مسلمانوں کی کامیابی کا راز اللہ تعالی کی مکمل اطاعت میں ہے

مسلمانوں کی کامیابی کا راز اللہ تعالی کی مکمل اطاعت میں ہے

خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولاناعبدالحمیددامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ میں ایمان، تقویٰ، توکل، نماز اور زکات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کی کامیابی اور فتح کو مذکورہ امور کی پاسداری سے مشروط قراردے دیا۔

زاہدان شہر میں ہزاروں فرزندانِ توحیدسے خطاب کے دوران سورت الانفال کی ابتدائی آیات کی تلاوت سے اپنے بیان کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا: سورت الانفال کا اکثر حصہ غزوہ بدر کے بارے میں ہے جہاں مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہوئی اور دشمن فاش شکست سے دچارہوا حالانکہ کفار کی بہ نسبت مسلمانوں کے آلات حرب وسامان ضرب بہت ہی کم تھے، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو کیسے کامیابی نصیب ہوئی؟ اسی سوال کا جواب سورت الانفال میں ہے؛ انہیں امورکا تذکرہ سورت کی ابتدامیں ہے جو تمام مسلمانوں کیلیے ہر عہدوزمانہ میں قابل تقلید ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: مسلمانوں کی کامیابی کی پہلی اہم وجہ ان کی اطاعت شعاری تھی؛ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سختی سے پیروی کرتے تھے اور تقویٰ وپرہیزگاری ان کا طرہ امتیاز تھا۔ ایک سچا مسلمان ہروقت لغو اور فضول کاموں سے گریز کرتاہے، گناہ خواہ صغیرہ ہوں یاکبیرہ ان کے قریب بھی نہیں جاتا؛ یہی بات صدراسلام کے مسلمانوں کی فتح کا راز تھا اور آج کے مسلمانوں کی کامیابی بھی اسی صورت میں ممکن ہے۔

قرآنی جملہ: ’’واصلحوا ذات بینکم ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا عبدالحمیدنے کہا: مختلف گروہوں اور افراد کے درمیان اختلاف نظر پیدا ہوجانے میں کوئی تعجب نہیں؛ یہ ایک طبعی امر ہے۔ ایسی صورت میں برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اگر اختلاف ظاہر ہو تو آپس میں اصلاح تعلق ہونا چاہیے چپقلش اور نزاع سے گریز کرنا ضروری ہے۔ چونکہ لوگوں کے ذائقے اور خیالات وافکار میں فرق ہے اور نزاع پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، قرآن پاک نے خبردار کیا۔ غزوہ بدرمیں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آراء مختلف تھیں، مثلا اسراء کے بارے میں نظریات میں فرق تھا لیکن یہ اختلاف ہرگز تفرقہ اور لڑائی تک نہیں پہنچا۔

ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: عصرِحاضر میں بھی مسلمانوں میں نظریاتی اختلاف موجود ہے جیساکہ مختلف فرقے وجودمیں آچکے ہیں۔ مختلف جماعتیں، اقوام اور لسانیت کے افراد ساتھ ساتھ رہتے آرہے ہیں جن کی آراء میں تفاوت واختلاف ہے۔ مختلف انسانی گروہوں میں اختلاف کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے۔ لیکن اگر مسلمان کامیابی ونصرت کے خواہاں ہیں تو انہیں اتحاد ویکجہتی کامظاہرہ کرنا ہوگا، مسلمانوں کوبرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے؛ اختلاف کو تفرق تک نہیں پہنچنے دیاجائے۔ ہرحا ل میں بھائی چارہ سے کام لینا چاہیے۔

حقیقی مؤمنوں کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا: سچے اور حقیقی مسلمانوں کی صفات میں سے ایک اللہ رب العزت کی ذات پرایمان لانا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’ولاتھنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘؛ اگرتم حقیقی مؤمن ہو تو جا ن لو کسی غم اور پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ سچے ایمان والے ضرور کامیاب ہوں گے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَ‌بِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ»; (مومن تو وہ ہے مہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔)

مولانا عبدالحمیدنے مزیدکہا: سچے مسلمان اسباب وآلات پربھروسہ کرنے کے بجائے اللہ تعالی کی ذات اقدس پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگرچہ اسباب کو ان کی حدتک بروئے کارلایاجاتاہے، لیکن بھروسہ ہوتاہے اللہ سبحانہ وتعالی پر۔ یہی مسئلہ کامیابی کا ایک دوسرا راز ہے۔ متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو توکل کی تلقین فرمائی ہے تاکہ دشمن پرغلبہ حاصل کرکے دنیوی مشکلات ومسائل پر قابو پایاجائے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے کہا: آیات مبارکہ میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی فتح کیلیے مزیددو اعمال کو ضروری قرار دیاہے؛ ایک اقامہ نماز اور دوسرا ادائیگی زکات وصدقات ہے۔ اللہ تعالی نے آیت کی ابتدا میں ایمان، تقویٰ ، توکل اور اللہ کی یادوذکر کاتذکرہ فرمایا اور پھرنماز قائم کرنے اور زکات وصدقہ دینے پر پر زور دیا۔ لہذا سعادت وکامیابی ان لوگوں کے قدموں کو چھومے گی جو تقویٰ، ایمان اور توکل کے ساتھ ساتھ نماز قائم کریں اور اللہ کی راہ میں خرچ کیاکریں۔ حدیث پاک میں آتاہے جب مؤمن نماز قائم کرتاہے اللہ تعالی اس کو مضرات اور نقصان سے محفوظ رکھتاہے۔ لیکن اگر نماز قضا کرے تو اس کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ آپﷺ اور صحابہ کرام ہر حال میں نماز قائم کرتے حتی کہ میدان جنگ میں بھی ’صلاۃ الخوف‘ پڑھ کرنمازیں قضا نہیں کرتے۔

انہوں نے مزیدکہا: اس آیت مبارکہ اور متعدد دیگر قرآنی آیات سے پتہ چلتاہے اعمال صالحہ میں اہم ترین نماز ہے اور نماز کے بعد سب سے اہم اللہ کی راہ میں انفاق ہے۔ بعض اوقات نماز کے بجائے صدقہ وزکات دینا زیادہ اہمیت اختیار کرتاہے۔ ارشادالہی ہے: ’یمحق اللہ الربا ویربی الصدقات‘؛ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان غریب ومسکین نہیں بنتا،الٹا یہ مال میں فراوانی کا باعث بنتاہے۔ صدقہ کرنے سے روزی میں فراخی آتی ہے اور عمرمیں برکت؛ صدقہ اللہ کے غضب کو ختم کرتاہے۔ دوسری جانب سودخوری سے بظاہر مال میں اضافہ ہوتاہے لیکن حقیقت میں یہ پوری جائیداد پر آگ لگانے کی کوشش ہے۔ ربا مال کو ختم اور تباہ وبرباد کرتاہے۔

عالمی اتحادبرائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: جب تک انسان قرآن مجید کی راہ پر گامزن نہ ہو وہ کچا ہے اورناقص۔ کل کا انسان قرآن کا گرویدہ بن گیا تو ’صحابی‘ کا اعزاز اسے حاصل ہوا اور تمام اہل ایمان کیلیے نمونہ ومثال بن گیا۔ ان کی یاد قیامت تک زندہ رہے گی، کھربوں لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور عشق موجود تھا اورہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی نے ان سے اپنی رضامندی کا کھلا اعلان فرمایا اور وہ بھی اپنے ہی الفاظ اور کلام میں۔ لہذا آج کا مسلمان اگر عزت وسربلندی چاہتاہے تو اس عظیم کتاب کی جانب لوٹ جائے اور قرآن پاک کو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کا آئین قرار دیدے۔ ہمارے مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ہم قرآن کریم کے پیروکار بن جائیں۔ قوموں کی حالات اسی صورت میں بدلیں گے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں