اسلام نے عورت کو عورت سمجھا

اسلام نے عورت کو عورت سمجھا

اسلام سے پہلے عوررت کو عورت سمجھاہی کہاں جاتا تھا معاشرے میں کارہائے نمایاں انجام دینے کی بات تو درکنار۔
اسلام کی وساطت سے عورت کے ارتقاءکا باب کھلتاہے اور پہلی منزل پر ہی ہمیں ام الموالمنین حضرت عائشہ صدیقہ جیسی ہمہ جہت خاتون ملتی ہیں جنھیں اسلام کا پہلی مفتیہ مانا جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اقوام عالم اور مذاہب دیگر میں اسلام کی یہ تحریک اثر دکھاتی ہے تورنگ و نسل اور مذہب و ملت کے کسی امتیاز کے بغیر ہر ذی ہوش اس سے بھر پور استفادہ کرکے رشک لیلیٰ بنتا دکھائی دیتا ہے ۔ رحم دلی اور خدمت خلق کی جو مثال حضرت فاطمہ اور دیگر امہات المومنین کے علاوہ قرون اولیٰ اور وسطیٰ کی خواتین نے پیش کی تھیں اس سے نسل انسانی کے ہر زمانے نے روشنی حاصل کی جن میں مدر ٹریسا اورر فلورینس نایٹنگیل وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ دوسری طرف میڈم کپوری ہیں جن کے عقل و فہم نے شعاوں کے راز سر بستہ کیے بلکہ یہی صنف نازک رضیہ سلطانہ بنت سلطان التمش کی شکل میںتخت شاہی پر جلوہ افروز ہوئی تو کبھی ٹی سی تھا مس بن کر اگنی سوم کے تجربے کے ساتھ ہندستان کی پہلی میزائل خاتون کہلائی اور کبھی کلپنا چاولا اور سنیتا ولیم بن کر خلاؤں میں سیر کرتی نظر آئیں اور قرة العین حیدر کی شکل میں کوئی قلم کا سہارا لے کر اپنی تخلیقات کو معراج عطاکرتی دکھائی دی ۔لیکن سچ یہ ہے کہ ان سب کے پیچھے اسلام کے اس آفاقی پیغام کا اثر پنہاں ہے جس نے پہلی بار دوٹوک لفظوں میں عورتوں کی حیثیت عرفی کی بحالی فرمائی اور نہ یہ کہ انھیں صرف شعورِ زندگی عطا کی بلکہ جینے کا سلیقہ بھی دیا اورترقی کا پیمانہ بھی ۔قیامت تک نسلِ نسواں پر جاری اسلام کے اس احسان عظیم سے نہ کو ئی انکار کرسکتا ہے اور نہ اس سے دامن بچا سکتاہے ۔یقینا آج معاشرے میں انسانیت کے نام پر جو کچھ ہے وہ اسلام کی دین ہے۔۔ آج مردو خواتین دونوں کو نہ خلاؤں میں پرواز کا احساس ہو تا نہ آسمان وزمین پر کمندگی کا، اگر اسلام و قرآن کے سہارے قرون وسطیٰ کے مسلم سائنسدانوں نے سائنس کو بال و پر نہ عطاکیا ہوتااور آج بھی لڑکیوں کو زندہ درگورکیاجاتا اور بیوئیں بھینٹ چڑھتی رہتیں اور صنف نازک محض جنسی ہوس کی معمولی کھلونا ہی رہتیںاگر اسلام اور پیغمبر اسلام نے انھیں زیب گلستاں نہ کیا ہوتا ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جس نے سب کچھ دیا آج اسی کی تعلیما ت کو توڑمروڑ کر پیش کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور ساری کریڈٹ اپنے نام کرنے کی ناکام جدوجہد جاری ہے۔ لیکن اہل خرد خوب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اصل کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی اسلام کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے اور اپنے تو درکنار غیر بھی اعتراف حق پہ مجبور ہیں بلکہ آج دنیا کو اس بات کا بھی احساس ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے دنیان کا کتنا بڑا خسارہ ہواہے کہ آج کی ترقی یافتہ صدی اسلامی دور کے قرون وسطیٰ سے کافی آگے بڑھنے کے بعد بھی صرف وسائل آسائش ہی فراہم کرسکا ہے کوئی سکونِ قلب کی تکنیک یا تھیوری ہر کز نہیں جب کہ قرونِ وسطیٰ کے ترقی یافتہ اسلامی دور میں سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی ترقی بھی پا بہ رکاب تھے اورذہنی کشمکش کی وجہ سے ایک بھی ہپی کا کیس نہیں ملتا جس مہلک عارضے نے آج کے ترقی یافتہ ممالک کے ناک دم کیے ہوئے ہے کیوں کہ وہاں اعتدال کا دامن چولی کے ساتھ تھا اور یہاں بے اعتدالی کی حکومت ہے ۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں