بلوچستان کو تعلیمی انقلاب کی ضرورت

بلوچستان کو تعلیمی انقلاب کی ضرورت

اب اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ترقی کی کوئی معراج علم کے زینے طے کیے بنا ممکن نہیں۔ صرف خود کشی پہ مائل معاشرہ ہی اس کی راہ میں روڑے اٹکائے گا، جسے اپنے ہی آشیاں کی شاخ کو خود کاٹنے کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ علم دراصل انسان کی اُس قوتِ تمیزکو بیدارکرتا ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممیز کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سامراجی قوتیں ہمیشہ اسی پہ کاری وار کرتی ہیں۔ حملوں اور یورشوں میں لائبریریوں کا جلایا جانا، تعلیمی اداروں کو زمیں بوس کرنا، علمی و فکری شخصیات کو چن چن کو قتل کرنا ابھی ماضی قریب کے واقعات ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے یورش زدوں خطوں میں یورش کرنیوالی قوتوں کا پہلا نشانہ آج بھی یہی ادارے اور افراد ہوتے ہیں جہاں سے علم کی روشنی پھوٹتی ہے۔اس ضمن میں سامنے آنیوالے چند اعدادو شمار آنکھیں پھاڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔
بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنیوالے عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن کی جانب سے رواں برس جولائی میںجاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شورش زدہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً پانچ کروڑ بچے حصولِ تعلیم سے محروم ہیں۔تنظیم نے جنوبی ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم تک محدود رسائی پر تشویش کا اظہار کیا ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یونیسکو کی تحقیق کے مطابق شورش زدہ علاقوں کے تقریباً چار کروڑ پچاسی لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔
جب کہ حال ہی میں ڈان ڈاٹ کام پہ شایع ہونے والے فیصل باری کے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد پچیس ملین تک چلی گئی ہے۔اس حوالے سے پشاور میں گزشتہ بارہ سال سے ٹیچنگ کے شعبے سے منسلک صحافی اور تحقیق کار شیر عالم شنواری نے بی بی سی کے نمایندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں زیادہ تر حملے لڑکیوں کے اسکولوں پر کیے گئے جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں لڑکیوں کی شرح تعلیم صفر تک پہنچ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق کے مطابق خیبر ایجنسی میں لڑکیوں کی شرح تعلیم صفر فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ لڑکوں کی تین فیصد تک بتائی جاتی ہے۔بعض رپورٹوں کے مطابق خیبر پختونخوا میں پانچ برسوں میں پانچ سو سے زائد اسکول تباہ ہوئے، جن میں5 7فیصد بچیوں کے اسکول شامل ہیں۔
پاکستان کا شورش زدہ ایک اور خطہ بلوچستان بھی ہے۔ گو کہ یہاں شورش کے اسباب مختلف ہیں لیکن اس کے نتائج کچھ اتنے مختلف نہیں۔ یہاں اب تک تعلیمی اداروں پہ تو نہیں البتہ افراد پہ ضرور حملے ہوئے ہیں جس کا اثر ظاہر ہے کہ اداروں پہ بھی پڑتا ہے۔ ذرایع کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایک درجن سے زائد اساتذہ کوئٹہ سمیت اندرونِ بلوچستان میں قتل کیے گئے ہیں۔ جب کہ اس سے دگنی تعداد میں حالات کی ابتری کے باعث اندرونِ بلوچستان سے کوئٹہ منتقل ہوئے ہیں، جب کہ ایک کثیر تعداد صوبہ بدر ہونے والوں کی بھی ہے۔ قطع نظر ان حالات کے ، بلوچستان میں بنیادی تعلیم سے متعلق اعداد و شمار ہی کسی طور حوصلہ افزا نہیں۔
بلوچستان میں تعلیم کی صورت حال پر مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں چھ سے سولہ سال کی عمر کے چونتیس اعشاریہ ایک فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ حال ہی میں یونیسیف نے اپنی ایک سروے رپورٹ میں بتایا ہے کہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد اور نصیرآباد میں مجموعی طور پر2لاکھ46ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ جب کہ بلوچستان میں مجموعی طور پر 22لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جن میں اکثریت بچیوں کی ہے۔
