نیک اعمال کو وسیلہ بناکر اللہ کی رضامندی حاصل کریں

نیک اعمال کو وسیلہ بناکر اللہ کی رضامندی حاصل کریں

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیدنے تقویٰ وپرہیزگاری اور احکامِ شریعت پر عمل کرنے کوضروری قرار دیتے ہوئے ’نیک اعمال کے توسل‘ سے اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے پر زور دیا۔

 

تیس اگست کے خطبہ جمعے میں’تقویٰ‘، ’اعمال صالحہ سے توسل‘، اور ’مجاہدہ‘ کو انسان کی فلاح وکامیابی کا راز قرار دیتے ہوئے مولانا نے شریعت پر عمل کرنے اور گناہوں سے اجتناب پر تاکیدکی۔ انہوں نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ» [المائدة:35]، (اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ)کی تلاوت سے کیا۔

حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں تین اہم اور بنیادی نکات کا تذکرہ فرمایاہے جو انسان کی کامیابی کیلیے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پہلی بات تقویٰ اور پرہیزکاری ہے جس کی بدولت انسان فلاح وکامیابی کے بوستان میں قدم رکھ سکتاہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے دوری کرکے اللہ کے بندوں کے حقوق کاخیال رکھنا؛ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ کوئی شخص معاصی وگناہوں کا ارتکاب کرے، حقوق الناس پامال کرے اور کامیابی کی امید بھی رکھے۔ اگرہمیں فلاح وکامیابی کی تلاش ہے تو مکمل طور پر گناہوں سے پرہیز کریں اور حقوق اللہ وحقوق العباد کا خیال رکھے۔

دوسرے نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: دوسرا مسئلہ جو ہماری کامیابی کا دارومدار اس پر ہے ’توسل‘ ہے۔ تمام مفسرین ومحققین اس بات پر متفق ہیں کہ وسیلہ سے مراد اس آیت مبارکہ میں ’نیک اعمال‘ ہیں، جیساکہ نماز، روزہ، حج، زکات، تلاوت قرآن و دیگر عبادات۔ لہذا ہمیں ایسے کاموں کا اہتمام کرنا چاہیے جن سے اللہ کی رضامندی وخشنودی نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالی کی رحمتیں ہم پر نازل ہوتی ہیں۔ فرائض کی ادائیگی، نادار ومحتاج لوگوں کی دستگیری ودیگر رفاہی خدمات بھی نیک اعمال کے وسیع دائرے میں آتی ہیں۔

دارالعلوم زاہدان کے مہتمم نے مزیدکہا: مذکورہ بالا آیت میں تیسرا نکتہ جو انسان کی رستگاری کیلیے ضروری قراردیاگیاہے جہاد اور مجاہدہ ہے۔ اللہ کی راہ میں محنت وجہاد کرکے بندہ کامیابی پاسکتاہے۔ جب دین اسلام اور مسلمانوں کے علاقے دشمن کے نرغے میں آجائیں اور دشمن یلغار کرے تو جہاد ہی کے ذریعے ان کا سدباب ممکن ہے؛ مغرور ومتکبر لوگ جو صرف ظلم وجبر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ہیں طاقت ہی کے ذریعے مذاکرات ومصالحہ کے میز پر آسکتے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: البتہ اسلام صلح اور امن وامان کا دین ہے اور مکالمے پر یقین رکھتاہے؛ طاقت کا استعمال صرف ان لوگوں کے خلاف کرتاہے جو ظلم وجبر اور قبضہ گیری سے باز نہیں آتے۔ مجاہدہ کا مطلب بھی محنت وکوشش ہے۔ جب بندہ تلاوت کرتاہے یا نماز ادا کرتاہے تو شیطان اسے وسوسے کاشکار کرنا چاہتاہے لیکن جب بندہ محنت کرکے توجہ کے ساتھ عبادت جاری رکھتاہے تو یہ اس کا مجاہدہ ہے۔

نئی حکومت پبلک سروسزمیں امتیازی سلوک کاخاتمہ کرے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے نئی حکومت پر زوردیا کہ انصاف سب کیلیے فراہم کرکے پبلک سروسز اور ملازمتوں کی تقسیم میں قومیتوں اور مسلکی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے ایران میں ’ہفتہ حکومت‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ہفتہ حکومتوں اور حکام کیلیے موقع ہے کہ اپنی کارکردگیوں پرنظرثانی کریں، محض خدمات کو پیش مت کریں بلکہ ساتھ ساتھ کوتاہیوں کو بھی نشاندہی کریں تاکہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرسکیں۔ ایسے مواقع پر تنقید کرنا اگر اخلاص کے ساتھ ہومفید وکارگر ہوگی، چونکہ تنقید برائے اصلاح انتہائی مفید ہے۔

انہوں نے کہا: ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں گزشتہ حکومتیں بلاامتیاز مسلک وقومیت خدمات فراہم کیاکرتی تھیں؛ اس حوالے سے کوئی خاص شکایت نہیں، بعض واقعات بتائے جاتے ہیں مگر وہ کسی پالیسی کے تحت نہیں تھے۔ لہذا ان کا تذکرہ ضروری نہیں ہے۔

خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: جس میدان میں بہت سستی دکھائی گئی وہ معاشرتی وشہری حقوق کے حوالے سے انصاف کی فراہمی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اب تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے قومیتوں اور اہل سنت والجماعت جیسے مسالک کے حقوق پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی ہے۔ ملازمتوں کی تقسیم میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاکیاگیاہے۔ بڑے مناصب سے انہیں دور رکھاجارہاہے۔ حالانکہ مساوات وبرابری انقلاب کے مقاصدمیں سے ہیں اور اس مقصد کو جامہ عمل پہناناچاہیے۔

انہوں نے امیدظاہرکی نئی حکومت ایران میں لائق افراد کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ بند کرکے لسانی ومسلکی اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دے۔ مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: ملازمتوں اور سرکاری عہدوں کی تقسیم میں برابری وانصاف کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے، کسی اقلیت کی آواز شکایت کیلیے نہیں نکلنی چاہیے۔ لوگوں کے مسلک وزبان کو مدنظر رکھنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں اور قابلیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ انصاف کی فراہمی سے ملک کی سکیورٹی مضبوط ہوگی اور اتحادویکجہتی کو فروغ ملے گا۔

زاہدانی اہل سنت کی عیدگاہ کا مسئلہ جلد حل ہونا چاہیے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخرمیں زاہدانی سنی شہریوں کی نئی عیدگاہ کے مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں توقع تھی عیدالفطر کی نماز نئی عیدگاہ میں قائم کریں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امیدہے حکام فراخدلی کامظاہرہ کرکے اہل سنت کو وہی زمین الاٹ کردیں جو ان کا مطالبہ ہے۔ ان شاء اللہ جلدازجلد یہ زمین ہمارے حوالے ہوجائے تاکہ عیدالاضحی کی نماز نئی عیدگاہ میں قائم کرنے کے مقدمات فراہم ہوں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں