حرف آغاز
مذہب اسلام اس دنیا میں اس وقت آیا ہے، جب انسانیت دم توڑ رہی تھی، انسانی ظلم وجور پر ظلم کی تاریخ بھی آنسو بہارہی تھی اور عدل ومساوات کی روح تقریباً عنقا ہوچکی تھی۔
اسلام نے ایسے نامساعد حالات کے باوجود انصاف وبرابری کا نعرہ بلند کیا، اور عملاً بھی اس کی شاندار تصویر پیش کی، اور حاکم ومحکوم، آقا وغلام اور اونچ ونیچ کے ناہموار ٹیلوں سے بھرے صحرائے انسانیت میں عدل وانصاف، برابری ومساوات اوریکسانیت وہم آہنگی کے پھول کھلاکر ہر سو نسیم صبح چلادی۔
”مشتے از خروارے“ کے طورپر اسلامی مساوات میں ہم ”حقوق نسواں“ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورت عالم گیتی پر جانوروں، بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ بے وقعت ومظلوم تھی، کو اسلام نے ذلت ونکبت کے تحت الثریٰ سے اٹھاکر بلندی وعظمت کے بام ثریا پر رونق افروز کردیا، اوراسے ایسے ایسے حقوق عطا کئے جس کا تصور بھی اسلام سے پہلے ناممکن اور معدوم تھا…، مگر آج جبکہ ہر طرف سے اسلام پر یورش ہورہی ہے اورطرح طرح کی بے جاتنقیدوں اور لغو اتہامات کا نشانہ بنایا جارہاہے اوراسلامی اقدار و روایات کو ناقص بلکہ ظلم اور عدم مساوات سے عبارت گردانا جارہاہے اور زور شور سے اس بات کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ اسلام نے عورتوں کو اس ناجائز حقوق سے محروم رکھا ہے، اور اس کے ساتھ عدل ومساوات کا معاملہ نہیں کیا، حالانکہ اگر عقل وخرد کو تعصب سے پاک وصاف رکھا جائے اور دل ودماغ سے منصفانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہوجائے گی، کہ عورت چونکہ تمدن انسانی کا محور ومرکز ہے، گلشن ارضی کی زینت ہے، اس لئے اسلام نے باوقار طریقے سے اسے ان تمام معاشرتی حقوق سے نوازا جن کی وہ مستحق تھی، چنانچہ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا، دیگر اقوام کے برعکس اسے ذاتی جائداد ومال رکھنے کا حق عطا کیا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کی صورت دکھلائی، وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرایا، اسے معاشرہ کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اس کے تمام جائز قانونی حقوق کی نشان دہی کی، حاصل یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جس قدر حقوق دئے ہیں، خواہ اس کا تعلق ذاتی جائداد وراثت سے ہو یا شادی یا طلاق کا مسئلہ ہو، کوئی دوسرا مذہب اس کا عشر عشیر بھی پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے۔
دوسری طرف اگر آج ہم افترا پردازوں کے نعرے اور ان کے نتائج پر غور کریں تو اس پرفریب نعرہ نے اس بے چاری کو اس کے سوا کچھ نہیں دیا کہ وہ دفتروں میں کلرکی کرے، اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری بنے، تجارت چمکانے کیلئے سیلزگرل بنے اور اپنے ایک ایک عضو کو سربازار رسوا کرکے گاہکوں کو دعوت نظارہ دے … ان سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ طلاق کی شرح میں زبردست اضافہ، ناجائز بچوں کی بہتات، ایڈز کا شیوع، غرضیکہ تمام معاشرتی واخلاقی خرابیاں اسی نام نہاد ”آزادیٴ نسواں“ کا ثمرئہ تلخ ہے۔
اسلام نے عوتوں کو کتنی ترقی دی؟ کیسا بلند مقام عطا کیا؟ قرآن کریم کی لاتعداد آیتوں اور بے شمار احادیث سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام نے پوری دنیا کے سامنے حقوق نسواں کا ایسا حسین تصور پیش کیا اور عورتوں کے تئیں وہ نظریات اپنائے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی اس مثبت ومساوی نظام عمل پر عش عش کراٹھے، اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام ہی دراصل حقوق نسواں کا علم بردار اور حقیقی ضامن ہے۔ آج اگر مغرب اور مغرب پرست اسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اسلام کو حقوق نسواں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں، تو یہ صرف حقیقت سے چشم پوشی کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت ہے، مگر
”پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے“
چنانچہ آج بھی بہت سے غیرمسلم مفکرین اور دانایانِ فرنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اسلام ہی کو صنفِ نازک کا نجات دہندہ اور حقوق نسواں کا پاسدار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اسلام نے ہی عورت کو تمام معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق دئے جن کا تصور قبل از اسلام بعید از قیاس تھی۔
”ای بلائیڈن“ رقمطراز ہیں ”سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلى الله عليه وسلم لے کر آئے، اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے تھے (سنت نبوی اور جدید سائنس)
”ڈبلیولائٹرر“ لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمد صلى الله عليه وسلم نے دی وہ مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے“۔
(Mohammadanism in religious system of the world) ”ای ڈرمنگھم“ حضور صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کو سراہتے ہوئے اور اسلام کے عورتوں کی زندگی کے تبدیل کردینے کے تعلق سے لکھتا ہے: ”اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی، ان سے پہلے طبقہ نسواں کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمد صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات سے انہیں حاصل ہوا، جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا وہ بھی حقوق ومراعات سے نوازی گئیں۔ (The Life of Mohammad)
ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں ”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا“ (The Eupensin of Islam) ۔
حقوق نسواں اوراس کے چند اہم پہلو
عوموماً عورتوں کو زندگی میں تین اہم مراحل سے گذرنا پڑتا ہے: (۱) پیدائش سے شادی تک (۲) ازدواجی زندگی (۳) شوہر کے بعد کی زندگی۔
پیدائش سے شادی تک
پہلے مرحلے میں یہ بات واضح ہے کہ ازدواجی زندگی تک جب ہی پہنچا جاسکتا ہے جبکہ وجود (پیدائش) کو بقا حاصل ہو، مگر اسلام سے پہلے انسان کے اندر صفت بہیمیت پوری طرح غالب آگئی تھی، چنانچہ صنفِ نازک کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا، تین سال، پانچ سال کی نوعمر بچیوں کو محض اسلئے پیوندخاک کردیتے تھے کہ ان کی ناک نہ کٹ جائے، کوئی ان کا داماد نہ کہلانے لگے، لیکن اسلام نے ”واذ المووٴدة سئلت بای ذنب قتلت“ کے جانفزا حکم کے ذریعہ اس فتنہٴ دختر کشی کا سدباب کردیا اور ڈوبتی انسانیت کو حیات اور حوا کی بیٹی کو جینے کا حق دیا۔
”آئرینا میڈمکس“ (Women in Islam 1930) میں اسلام اورماقبلِ اسلام عورت کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ”محمد صلى الله عليه وسلم نے ان چیزوں کو اپنی پسندیدہ قرار دیا ہے، نماز، روزہ، خوشبو اور عورت، عورت آپ صلى الله عليه وسلم کے لئے قابل احترام تھی، معاشرہ میں جہاں مرد اپنی بیٹیوں کو پیدائش کے وقت زندہ دفن کیا کرتے تھے، محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو جینے کا حق دیا“ (سنت نبوی اورجدید سائنس۲)
”جنرل گلپ پاشا“ نے حضور صلى الله عليه وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب لکھی ہے (The Life And Tims of Mohammad) وہ اس میں پہلے اسلامی حقوق وراثت کی تعریف کرتے ہیں اور پھر آگے لکھتے ہیں: ”حضور صلى الله عليه وسلم نے لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا بالکلیہ خاتمہ کردیا“ (ایضاً)
”ریونڈجی ایم راڈویل“ ایک انتہائی متعصّب عیسائی ہے، مگراعترافِ حق سے اپنے آپ کو نہ روک سکا کہ قرآن نے خانہ بدوشوں کی دنیا بدل ڈالی، دخترکشی کو ختم کردیا،اور تعدد ازدواج کو محدود کرکے احسان عظیم کردیا، چنانچہ اس نے بے اختیار لکھ دیا ”قرآنی تعلیمات سے سیدھے سادے خانہ بدوش ایسے بدل گئے کہ جیسے کسی نے ان پر سحر کردیا ہو، اولاد کشی ختم کرنا، توہمات کو دورکرنا، بیویوں کی تعداد گھٹاکر ایک حد مقرر کرنا، وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو عربوں کے لئے بلاشبہ برکت اور نزول حق تھیں، گوعیسائی ذوق اسے تسلیم نہ کرے“ (فاران ستمبر ۱۹۷۶/ بحوالہ میری آخری کتاب)
دوسرا مرحلہ ”ازدواجی زندگی“ ہے۔
اس مرحلے میں عورت کو بہت کچھ نرم گرم سہنا پڑتا ہے، بسا اوقات شوہر کی شہوت اس سے پوری نہیں ہوپاتی تو وہ دیگر راہیں ڈھونڈتا ہے، اخلاقی وتہذیب کی حد کو پار کرکے بازاری یا ان جیسی عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور پھرمیاں بیوی کی زندگی اجیرن بن کر رہ جاتی ہے، اسلام نے ان ہی خرابیوں اور نقصانات سے بچاؤ کے لئے ”تعدد ازدواج“ کی اجازت دی ہے، اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بڑے زور شور سے یہ کہتے ہیں کہ تعدد زوجگی میں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے اوران کا حق منقسم ہوکر رہ جاتا ہے اور سوکن کی شکل میں طرح طرح کی ذہنی، جذباتی اورمعاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروپیگنڈہ کتنا مبنی برحقیقت ہے اور تعدد ازدواج میں کیا کیا مصالح مضمر ہیں؟ یہ انسانی فطری طریقہ ہے یا اس سے متصادم؟ اس قسم کے سوالوں کا جواب الحمدللہ بہتوں نے دیا ہے اوراس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ہم تفصیل میں جانا نہیں چاہتے تاہم یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام سے پہلے بھی تعدد ازدواج کی رسم رہی ہے اوراس کے بعد بھی جاری ہے بلکہ اسلام نے تو اپنے متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، جبکہ اسلام کے علاوہ میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔
موجودہ زمانہ میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح … یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔
یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اسلامی تعدد ازدواج کے محاسن وفوائد اور مغربی تعدد ازدواج کی قباحت ونقصان پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید رقم کرتی ہیں۔
”عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سرکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)
والیٹر: ایک مشہور فرانسیسی موٴرخ ہے، تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”میں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں جو مذہب اسلام پر دیگراتہامات کے علاوہ عیش پرستی و راحت کوشی کا الزام لگاتے ہیں، یہ سب اتہامات بے جا اور صداقت سے مبرّا ہیں“۔
ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:
مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)
تیسرا اہم مرحلہ ”شوہر کے بعد کی زندگی“ ہے۔
اسلام سے پہلے ہوتا یہ تھا کہ جب عورت غیرشادی شدہ ہے اس کی کفالت باپ کے ذمہ ہوتی تھی اور شادی کے بعد شوہر کے زیردست رہتی، باپ سے اسے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ اس لئے ہندوستان وغیرہ میں جہیز کا دور دورہ ہوا کہ والدین سے وراثت تو ملتی نہیں اس لئے جہیز میں جو کچھ دے سکتے ہوں دے دیں اسی طرح شادی کے بعد اتفاق سے شوہر کا انتقال اس عورت سے پہلے ہوجائے تو عورت کو شوہر کی جائداد سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی تھی۔ جس کا شاخسانہ ستی کی رسم ہے۔ بلکہ تمام مال غیروں کا ہوجاتا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہوتا تھا، مگر اسلام نے آتے ہی اس رسم کا خاتمہ کردیا جس کی وجہ سے عورت جیتے جی مردہ بن کر رہ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم نے ”والذین یتوفون منکم الخ“ اورآیت میراث کے ذریعہ اس کا حصہ بیان کرکے اس فتنہ کا سدباب کردیا۔اسلام کی انہیں خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی لکھتے ہیں:
”اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس)
پروفیسر D. S Margoliouth یورپی مصنف ہے جو اسلام اور پیغمبر صلى الله عيله وسلم اسلام کی دشمنی، بہتان تراشی اور اعتراضات والزامات کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر ضمیر کی آواز کو دبا نہ سکا چنانچہ وہ عیسائیت ویہودیت پر حقوق نسواں کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”دور جاہلیت کے عرب تو ایک طرف رہے، عیسائیت اور یہودیت میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ عورت بھی صاحب حیثیت اورمالک جائداد ہوسکتی ہے، یہ مذاہب اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عورت بھی مردوں کی طرح معاشی اعتبار سے خوش حال ہوسکے عورتوں کی حقیقی حیثیت ان مذاہب اور ثقافتوں ومعاشروں میں باندی کی سی تھی جو مرد کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ محمد صلى الله عليه وسلم نے عورت کو آزادی عطا کی، خود مختاری دی اور خود اعتمادی کے ساتھ جینے کا حق دیا۔ (ایضاً)
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر راجندر صاحب نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
تاریخی طور پر اسلام عورتوں کو جائداد کے حقوق دینے میں بہت زیادہ فراخ دل اور ترقی پسند رہا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ۱۹۵۶/ میں ہندوکوڈبل سے قبل ہندو عورتوں کا جائداد میں کوئی حصہ نہیں تھا، حالانکہ اسلام مسلم عورتوں کو یہ حق ۱۴ سو سال پہلے دے چکا تھا۔ (The Statement Delhi)
حرف آخر
عورت چونکہ گھر کی زینت ہے اس لئے اس زینت کو نظربد سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے کچھ حدود قائم کئے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان پابندیوں سے عورت کو کوئی نقصان پہنچا ہو، اسے کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ یہ تو عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے، انہیں خیال کا اظہار ہملٹن ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اسلام کے احکام عورتوں کے بارے میں نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔“
سرجان بیگٹ رقم طراز ہے:
”واقعہ یہ ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے عورتوں پر جو پابندیاں عائد فرمائی ہیں ان کی نوعیت سخت نہیں ہے بلکہ ان پابندیوں میں عورتوں کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔“ (محمد صلى الله عليه وسلم بحوالہ سنت نبوی اور جدید سائنس)
غیروں کے اعتراف حقیقت کے بعد بلا اختیار قلب وذہن میں ”ان الدین عند اللّٰہ الاسلام“ دھڑکرن بن کر دھڑکنے لگتا ہے اور مشاہدہ کی آنکھوں سے ”ان ہذا القرآن یہدی للتی ہی اقوم“ کی تفسیر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اعترافِ حق کے ساتھ ساتھ قبول حق کے بھی حصہ دار بن جاتے۔
دارالعلوم دیوبند
آپ کی رائے