2005میں بلوچستان کے سیاسی و معاشی معاملات کے حل کے لیے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی 47فیصد اور بلوچستان میں 26.6فیصد ہے جب کہ بچیوں میں یہ شرح پاکستان میں 33فیصد اور بلوچستان میں صرف15فیصد ہے۔ پرائمری اسکولوں میں حاضری کی شرح پاکستان میں مجموعی طور پر 68.3 فیصد ہے اور بلوچستان میں49فیصد ہے۔ بچیوں میں یہ شرح ملکی سطح پر 49.2اور بلوچستان میں صرف 21 فیصد ہے۔واضح رہے کہ یہ سرکاری اداروں سے لیے گئے اعداد و شمار ہیں، جو کسی طور قابلِ اعتبار نہیں۔
یہ صورتحال از خودبلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کاتقاضا کرتی ہے۔ گو کہ نئی صوبائی حکومت نے اس ضمن میں بلند بانگ اعلانات تو کیے ہیں لیکن اقتدار کی اندرونی غلام گردشوں کا شکار اس حکومت کااب تک اس متعلق کوئی سنجیدہ عملی اقدام نظر نہیں آتا۔واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 25اے کے تحت 5سے 16 سال تک کی عمرکے بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعدیہ معاملہ اب صوبائی حکومتوں کے حوالے ہے۔
بلوچستان حکومت نے اس حوالے سے معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے بلوچستان میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا اعلان کیا ہے۔ نیز رواں سال کے بجٹ میں بھی اس حوالے سے خاصی رقوم مختص کی گئی ہیں۔ ترقیاتی وغیرترقیاتی اخراجات کی مد میں آنیوالے مالی سال 2013-14 میں محکمہ تعلیم کے لیے 34898.635ملین روپے مختص کیے گئے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 42فیصد زیادہ ہے۔
نئی حکومت کے اعلانات میں صوبے میں تین نئے میڈیکل کالجز،بلوچستان میڈیکل کالج اورزرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا،خضدار میں بلوچستان یونیورسٹی کے کیمپس کا قیام، تین سو نئے پرائمری اسکولوں کا قیام،تین سو پرائمری اسکولوں کو مڈل اور ڈیڑھ سو مڈل اسکولوں کو ہائی اسکول کا درجہ دینے کے علاوہ اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے، ہائی اسکولوں میں امتحان ہال، لیبارٹریز اور لائبریریوں کے قیام کے لیے پچاس کروڑ روپے،نیز کالجز کے لیے بھی پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ بلوچستان کے منتخب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی جانب سے پیش کی گئی اس بجٹ تقریر میں ایک نقطہ یہ بھی تھا کہ جس میں کہاگیا کہ ہر ضلعی و تحصیل ہیڈ کوارٹر میں بوائز اور گرلز ماڈل اسکولوں کی تعمیر کو یقینی بنایاجائے گا جہاں طلبا و طالبات کے لیے بورڈنگ کا خاص انتظام کیا جائے گاجہاں دُور دراز سے آنے والے طلبہ کو رہائش کی سہولیات دی جائیںگی ۔ بورڈنگ میں رہائش پذیر طلبا و طالبات کو اسکالر شپ دینے کا بھی بندوبست کیاجائے گا۔
یہ ساری باتیں اعلانات کی حد تک تو انتہائی خوب صورت ہیں، اصل معاملہ عمل درآمد کا ہے۔ یوں توصوبائی حکومت نے مادری زبانوں میں تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سلسلے میں نصاب سازی پہ بھی کام شروع کر رکھا ہے۔ لیکن یہ ساری سرگرمیاں اب تک بے ہنگم طور پر جاری ہیں۔ جب کہ بلوچستان کوہنگامی لیکن مربوط تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے۔
ماضی میں بلوچستان کے وزیر تعلیم رہنے والے ،موجوہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ سے اس بابت امیدیں وابستہ کرنا فطری بات ہے کہ وہ اس شعبے کے مسائل و معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انھیں یہ ادراک کرنا ہو گا کہ معاملہ محض سرکاری ملازمین کو ڈیوٹی کا پابند بنانے کا نہیں ، بلکہ بنیادی معاملات کو ٹھیک کرنے کا ہے۔ عمارت کی بنیاد کو ٹھیک کیے بنا محض اس کی ظاہری تزئین و آرائش سے اس کا ٹیڑھا پن درست نہیں ہو گا۔ بلوچستان کو تعلیمی میدان میںمحض اصلاح کی نہیں بلکہ ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ اب یہ اور بات کہ حکمران مزاجاََ انقلاب پسند نہیں، اصلاح پسند ہیں۔

عابد میر

“ایکسپریس”


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں