اللہ تعالی کی آزمائشیں لوگوں کے ایمان آزمانے کیلیے ہیں

اللہ تعالی کی آزمائشیں لوگوں کے ایمان آزمانے کیلیے ہیں

خطیب اہل سنت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اسماعیل زہی نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں دنیا کو تمام لوگوں خاص کر مسلمانوں کیلیے امتحان وابتلا کا مقام قرار دیتے ہوئے کہا یہ آزمائشیں لوگوں کے ایمان کا درجہ و قوت معلوم کرنے کیلیے ہیں۔

اپنے خطبہ جمعہ (تین مئی دوہزار تیرہ) کے بیان میں انہوں نے سورت البقرہ کی آیات 155-157 «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ* الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ* أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» کی تلاوت کے بعد ان کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی خاص حکمت کے تحت انسان کی آزمائش کیلیے اس کی راہ پر متعدد چیلنجز رکھاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کو ایسی آزمائشوں کی مکمل صلاحیت و قابلیت بھی عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے امتحان سے پہلے انسان کو خبردار کیاہے اور کامیابی کے راستے اس کے سامنے رکھاہے۔ ارشادالہی ہے ہم تم کو دنیوی زندگی میں مسائل وآزمائشوں میں ڈال سکتے ہیں، لہذا خبردار رہیں کہیں ناکامی سے دوچار نہ ہوجائیں۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے انسان کو فطرت سلیمہ اور کامیابی وجنت کی راہ پر قرار دیا، لیکن جب انسان دنیا پر قدم رکھتاہے، ماحول سے متاثر ہوتاہے اور دنیا کی چمک دمک اس کی آنکھوں میں آتی ہے تو راہِ راست چھوڑدیتاہے۔ دنیوی زندگی میں انسان کی راہ پر متعدد رکاوٹیں کھڑی ہیں؛ دنیا کی حلاوتیں، مال ودولت کی محبت اور جاہ ومقام کی کشش انسان کی گمراہی کے اسباب بن سکتے ہیں۔ ایسی چیزیں انسان کو راہ راست سے منحرف کرسکتی ہیں، لہذا ہمیں ہوشیار و چوکس رہنا چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: ’نفس امارہ‘ انسان کی سعادت و کامیابی کی راہ پر ایک بڑا چیلنج اور خطرہ ہے۔ نفس انسانی بہت مکار ہے اور اس بہانے سے انسان کو بہکانے کی کوشش کرتاہے کہ اللہ بڑا رحیم و غفور ہے! دنیا کی زندگی چند دن کی ہے، مزے سے رہو اور لائف انجوائے کرو! لیکن اللہ رب العزت نے انسان کو خبردار کیاہے کہ نفس کے وسواس اور مکاریوں میں نہ آئیں اور اپنا خیال رکھیں، کامیابی کی صورت میں انسان کا مقام فرشتوں سے بھی اونچا ہوگا؛ چونکہ ملائکہ میں نفس اور خواہشات کا مادہ موجود نہیں ہے لیکن انسان اپنے نفس کا مقابلہ کرکے اخلاص و توحید کے ساتھ اپنے خالق کی عبادت کرتاہے اور کامیابی اسی صورت میں اس کے قدموں کو چھومے گی۔ جنت انسان ہی کیلیے پیدا کی گئی فرشتوں کیلیے نہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اللہ تعالی انسان کو دنیوی زندگی میں مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار کرسکتاہے، یہ سب امتحان کیلیے ہیں۔ بیماریاں، مصائب، خوف وہراس اور جانی ومالی نقصانات سب آسمانی آزمائشیں ہیں۔ اللہ تعالی ان آزمائشوں کے ذریعے انسان کے ایمان کو ٹیسٹ فرماتاہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کچھ لوگ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں، ایسے لوگ درحقیقت مقصدخلقت بھول چکے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پیدائش دنیوی مقاصد کیلیے ہے۔ ایسے لوگ جب مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تو زندگی کی امید کھوجاتے ہیں اور زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں یقین کرلینا چاہیے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ اگر پوری دنیا ہماری دشمنی پر اتر آئے پھر بھی ہم اپنی راہ نہیں چھوڑیں گے اور اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے۔ لہذا مصائب و مشکلات کی صورت میں ہمیں صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صبرواستقامت کا دامن پکڑنے والے ہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی خاص رحمتیں ہیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان میں شرعی احکام اور تمام فرائض کو اللہ کی جانب سے امتحان و آزمائش کے اسباب قرار دیتے ہوئے کہا: ابتدا میں اللہ تعالی نے ہر مسلمان پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کردیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر ان کی تعداد پانچ کردی گئی اگرچہ ثواب پچاس نمازوں کا ملے گا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ انسان اللہ کی عبادت کیلیے پیدا کردیا گیاہے۔ جب انسان فجر کے وقت نیند چھوڑ کر نماز کیلیے مسجد پہنچتاہے اور ظہر کی نماز گرمی کے باوجود ادا کرتاہے تو ایسا نمازی کامیاب ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکات سمیت تمام عبادات انسان کی آزمائش کیلیے ہیں۔

انہوں نے مزیدکہا: جب عصرنبوت میں زکات کی فرضیت کی آیات نازل ہوئیں تو یہودیوں نے کہا العیاذباللہ ’’اللہ غریب ہے اور ہم امیر!‘‘ اللہ تعالی غریب ہوچکاہے اور ہم سے چاہتاہے کہ ہم غریبوں کو کھلائیں اور پلائیں! ان کو زکات کی حقیقت اور حکمت معلوم نہ تھی کہ اس عبادت سے انسان کے وجود میں ہمدردی کا مادہ پیدا کرناہے۔ بعض اوقات کوئی بیمار اسپتال سے فارغ نہیں ہوسکتا چونکہ فیس ادا کرنے سے عاجز ہوتاہے، اگرچہ ایسے لوگوں کو اسپتالوں میں روکنا انسانی اقدار اور اسلامی اخلاق کے خلاف ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ایسے مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ہمیں اپنی آخرت آباد کرنے کی محنت کرنی چاہیے۔

حضرت شیخ الاسلام نے کہا: اللہ تعالی نے شیطان کو کچھ اختیارات دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے انسان کو آزمائش سے دوچار کردے۔ ہوا ونفس کی خواہشات کے ساتھ ساتھ بھلائیوں کی بھی ترغیب دی ہے اور اس کے مواقع بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ تمام آزمائشوں کا مقصد یہی ہے کہ کس کا ایمان کتنا مضبوط ہے؟ کون ہمت ہارتاہے اور کون ڈٹ جاتاہے؟ بعض اوقات دشمن سے لڑنے کا حکم دیاجاتاہے تاکہ پتہ چلے کون دین سے دفاع کی خاطر موت کے استقبال کیلیے چلا جاتاہے اور کون پیچھے ہٹ جاتاہے۔

دنیا کے بیشتر لوگوں کو صحابہ کرام کے اعلیٰ مقام کا علم نہیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بلند مقام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہل دنیا کی اکثریت کو ابھی تک صحابہ کرام کے اعلی مقام کا علم نہیں ہے۔ یہ حضرات بے مثال اور کامل مرشد واستاذ خاتم الانبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کے مدرسے کے فضلاء تھے۔ اگر پوری دنیا کے اولیاء اللہ، علماء و مجاہدین کو اکٹھے کرکے صحابہ سے ان کا موازنہ کیاجائے تو یہ تمام لوگ صحابہ کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے۔ صحابہ کرامؓ نے براہِ راست آپﷺ سے اسلام کی ہدایات دریافت کی؛ وہ نبی جن کے سامنے جبرئیل امین ادب سے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آج کے اساتذہ و معلموں سے تشبیہ دیتے ہیں در اصل قیاس مع الفارق کرتے ہیں اور ان کا موازنہ بہت ہی بعید کا ہے۔ چونکہ کسی بھی استاذ آپﷺ کی مانند صحابہ جیسے تربیت یافتہ تلمیذ پیش نہیں کرسکتا۔ صحابہ کرام بہت ہی عظیم لوگ تھے جو اللہ کی تمام آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مہتمم دارالعلوم زاہدان نے بطور خاص خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت صدیق اکبر کی شہرت ’یارِغار‘ سے ہے جنہوں نے آپﷺ کو ہجرت کے مشکل وقت میں ساتھ دیاتھا۔ آپؓ کا مقام اتنا اونچا ہے کہ آپ کی مانند دیگر انبیا کے صحابہ بشمول حواریوں میں نہیں ملتی۔ اپنے وصال سے کچھ قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تم سب کی نیکیوں کا بدلہ ادا کیا، لیکن اس فرد (ابوبکر) کے احسان کا بدلہ میں ہرگز نہیں دے سکا، چونکہ مشکل ترین حالات میں اس نے اپنی جان اور تمام جائیداد میرے اختیار میں چھوڑا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں اپنی تمام نیکیاں حضرت ابوبکر کو دینے کیلیے تیار ہوں اگر اس کے بدلے میں وہ صرف اپنے سفرہجرت کا ثواب مجھے دیدے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیاتھا۔

اساتذہ کی ذمہ داری بہت بھاری ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایران میں اساتذہ کے قومی دن اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یوم ولادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اساتذہ کو ان کا دن مبارک ہو، ان کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں۔ نئی نسل کی تربیت و تعلیم ان کے ذمے پر ہے۔ خواتین اور مسلم بہنیں حضرت فاطمہ اور آپﷺ کی دیگر صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات کی پیروی کیا کریں جن کی تربیت نبی کریم ﷺکے گھر میں ہوئی تھی۔

سنی ارکان مجلس اپنی حدتک اہل سنت کے حقوق کا دفاع کریں گے
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے اپنے گزشتہ ہفتے کے بیان میں ذکرشدہ ایک مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: کچھ حضرات مختلف ذرائع سے سوال کرتے ہیں کہ جب پارلیمنٹ ہاؤس میں اہل سنت کی مقدسات کی توہین کی گئی تو سنی ارکان مجلس کہاں تھے؟ انہوں نے کیوں اس کی مذمت نہیں کی؟ دراصل یہ واقعہ مجلس کی عمومی نشست میں پیش نہیں آیا، ایک سائیڈ پر دو ارکان میں تکرار ہوئی تو ایک نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی جہاں دیگر سنی نمائندے موجود نہیں تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوئی شخص پارلیمنٹ کے ہال میں کھل کر صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کی جرات نہیں کرسکتا، اگر ایسا ہوا بھی تو آپ کے ووٹ سے کامیاب ارکان خاموش نہیں رہیں گے۔ سنی ارکان مجلس اپنی حدتک اہل سنت کے قومی و مذہبی حقوق کا دفاع کریں گے اگرچہ اس راہ میں ان کی جانیں خطرے میں پڑجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں