مسلمانوں میں فکرِآخرت کمزور پڑچکی ہے

مسلمانوں میں فکرِآخرت کمزور پڑچکی ہے

 

 

 

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے موت اور قیامت کی اٹل حقیقتوں کے حوالے سے مسلمانوں کی غفلت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سب کو شریعت پر عمل اور آخرت کی تیاری کی نصیحت کی۔

 

اپنے چھ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے قرآنی آیات: «وَلاَ تَشْتَرُواْ بِعَهْدِ اللّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِندَ اللّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ* مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ» [نحل:95-96]، (اور خدا سے جو تم نے عہد کیا ہے (اس کو مت بیچو اور) اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو۔ (کیونکہ ایفائے عہد کا) جو صلہ خدا کے ہاں مقرر ہے وہ اگر سمجھو تو تمہارے لیے بہتر ہے. جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے کہ (کبھی ختم نہیں ہوگا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم اُن کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے) کی تلاوت سے اپنے پرجوش خطاب کا آغاز کیا۔

انہوں نے کہا: آج کل موت کثرت سے واقع ہوتی ہے اور چونکہ لوگ آخرت کے مسافروں کو کثرت سے دیکھتے ہیں تو موت اور قبرستان ان کے لیے عام سی باتیں بن چکی ہیں۔ حالانکہ ماضی میں کسی کی موت انتہائی چونکا دینے والا اور سبق آموز واقعہ تصور کیا جاتا تھا۔ ماضی میں اگر کسی کا انتقال ہوجاتا تو سب اس کے حق میں دعائے خیر کرتے اور پس ماندگان کو صبر کی تلقین کرتے تھے، لیکن اب یہ سوچ ختم ہونے والی ہے۔ ہم میں بہت سارے ایسے بھی ہیں جن کیلیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ قبرستان میں ہیں یا اپنے گھر میں، کسی کی قبر کے پاس کھڑے ہیں یا بازاروں میں؛ ہرجگہ غفلت غالب ہے اور قہقہہ لگایا جاتاہے۔ اپنی دلچسپی اور کاروبار کی باتیں کی جاتی ہیں، حالانکہ ایسے مواقع پر اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور کسی کی موت سے اپنی موت یاد رکھنی چاہیے۔ ہم کیوں بھول چکے ہیں کہ کسی دن ہمیں بھی کفن میں لپیٹ کر قبر میں اتاردیا جائے گا؟

ایرانی شہر زاہدان کے سنی مسلمانوں سے خطاب جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: آج کل معاشرے پر جو غفلت وسستی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، اس کی اصل وجہ اپنی ذمہ داریوں میں سستی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ لوگ اپنی ذمہ داریوں سے ناواقف ہیں اور شریعت کے احکام نافذ کرنے سے منہ موڑتے ہیں۔ غفلت اسی کو کہتے ہیں کہ روز ہم اپنے اعزہ واقارب کے جنازوں کو کندھا دیکر قبرستان پہنچادیں، اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں سپردِخاک کریں مگر ہمارے دلوں پر کوئی اثر نہ آئے اور ہمارے آنسو نہ بہہ جائیں۔

’مواقع محدود اور ناپائیدار ہیں، جب تک ہم ٹھیک اور تندرست ہیں تو اللہ ہی کی عبادت کیا کریں اور اسی ذات پاک کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کسی کو کیا معلوم کہ کب تک وہ زندہ و سلامت رہے گا اور اس کے کتنے دن باقی رہ چکے ہیں؟ اگر ان مواقع سے ہم نے فائدہ نہ اٹھایا تو ابدی زندگی میں حسرت وندامت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے ابتدا میں تلاوت کی گئی آیات قرآنیہ کی روشنی میں کہا: اللہ رب العزت نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں اور ہرگز عہدشکنی نہ کریں۔ چونکہ دنیوی مفادات کی وجہ سے بعض لوگ شاید اپنے عہد توڑ دیں تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا جو کچھ آپ کے پاس ہے سب فانی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے لایزال اور نہ ختم ہونے والا ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: سب سے بڑا سرمایہ یہی ہے کہ بندہ تمام سہولتوں سے استفادہ کرکے اپنی آخرت کیلیے کوئی توشہ تیار کرے۔ ہمیں اپنی زندگی کے تمام لمحات، دن اور رات اللہ کی عبادت میں گزارنی چاہیے۔ ہمیشہ موت کو مدنظر رکھیں اور اللہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ قائم کرکے اپنی آخرت سنواریں۔

’نیک اولاد کی تربیت‘ کو آخرت کے ذخیروں میں شمار کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: آج کل والدین اپنے بچوں کی دنیوی زندگی کیلیے بہت منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انہیں مستقل اور مہذب بنانے کیلیے کمرتوڑ کوششیں کرتے ہیں لیکن ان کی آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی سے غافل ہیں۔ لہذا بچوں کی تربیت و اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور انہیں اللہ کی سزا سے بچانے کیلیے بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

گفتگو کا نتیجہ نکالتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالی کی بندگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وپیروی کو اپنا مشن بنایاتھا، چنانچہ اللہ تعالی نے اسی دنیا میں ان پاک ہستیوں سے اپنی رضامندی کا اعلان فرمایا۔ ہمیں بھی قرآن وسنت کی اتباع کو زندگی کا مقصد بنالینا چاہیے۔ جو لوگ شریعت پر عمل نہیں کرتے درحقیقت صبر سے کام نہیں لیتے، حالانکہ دنیا کی تبدیلیاں اس کے فنا ہونے کی واضح دلائل ہیں۔ ہم سب کو زندگی کے مواقع سے اپنی آخرت آباد کرنے کیلیے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مصری فوج اغیار کا غلام ہے
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں مسلم ممالک خاص کر مشرق وسطی میں جاری تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتا ہے بعض مسلم ممالک کے حکام دشمنوں کے غلام بن چکے ہیں اور دوسروں سے مبارک باد کے پیغامات لیکر خوش ہوتے ہیں اور پھر ان کے مفادات کے مطابق آگے چلتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: انتہائی افسوسناک بات ہے کہ مصر میں انقلاب اور عوام کی بے انتہا قربانیوں کے بعد فوج نے بغاوت کرکے عوام اور ان کے انقلاب پر قبضہ جمایاہے۔ مصری جرنیل جو اغیار اور سامراجی طاقتوں کے دلدادہ ہیں اب اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں۔

بیان کے آخر میں انہوں نے کہا: انتہائی افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ابھی تک بعض مسلم ممالک میں آمریت کا راج ہے اور آمروجابر حکام صہیونی اور سامراجی طاقتوں کے اشارے پر ناچتے ہیں اور اپنے ممالک اور عوام کے مفادات کو چھوڑ کر دشمن کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالی حق کے ساتھ ہے اور باطل کا مقدر شکست ہی ہے۔ باطل کو اللہ تعالی مغلوب فرمائے گا۔ امیدہے مسلم امہ اپنی قربانیوں اور بیداری کے نتائج سے فائدہ مند ہو اور جلداز جلدآمر اور کٹھ پتلی حکام کے نرغے سے آزادی حاصل کرلے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں