جمہوریت اور خوف

جمہوریت اور خوف

پاکستان میں انتخابات کا موسم اپنے پُورے جوبن پر ہے: کاغذاتِ نامزدگی داخل اور مسترد کیے جارہے ہیں، مستقبل اور ماضی پر دعوے دائر ہورہے ہیں، جہاں باہمت بادام زری جیسے امیدوار الیکشن پر اپنے نقش ثبت کررہے ہیں، وہیں بہت سارے پرانے نام ایک بار پھر اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔
بہت سارے معمول کے مشتبہ، ماضی بن جانے والی کابینہ کے ارکان امید سے ہیں کہ ایک بار پھر، مستقبل میں ہونے والے اقتدار کے کھیل میں کھلاڑی ہوں گے۔
ہر دن پاکستان کے مستقبل کے لیے انتخابی عمل کی نئی خبر لے کر آرہا ہے اور جمہوری عمل کے اس پس منظر میں، منظر نامہ پر خوفزدہ کردینے والے بم دھماکے، خودکش حملے اور گھات لگا کر قتل کردینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
حال ہی میں اس اخبار میں ایک روح فرسا اور چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی ہے جس میں تفصیل سے بیان ہے کہ کس طرح کراچی تحریکِ طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا اور کیسے شہر کی متعدد پختون آبادیاں ان کے زیرِ تسلط آچکیں اور اب تیس سے زائد عسکریت پسند گروہ شہر میں اپنی موجودگی رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مذکورہ علاقوں میں بسنے والے شہر کے تقریباً دس لاکھ لوگ اس بڑھتے خطرے کے زیرِ سایہ، عالمِ خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ بات اس رپورٹ کو مزید مصدقہ بناتی ہے کہ اس کی اشاعت سے صرف چند روز قبل منگھو پیر کے علاقے سے ایک پولیس چھاپے کے بعد گیارہ افراد کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ اور راکٹ گولے برآمد کیے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق تمام گرفتار شدگان کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان سے ہے۔
دو کہانیاں ایک دوسرے کے متوازی چل رہی ہیں۔ ایک طرف جمہوریت پسند، جو انتخابات لڑنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف عسکریت پسند جو مزید علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے بدستور ریاست سے عالمِ جنگ میں ہیں۔ متواتر جاری قضیے میں ملک کی خون آلود خاک پر مزید خونی حصے تحریر کیے جارہے ہیں۔
چلو فرض کرتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان دوری پاکستان کے لیے پیچیدہ پہیلی ہے۔
حقیقت کے برعکس ایک ابھرتی دلیل، جسے بعض گروپوں کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے کہ بطور تشریح، انتخابات مغربی طریقہ ہے، لہذا وہ غیر مصدقہ ہیں اور اس قابل ہرگز نہیں کہ ان میں شرکت کی جائے۔
اس دلیل کے حامی ماضی کے حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور نوزائیدہ جمہوریت میں اداروں کی کمزوریوں کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں نظامِ حکومت چلانے کے لیے انتخابات کی صورت، موروثی سیاستدانوں کا انتخاب غلطی ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار کرنے والے جو شکل پیش کرتے ہیں، وہ حقیقی اسلامی جمہوریہ اور جدید جمہوری خطوط پر استوار نظام کی عکاس ہوتی ہے۔
اگرچہ اس طرح کے دلائل تحریکِ طالبان پاکستان کے پیش کردہ نظریے یا اس کے حامیوں جیسے ہرگز نہیں، جو جمہوریت کے وجود اور اس عمل میں شرکت پر، سِرے سے ہی انکاری ہیں۔
صورتِ حال سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے بھی بعض رکاوٹوں کا باعث بنی ہے۔
حال ہی میں، آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کو ریٹرننگ افسران نے نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی، جس کے تحت انتخابی امیدوار سچا باعمل اور متقی مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ صادق و امین کی خوبیوں سے بھی آراستہ ہو۔
ان آئینی شقوں کے اطلاق کے دوران متعدد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کیے جاچکے۔ ان میں خود سابق صدر جنرل پرویز مشرف، جن کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے متعدد مقدمات التوا کا شکار ہیں، ساتھ ہی کالم نگار سیاستداں ایاز امیر بھی شامل ہیں، جن کے ایک کالم کے بعض مندرجات کو نظریہ پاکستان اور اسلام منافی قرار دیا گیا۔
اگرچہ ایک کے مقابلے میں دوسرے کیس میں، پیش کردہ حقائق کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان جس انداز سے کام کرتا رہا، وہ بالکل واضح ہے۔
اگرچہ تحریکِ طالبان پاکستان اور ان جیسے دوسرے گروہوں کا عقیدہ تو بالکل ہی واضح ہے۔ وہ جمہوریت اور جمہوری طریقہ کار پر مکمل یقین نہیں رکھتے اور جمہوری نظریات پر حملے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن بعض وہ جنہیں امیدواروں کی جانچ پڑتال سونپی گئی تھی، انہوں نے بھی آئینی شقوں کی خود ساختہ مشتبہ تشریحات قائم کیں۔
آئینی شقوں کے اطلاق کو انہوں (ریٹرننگ افسران) نے مذہبی معلومات پر مبنی امتحان میں بدلا، جس سے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ عقیدے کو جمہوری عمل میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
اس واضح امتیازی صورتِ حال سے صاف عیاں ہے کہ اس وقت جب ملک جمہوری عمل سے گذرتے ہوئے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، پاکستان میں صورتِ حال کس قسم کی ہوچکی ہے۔ یہ محسوس کرنا مشکل نہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے، جو فاٹا سے نکل کر اب پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آمدنی دینے والے شہر تک اپنا رسوخ پھیلا چکی، انتخابی عمل کو تہ و بالا کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
یہ مستقل ریاست پر خونی حملے کررہے ہیں اور رہی منتخب حکومت تو اُس کے کرتا دھرتاؤں کو پورے دور میں ریاست کے اختیارات سے اپنی بالادستی قائم کرنے کی فکر کھاتی رہی۔
تو جب اس سارے مرکب میں، ایسے نظریات کو بھی شامل کردیں جو جمہوریت اور جمہوری عمل کو سِرے سے غیر شرعی قرار دے رہے ہو تو پھر آپ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ جہاں ہرانتخاب سمٹ کر ایک نکتے پر آجاتا ہے یعنی نظام کے ایسے منتخب عوامی نمائندے جو ملک اور اس کے شہریوں کو بچاسکیں۔
ایسے کافی سارے غیر ریاستی عناصر ہیں جو جمہوری نظام کے دائرے سے باہر مصروفِ عمل ہیں اور انہیں الیکشن میں کوئی دلچسپی نہیں۔ رہے وہ جنہیں نظام پر یقین ہے اور وہ اس میں شرکت بھی کررہے ہیں، انہیں بھی خطرات درپیش ہیں جو سادہ نوعیت کے ہرگز نہیں۔
جیسا کہ گذشتہ برسوں میں ہوتا رہا ہے، کرپشن یا فوج کی طرف سے مداخلت وغیرہ لیکن پھر بھی درپیش صورتِ حال میں نظام کی قبولیت اور خود ریاستِ پاکستان کے لیے اس کا جاری رہنا، ان کی شمولیت سے مصدقہ ہوجاتا ہے۔
یہ محض غیر حقیقی شکوک و شبہات نہیں ہیں۔ حال ہی میں برٹش کونسل کی طرف سے نوجوانوں پر کیے گئے جامع سروے کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غالب طور پر نئی نسل کو جمہوری نظام پر اعتماد نہیں رہا۔
بلاشبہ ایک ایسے ملک کے لیے جو بیمار ہے، اسے مکمل صحت یابی کی طرف لوٹانے کے لیے تمام قصوں کو ایک نقطے پر مرتکز ہوجانا چاہیے یعنی انتخابی عمل۔ اس حقیقت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے، چاہے اس پر کیسے ہی حملے کیوں نہ ہوں۔ ریاست کے پاس اتنی قوت اور اہلیت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد پر قابو پاسکے۔
پاکستانیوں کے لیے یہ انتخاب صرف اس حد تک محدود نہیں کہ وہ نئی قیادت کا اپنے ووٹ کے ذریعے انتخاب کرسکیں گے، درحقیقت جمہوری عمل خود ان کے لیے بھی سب سے بہترین طریقہ ہے، جس کا تمام مذاہب اور ممالک کے لیے آگے بڑھنے اور نمائندہ سیاست اختیار کرنے پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔

ترجمہ: مختار آزاد
ڈان نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں