انصاف اور معقول مکالمہ متعدد عالمی مسائل کا حل ہے

انصاف اور معقول مکالمہ متعدد عالمی مسائل کا حل ہے

 

 

 

ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے انصاف اور عدل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے “منطق اور انصاف پر مبنی مکالمے” کو متعدد عالمی بحرانوں کا واحد علاج قرار دےدیا۔

دس مئی دوہزار تیرہ کے خطبہ جمعہ کے دوران ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت عدل و انصاف کی ہے جو صرف حکومتوں سے متعلق نہیں ہے، بلکہ معاشرے کے تمام افراد پر ضروری ہے اپنی زندگی میں انصاف نافذ کردیں۔ دنیا اور خاص کر مسلمانوں کے متعدد مسائل کا واحد حل مساوات اور منطق پر مبنی باہمی گفتگو اور مکالمہ ہے۔ تمام گروہ چاہے ان کا تعلق اعتدال پسندوں سے ہو یا سخت گیر موقف رکھنے والوں سے، باہمی گفتگو سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ دنیا کے بڑے سے بڑے بحران مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں۔
عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: نام نہاد دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے پر امریکی اور نیٹو فورسز کی افغانستان پر یلغار ناقابل معافی گناہ ہے؛ جیسا کہ اکثر مبصرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ عراق پر امریکی سرپرستی میں چڑھائی ایک سنگین غلطی تھی۔ خطے میں پائیدار امن فلسطین کی آزادی ہی سے حاصل ہوسکتاہے۔ پوری دنیا کا امن مسئلہ فلسطین سے وابستہ ہے؛ اگر فلسطینیوں کی بات سنی جاتی اور ان کا ملک مستقل ریاست تسلیم کیاجاتا تو مغربی دنیا سمیت مسلمانوں کے تمام سکیورٹی خدشات دور ہوجاتے اور ان کے مسائل حل ہوجاتے تھے۔ جب قوموں کے مطالبات کو نظرانداز کیا جاتارہا تو انہیں مشتعل کرکے خطرناک ردعمل پر مجبور کیاگیا، خودکش حملے ایسی ہی پالیسیوں کے نتائج ہیں۔ میں ایسے حملوں کیلیے جواز نہیں ڈھونڈرہا، یہ ایک حقیقت ہے جس پر ماہرین متفق ہیں۔ دنیا میں بدامنی کا علاج انصاف کی فراہمی،لوگوں کی شکایات سننے اور انہیں مطمئن کرنے میں ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ شام، عراق اور بحرین میں مخالفین کی بات سنی جائے اور مذاکرات و مکالمے سے ان کے تحفظات دور کیے جائیں۔ دنیا میں اقلیتوں کی باتوں پر توجہ دینی چاہیے اور ان کے حقوق بلا تفریق مسلک و مذہب انہیں ملنا چاہیے۔
ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اہل سنت والجماعت کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے؛ ایران کے حکام سمجھ لیں ہم اپنے ملک میں اہل تشیع کے بعد دوسری بڑی برادری ہیں جبکہ عالم اسلام میں اکثریت اہل سنت کی ہے۔ امید کی جاتی ہے ایرانی اہل سنت کے خطوط اور شکایات کو شامل تحقیق کیا جائے اور ان کے مسائل حل کرنے کی محنت کرنی چاہیے۔ ہمارے حقوق کو پامال نہ کیا جائے۔
آخر میں حضرت شیخ الاسلام نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ہم مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ہماری بات سننے کیلیے تیار ہو تو ہم گفتگو کیلیے تیار ہیں، لیکن اگر ہماری بات ٹال دی جائے تو عرش معلی تک ہم اپنی صدا پہنچائیں گے۔
صحابہ کرام کی شان میں گستاخی حرام اور گناہ کبیرہ ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں شام میں “حجر بن عدی” کے مزار کی تخریب و مسمار کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: شام میں حجر بن عدی کے مزار کو مسمار کرنے کا واقعہ المناک اور ناگوار تھا؛ آپ بعض مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
انہوں نے مزیدکہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کا چہرہ انور براہ راست دیکھا ہے اور ایمان کی حالت میں ان کا دفاع بھی کیا ہے، قیامت تک مسلمانوں کے نزدیک ان کا مقام بہت ہی اونچا ہوگا۔ صحابہ کرام کے احترام پوری امت پر واجب ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام -حیا ومیتا- واجب اور ضروری ہے اور خلفائے راشدین، ازواج مطہرات، عشرہ مبشرہ اور اہل بیت سمیت کسی بھی صحابی کی شان میں گستاخی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ لہذا ہم حجربن عدی کے مزار کی تخریب کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔

مولانا عبدالحمید نے آخر میں کہا: اگرچہ ابھی تک ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں کس گروہ نے حجربن عدی کا مزار مسمار کیا ہے لیکن بہرحال یہ کسی انتہاپسند گروہ ہی کی کارستانی ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ صہیونی ایجنٹوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کیلیے یہ اقدام اٹھایاہے اگرچہ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کو مزید متحد ہونا چاہیے۔

 

 

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں