سمجھ کر ہر گناہ اور ہر غلامی کو گلے لگالیا ہے…… حضرت یوسف علیہ السلام ایک خریدے ہوئے غلام اپنی مالکن کے سامنے ’’بے بس‘‘ نہیں ہوئے…… حالانکہ غلام سے بڑا بے بس کون ہو سکتا ہے؟…… آ پ بالکل اکیلے تھے نہ خاندان ساتھ تھا اور نہ قوم…… خود اسی گھر میں پلے بڑھے تھے اور اُن کے ممنون تھے……مگر خود کو بے بس نہیں سمجھا…… گناہ سے بھاگ سکنے کی جتنی طاقت تھی وہ استعمال فرمائی تو…… اﷲ تعالیٰ نے کائنات کے قرینے اور قانون تک اُن کے لئے بدل دیئے…… اور ایک شیر خوار بچے کو اُن کا گواہ بنا دیا…… اسی طرح جب جیل میں تھے، اور آپ نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر ارشاد فرمائی تو بادشاہ نے آپ کو بلا بھیجا…… ایک قیدی سے زیادہ کون بے بس ہوتا ہے؟…… اورقیدی بھی ایسا کہ جسے ملک کے زور آور وزیر نے اپنے خاص حکم سے قید کر رکھا ہو …… ایسا قیدی جس سے ملنے کے لئے آنے والا بھی کوئی نہیں تھا…… اور نہ پورے ملک میں اُس کا کوئی سفارشی تھا…… ایسا قیدی جس کی قید اندھی تھی، یعنی یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کس وجہ سے قید ہیں اور کب تک اس جیل خانے میں رہیں گے…… آپ بتائیں! ایسے قیدی کو رہائی کا پروانہ ملے اور وہ بھی بادشاہ کی طرف سے تووہ کس طرح سے رہائی کی طرف دوڑے گا…… مگر حضرت یوسف علیہ السلام نے یہاں بھی کوئی بے بسی محسوس نہیں فرمائی…… اور رہائی کا پروانہ واپس بھیج دیا اور فرمایا کہ پہلے اُس تہمت کی تحقیق کی جائے جو میرے ارد گرد گھوم رہی ہے……
سبحان اﷲ! پوری سورت تربیت ہی تربیت ہے…… اور حکمت ہی حکمت……

کیسا دلکش منظر ہوگا…… جب حضرت آقا مدنیﷺ پر یہ سورت نازل ہو رہی ہو گی…… آپﷺ غمگین تھے…… سورت نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے غم کا تذکرہ چھیڑاہوگا…… میرے آقاﷺ کے دل مبارک پر مرہم لگا ہو گا…… اور پھر آخر میں سورت نے سنایاہوگا کہ پورا خاندان آپس میں مل گیا…… بھائی معافیاں مانگ رہے تھے…… اور حضرت یوسف علیہ السلام فرما رہے تھے …… لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم…… آج کھلی معافی ہے، کوئی بدلہ نہیں،کوئی سزا نہیں…… اور پھر۸ ہجری کے رمضان المبارک میں…… میرے آقاﷺ مکہ مکرمہ کے اپنی قومی بھائیوں کے سامنے…… یہی اعلان فرما رہے تھے کہ……
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم…… آج کھلی معافی ہے، کوئی بدلہ نہیں، کوئی سزا نہیں

سورۃ یوسف کے معارف بہت زیادہ ہیں…… ابھی تو ان میں سے چند کی طرف اشارہ ہوا ہے…… ایک مختصر ساکالم کہاں ان سب باتوں کو سمیٹ سکتا ہے…… رمضان المبارک میں مسلمان سورہ یوسف کو توجہ سے دیکھیں…… ان شاء اﷲ عجیب و غریب فوائد پائیں گے…… حسد اور اس کا انجام، محبت اور اس کے طریقے، ظلم اور ظالم…… ظلم اور مظلوم…… اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے بعض بندوں کو ملنے والے خصوصی علوم…… انسان کی زندگی اور پورے معاشرے پر خوابوں کے اثرات…… سچے خوابوں کی ملک گیر تأثیرات…… عورتیں اور اُن کا مزاج…… دعوت اور اس کے ثمرات…… اصل اعتبار انجام کا ہوتا ہے، اس کی شاندار تفصیلات……زمین کا تنگ ہونا اور کُھلنا…… حسنِ خاتمہ کی فکر، تڑپ اور دعاء…… نظرِ بد سے حفاظت کی تدبیر…… نفسِ امّارہ اور اس کا علاج…… رازداری کی اہمیت…… جھوٹے آنسو، سچے آنسو …… دنیاوی ترقی کا راز…… اخروی ترقی کی فضیلت…… اور بہت کچھ……

اس سورۃ مبارکہ کے اختتام پر بہت عجیب بات ارشاد فرمائی گئی…… وہ یہ کہ بعض اوقات اﷲ تعالیٰ کے مخلص بندوں پر حالات اتنے تنگ ہو جاتے ہیں کہ…… اُن کو بس اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے…… اور حالات کے درست ہونے کی کوئی امیدنظر نہیں آتی…… اُن کے دشمن اتنے طاقتوراور زور آور ہو جاتے ہیں کہ…… اُن کے ختم ہونے کا ظاہری امکان تک باقی نہیں رہتا…… ایسے سخت حالات میں اﷲ تعالیٰ کے انتہائی مقرب بندے بھی مایوسی کے قریب پہنچنے لگتے ہیں…… انہیں بھی یہ خیال آنے لگتا ہے کہ شائد ہم غلط ہیں، شائد ہم حق پر نہیں ہیں…… بشری کمزوری کی وجہ سے خیال کی حد تک وہ یہ سوچتے ہیں……مگر اُن کا یقین ٹھیک ہوتا ہے…… ایسے سخت اور دردناک حالات میں اچانک اﷲتعالیٰ کی نصر ت آجاتی ہے…… ایمان والوں کوحفاظت ملتی ہے، غلبہ ملتا ہے اور اُن کے دشمن ذلیل و رسوا ہوتے ہیں…… کیا خیال ہے؟ آج کل مسلمانوں پر ایسے حالات نہیں ہیں؟ بے شک بہت سخت حالات ہیں…… اور بہت سے لوگ نعوذ باﷲ شک میں جاگرے ہیں…… سورۃ یوسف ہمیں سنبھالتی ہے، مسکرا مسکرا کر ہمیں اٹھاتی ہے …… حسین و جمیل پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کا میٹھا قصہ سناتی ہے کہ کہاں ایک اندھا کنواں…… اور کہاں پورے ملک مصر کے مالک…… اور غم میں نڈھال حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام کا فرمان سناتی ہے…… اے میرے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے دونوں بھائیوں کو تلاش کرو اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو…… اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے تو صرف کافر مایوس ہوتے ہیں (یوسف)…… اٹھو مسلمانو،اٹھو…… جاؤ اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کے لئے عزت کو تلاش کرو…… یوسف جیسے حسین و جمیل مستقبل کو تلاش کرو …… اٹھو! گندی زندگیاں چھوڑو اور اسلام کے رنگ میں رنگی ہوئی حسین زندگی اور یوسف جیسی حسین شہادت تلاش کرو…… اور اﷲ تعالیٰ کی ر حمت سے ہرگزمایوس نہ ہو ا ﷲ تعالیٰ کی رحمت سے تو صرف کافر مایوس ہوتے ہیں……
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ……
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا……
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ……

تحریر: مولانا محمد مسعود ازہر مدظلہ
مدثر جمال
ہماری وی

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں