رعمسیس اسکوائر

رعمسیس اسکوائر

 

 

 

بس اب یہ مان لیا جائے کہ مصر میں ”حقیقی ہولوکاسٹ“ کا آغاز ہوچکا ہے ،”تسّلُطی جمہوریت“ کے خونیں باب تحریر کرنے والے ”تجربہ کار لکھاری “یہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ اسلام یا اسلام پسند جماعت اُن ہی کے تخلیق کردہ نظام میں ”طاقت“حاصل کرلے …

اُن کے ڈیزائن کے مطابق تو اسلامی ممالک میں وہیں تک جمہوریت ”قابلِ قبول“ ہے جب تک کہ اُسے اسلام یا اسلامی سوچ رکھنے والوں سے کوئی ”خطرہ“ نہ ہو،اور جیسے ہی اُن کے سونگھنے کی ”بین الاقوامی حِس“ اُنہیں اِس آفت کا احساس دلادیتی ہے کہ فلاں اسلامی ملک میں ”جمہوری حکومت “ یا ”پسندیدہ حاکم“ نے ضرورت سے زیادہ قوت حاصل کرلی ہے وہاں یکایک ”لبرل معصوموں“ کے مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں،اقلیتوں کے حقوق کی اچانک پامالی کے واقعات برساتی کیڑوں کی طرح نکل کر عالمی ذرائع ابلاغ کی شمع پر قربان ہوجاتے ہیں،دنیا کے امن کو تشویش کا ایسا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے کہ سلامتی کونسل کے” آئی سی یو “میں بعض ایمرجنسی آپریشنز کی منظوری دے دی جاتی ہے …اور پھر محمد مُرسی ہو یا کوئی اور…وسیع تر ملکی،قومی،علاقائی اور جغرافیائی تناظر میں اُسے منظر سے ہٹانا ہی اولین مقصد قرار پاتا ہے…چاہے اِس کے لئے ”بھاڑے کے مظاہرین“ لانا پڑیں یا”بھاڑ سے چُنے گئے فوجی“…”امن کے پیامبروں“ کے لئے اُس وقت ”سب کچھ چلتا ہے “…لاشیں گرتی ہیں،جیتے جاگتے سانس لیتے انسان ٹینکوں تَلے روندے جاتے ہیں،بچے،بوڑھے،عورتیں سب ہی خاک و خون میں غلطاں کردیے جاتے ہیں،عزتوں کی پامالی،حرمتوں کی دہائی، بے بسوں کی چیخ و پکار،مظلوموں کی سسکیاں…کچھ سنائی دیتا ہے نہ دِکھائی…انسانی حقوق کی تنظیمیں زیرِزمین چلی جاتی ہیں،قانونِ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف زمین آسمان ایک کردینے والی انتہاپسند فیشن ایبل خواتین ”توہینِ انسانیت“ کی آہ و بکا پر اپنا منہ مسکارے میں ڈال کر نہ جانے کہاں جاچھپتی ہیں…سوات میں ”جعلی کوڑا ویڈیو“ پر بلاگس کے بلاگس لکھنے اور سوشل میڈیا کو ”مہذب غلاظت“ سے ”خوشبودار“ کرنے والے ”خدائی فوجدار“ ایسے دَم سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ گویا جنرل سیسی اِن کے داداحضور کے والدِ محترم ہوں…میڈیا ”سکندر“ کے فِراق میں ایسے مبتلا ہے کہ جیسے وہی تو مقدر کا سکندر ہے …بھائی زمرد خان کی ”بہادری“ پر ”احمقانہ تبصروں“ کا ایک بازار گرم ہے ،ہر کس و ناکس اِس بہتی رائے میں اظہار کے ہاتھ دھونے کے لئے تڑپا جارہا ہے مگر مجال ہے جو پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی توجہ نہتے فرزندانِ توحید کی نسل کشی پر مبذول ہو…ظاہر ہے معزول پر کون مبذول ہوگا؟…وہ محمد مُرسی ہے اور شہید ہونے والے مسلمان!…افسوس کہ وہ ”اقلیت“ نہیں،کاش کہ اُنہیں بھی اُن کی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کی اجازت نہ دی جاتی،یقیناً دنیا چِلّاتی اگر وہ مسلمان نہ ہوتے پھر سب دیکھتے کہ ”شیکسپیئرانہ انگریزی“ لکھنے والے اخبارات کس طرح اپنے صفحات اُن کے غم میں سیاہ کرتے ،بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے ایسے رونے روئے جاتے کہ اقوام متحدہ سوگ میں ڈوب جاتا…”بان کی “ کو سب کی ”جان کی“ پڑ جاتی ،مسلسل اجلاس ہوتے،کئی کفر توڑتے،بہت سارے سر جوڑتے اور مصر میں نیٹو کے دستے بھیجنے کی آناً فاناً منظوری دے دی جاتی…بس کیا کیجیے کہ ایک ہی رکاوٹ آڑے آگئی کہ ”ہولوکاسٹ“ کا شکار یہودی نہیں،جن کا قتلِ عام ہورہاہے وہ مسیحی نہیں بلکہ بے سرو سامان مسلمان ہیں…وہی مسلمان جو مغرب کے تراشیدہ طریقے یعنی”پرامن مظاہرے“ کے ذریعے اپنا حق مانگ رہے ہیں،امن کے محافظوں سے عرض گزار ہیں کہ ہمیں بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق دے دو،ہمیں اپنا مُرسی چاہئے،اہلِ مغرب کی مَرضی نہیں،قاہرہ کی گلیوں میں بکھرے انسانی لاشے آپ کی ”رحم دلی“ کو آواز دے رہے ہیں،کہاں گئی آپ کی تہذیب؟ آپ تو ایک کتے کے زخمی ہونے پر بلبلا اُٹھتے ہیں یہاں تو سیکڑوں انسان موت کی نیند سلادیے گئے اور آپ کو کچھ بھی نہ ہوا…”ایڈز“ پر پَلنے والی یہ”حیومن آرگنائزیشنز“(ہیومن نہیں) کہاں غائب ہوگئیں؟کیا اِن لاشوں پر مذمت کے لئے بین الاقوامی چارٹر میں سے نکات نہیں مل پارہے ہیں؟یا پھر اِن مظلوموں کی خاطر آواز بَلند کرنا بھی ”مخصوص انسانی حقوق“ کی سنگین خلاف ورزی ہے ؟سب خاموش کیوں ہیں؟یہ سانپ سا کیوں سونگھا ہوا ہے ؟زبانوں پر سونے کے قفل کس نے لگادیے ہیں؟…ارے ہاں! میں تو بھول ہی گیا! یہ ”ہمارے ملک“ کامسئلہ نہیں، مصر کا ”اندرونی معاملہ “ ہے مگر پھر ہمارے ”اندرونی معاملوں“ پر ”بیرونی ٹٹوؤں“ کو اِتنی فکر کیوں لاحق ہوجاتی ہے ؟…سزائے موت،ہم جنس پرستی کی مذمت،قانونِ توہین رسالت،امتناعِ قادیانیت آرڈی ننس، حدود قوانین،نفاذِ شریعت… یہ تمام بھی تو ہمارے ”اندرونی معاملات“ ہیں، اگر عالمی قانون یہی ہے کہ کسی دوسرے ملک کی ”اندرونیت“ پر کسی اور ملک یا ادارے کو مذمت کا حق حاصل نہیں تو پھر یہ ”حَسین اُصول“ پاکستا ن کی سرحدوں کے پاس آکر کیوں دَم توڑدیتا ہے ؟…بہرحال میں اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن اِتنا ضرور جانتاہوں کہ انسان اور انسانیت سے سچی محبت کرنے والے بلاشبہ اِس وقت تڑپ رہے ہیں،وہ جو صرف مذہب کی بنیاد ہر انسان سے پیار نہیں کرتے اُنہیں اِس لمحے قرار نہیں ، اُن کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں ٹیسیں ہیں…اور وہ جو اِس نسل کشی کے نظارے سے لطف اندوز ہوکر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اُنہوں نے بالآخر اسلام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے وہ بہت جلد یہ جان لیں گے کہ وہ غلط تھے…مغرب کی یہ حکمتِ عملی کہ مسلم ممالک کے خلاف جنگ کو ”خانہ جنگی“ میں تبدیل کردیا جائے ، خود مسلمانوں پر واضح ہوچکی ہے …”شاہوں“ کے تاج اُچھالے جانے کا وقت بھی اب قریب آن پہنچا ہے ، ہاں شیطان اپنی ترکیبوں کو ترتیب دینے میں مصروف ہیں مگر بے شک اللہ کی تدبیرغالب ہوکر رہے گی…کتنے شہید ہوئے؟ اور کتنے شہید ہوں گے ؟…فراعین کے دیس میں یہ سوال ہزاروں برس پہلے کیاگیا تھا اور نہ اب کیا جائے گاکیونکہ اِس بار رعمسیس اسکوائر کے اردگرد بکھری ہوئی لاشیں صرف نومولود بچوں کی نہیں…اُس رعمسیس نے موسی علیہ السلام سے بچنے کیلئے لاتعداد بچے قتل کروادئیے تھے اور اِس رعمسیس اسکوائر پر بچے،بوڑھے،عورتیں،جوان سب ہی کَٹے پڑے ہیں…ابھی تو نسل کشی کی ابتدا ہے ،گنتی صرف ہزار تک پہنچی ہے …لیکن کل شاید یہ ہزاروں تک جاپہنچے، پہلی رات صرف 11بچے قتل کئے گئے تھے لیکن اگلی7راتوں تک 1400بچے ماؤں کی گود سے چھین کر تلواروں کی آغوش میں سلادئیے گئے تھے…اِس کے باوجود…موسیٰ نے آنا تھا، موسیٰ آگئے تھے…اُس وقت رعمسیس کے خوف سے سہمے ہوئے اسرائیلی اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے تھے مگر آج موسیٰ اور محمد (علیہم الصلوٰة والسلام)کے ہمت دلائے ہوئے مسلمان رعمسیس اسکوائر کے سامنے مصر کے نئے رعمسیس کوللکار رہے ہیں کہ ”جرأت ہے تو آؤ اور ہماری ہمت کو فتح کرلو…لے آؤ اپنے مددگار ”سامری“ اور رئیس زمانہ ”قارون“ کو ،جتنی لاشیں گراسکتے ہو گرادو، جتنے بچے مار سکتے ہو مار دو…یہ حوصلے اُس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں جوسیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھی امام ہیں،ابراہیم علیہ السلام کی سرزمین پر اُن کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کو شکست ہوجائے یہ ممکن ہی نہیں…تم فرعونوں کے پاس دو ہی راستے ہیں،معصوموں کا لہو پیو اور چلے جاؤ، اگر چلے گئے تو انقلاب مکمل ہوجائے گالیکن اگرتمہاری خونی پیاس نہ بجھی اور لہو پیتے رہے تواِسی سرزمین پر تاریخ کا ایک ایسا خونی باب رقم ہوگا جو کسی موسیٰ علیہ السلام کو تو نہیں لیکن تاحدِ نگاہ اتنے مُرسی بھیج دے گاجو تمہیں نیل تک ہنکانے کے لئے کافی ہوں گے…!!!

ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں