حج قیامت کا منظر پیش کرتاہے

حج قیامت کا منظر پیش کرتاہے

 خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایام حج کی آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حج کے بعض مناسک اور اعمال کی حکمتوں کے بیان کے بعد ’حج کو قیامت کا ایک منظر‘ قرار دیا۔

ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے اپنے تیرہ ستمبر کے خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیات: «إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ*فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ» [آل عمران: 96-97]، (یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا وہ (مکان) ہے جو کہ مکہ میں ہے جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے اور جہان بھر کے لوگوں کا رہنما ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں منجملہ ان کے ایک مقامِ ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوجاوے وہ امن والا ہوجاتا ہے اور الله کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے (یعنی اس شخص کے ذمّہ) جوکہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو تو الله تعالیٰ تمام جہان والوں سے غنی ہیں۔ )کی تلاوت سے کیا۔

انہوں نے کہا: اسلام کے اہم ارکان میں ایک حج ہی ہے جو مخصوص فوائد و خصوصیات کی حامل ہے۔ اسلام کے تمام احکام و عبادات میں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ حج کے مناسک پر نظر ڈالنے سے بندوں کا اپنے رب سے عشق ومحبت کا اندازہ ہوتاہے جو حیرانی جیسی حالت میں طواف کرتے ہوئے اور عرفات میں وقوف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ منظر قیامت اور روزِمحشر کی تصویر پیش کررہاہے۔ حج میں انسان کیلیے ہدایت کا سامان موجود ہے۔ اسی سے انسان کی زندگی میں بڑی مثبت تبدیلیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اگر انسان علم کے ساتھ حج کی عبادت بجا لائے تو اسے بڑا فائدہ حاصل ہوگا؛ لیکن حج کے مبارک اثرات و فیوضات سے بہرہ مند ہونے کیلیے احکام ومسائل کا جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ مناسک حج اور اس کے فلسفے پر بھی غور وخوض کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں حج سے دہرا نفع اور فیض حاصل ہوگا۔ یہ جان لینا چاہیے کہ حج کا پیغام کیاہے اور حج ہم سے کیا چاہتاہے؟ اسلام کے تمام احکام حکمتوں اور فوائد سے مالامال ہیں اور ان میں انسان کیلیے ہدایت، اصلاح اور تزکیہ موجود ہے؛ انہی احکام کی بدولت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تزکیہ و کامیابی حاصل کی۔

حج عشق ومحبت کا ایک حسین منظر ہے؛ جس طرح ایک عاشق اپنے معشوق کیلیے پریشان و مضطرب رہتاہے، حاجی بھی مختلف قسم کی سختیاں جھیل کر اپنے محبوب حقیقی کیلیے مضطرب رہتاہے۔ میدان حج میں تمام حاجیوں کا کپڑا احرام کا ہوتاہے جو انتہائی سادہ لباس ہے۔ حجاج چاہے صدور وشاہ ہوں یا غریب ونادار لوگ سب ایک ہی لائن میں ”لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک“ کی ندا بلند کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ صفا ومروہ کے درمیان دوڑ کر حجاج دکھاتے ہیں کہ انہیں دنیا اور اس کی آسائشوں سے کوئی غرض نہیں، انہیں اللہ ہی کی رضامندی چاہیے۔

ممتاز سنی عالم دین نے حج کو ’بندگی کی نشان‘ قرار دیتے ہوئے مزید گویاہوئے: حج جس طرح عشق و محبت کی تصویرکشی کرتاہے اللہ رب العزت سے اطاعت و فرمانبرداری کا منظر بھی پیش کرتاہے۔ ہر حال میں بندہ اطاعت شعار ہوتاہے، چاہے کسی عبادت اور حکم کی حکمت اس کے سمجھ میں آئے یا نہ آئے، جیسا کہ رمی جمرات، بالوں کو کاٹنا اور صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا۔ دین ہے اطاعت و اور سر جھکانے کا نام۔

مناسک حج کی بعض حکمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر ہم قدرے غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کنکریاں مارکرحجاج تکبر اور عناد کی علامت شیطان کو مارتے ہیں۔ صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنے سے حضرت ہاجرہ کی اداو ¿ں کی نقل اتاری جاتی ہے محض اطاعت کی خاطر۔ مناسک حج اچھی طرح بجا لاکر حاجی کا انعام جنت ہی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیاہے۔

حجاج کرام کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: مسجدالحرام، مسجدالنبی، کعبہ، صفا ومروہ، منا، مزدلفہ اور عرفات سب اللہ کے شعائر ہیں، ان کا احترام بہت ضروری ہے۔ ان مقدس مقامات کا تقدس پامال نہیں ہونا چاہیے۔ ان مقامات میں گناہ سے ازحد اجتناب کرنا چاہیے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دیگر جگہوں میں ایک گناہ کا ارتکاب ستر مرتبہ کیاجائے اور حرم میں اسی گناہ کا ارتکاب ایک بار تو حرم میں سرزد ہونے والے گناہ زیادہ سنگین ہوگا۔

اپنے خطاب کے پہلے حصے کے آخر میں خطیب اہل سنت نے حجاج کرام کو ’اخلاص‘ اور ’ریاکاری سے اجتناب‘ کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: امسال حج کی سعادت حاصل کرنے والوں سے درخواست ہے عالم اسلام کے حساس حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی کامیابی اور دنیا کے حالات میں بہتری کیلیے دعا کریں۔

حکام مسالک وقومیتوں پرتہمت لگانے والوں کو لگام لگادیں
بیان کے دوسرے حصے میں ایرانی اہل سنت کے ممتاز رہ نما نے بلوچ خواتین پر الزام تراشی کے حالیہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایسے لوگ جو دوسروں پر کسی دلیل کے بغیر تہمت باندھتے ہیں دیانت دار نہیں ہوسکتے اور عدلیہ کو قانونی طریقوں سے ایسے لوگوں کی راہ روکنی چاہیے۔

ایران کے جنوب مشرقی شہر زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے ایران میں واقع ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا: اس انتخابات میں عوام نے مثبت تبدیلی کی جانب چلنے کا مطالبہ ظاہرکیا۔ لوگوں نے واضح کردیا کہ ملکی حالات میں تبدیلی لانی چاہیے؛ دباو ¿، امتیازی رویوں اور جھوٹ والزام تراشی کا سلسلہ بند ہوناچاہیے۔ ماضی میں فضا انتہائی ناخوشگوار تھی۔ مرشداعلی نے کئی مرتبہ دروغ گوئی اورسیاسی ومسلکی مخالفین کے کردارکشی کا سلسلہ ختم کرنے کی اپیل کی تھی مگر ان کی باتیں کارگر ثابت نہ ہوئیں، یہاں تک کہ باہر کے لوگوں نے کہا یہ لوگ اپنے ہی لیڈر کی بات پرکان دھرنے سے گریز کرتے ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے خطبہ جمعہ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا: سابق صدر کے دورحکومت میں مختلف طبقوں کے لوگ ناراض تھے؛ چنانچہ عوام کی اکثریت نے اپنا ووٹ ایسے شخص کے نام ڈالا جو تبدیلی کے عزم کااظہار کررہے تھے۔ عوام نے ڈاکٹر روحانی کے نعروں کوامتیازی سلوک اور ناانصافیوں کے خاتمے کے حوالے سے سراہا اور اس مرتبہ انہیں امید کی ایک کرن نظر آئی۔

ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: عوام نے اپنا ووٹ کاسٹ کرکے دراصل ایک واضح پیغام انتہاپسندوں کے نام دیاہے۔ لوگ حکومتی ذرائع سے وابستہ انتہاپسندوں سے تنگ آچکے ہیں، لیکن یوں معلوم ہوتاہے بعض ذرائع ابلاغ اورشخصیات نے عوام کا پیغام سنجیدگی سے نہیں لیاہے۔ یہ ذرائع الزام تراشی اور دروغ گوئی سے بازنہیں آتے، حالانکہ انہی لوگوں نے یہ دھندا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کسی حقیقی یا قانونی فرد کی توہین کرنا اور الزام لگانا قانون اوردیانت کے خلاف ہے، ایسے عناصر دینداری سے دور ہیں۔ اگر ان لوگوں کے مقدر میں ہدایت ہے تو اللہ تعالی انہیں ہدایت دے ورنہ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

انہوں نے مزیدکہا: عدلیہ وسکیورٹی کے حکام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسالک وقومیتوں پر تہمت باندھنے والوں اور الزام تراشی کرنے والوں کو لگام لگادیں۔ ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ فسادی لوگوں کی جڑ کہاں لگی ہوئی ہے۔ یہ انتہائی نامناسب ہے کہ جب کوئی قوم ملکی اتحاد ووفاق کی خاطر شرافت سے خاموشی اختیار کرتی ہے تو بعض عناصر جب چاہتے ہیں تو بلاخوف الزام تراشی اور کردارکشی کی حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سب کو قوم کا پیغام لینا چاہیے اور نئے حالات سے خود کو مطابقت دینا چاہیے۔

مولانا نے مزیدکہا: جو لوگ فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں اور اختلافات پیدا کرتے ہیں، مرشداعلی کے فتوے کے مطابق ان کا تعلق نہ شیعہ برادری سے نہ ہی اہل سنت سے۔ بعض لوگ جو شاہ سے زیادہ وفادار کی مانند ہیں اور خود کو رہبر وحکومت سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں، حکومت کے ہرگز خیرخواہ نہیں ہیں۔ جو لوگ کردارکشی اور بہتان تراشی کرتے ہیں ان کی حرکتوں سے ملک کو فائدہ نہیں نقصان ہی پہنچتاہے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں تاکید کرتے ہوئے کہا: میں اپنے تمام سنی بھائیوں سے چاہے ملک کے اندر ہوں یا باہر درخواست کرتاہوں ہر حال میں اتحاد وامن کا خیال رکھیں۔ نئی حکومت قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلیے آئی ہے، اسے موقع دینا چاہیے۔ کوئی بھی شخص قانون سے ماورا نہیں ہوسکتا۔ تمام اداروں کو قانون ہی نے قانونی اور مشروع قرار دیاہے، لہذا وہ بھی قانون سے بڑھ کرکوئی اقدام نہ کریں۔ ہم بھی قانون کے دائرے میں رہ کر حکام کی بات مانتے ہیں، غیرآئینی احکامات کے پابند نہیں ہوسکتے۔ بدامنی پھیلانا اہل سنت سے غداری کے مترادف ہے۔ افہام وتفہیم اور مکالمے کی فضا سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں