برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین انسانیت سوز مظالم

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین انسانیت سوز مظالم

انہی دنوں برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام،ان کی جائیدادیں ،مساجدجلانے اور ہزاروں کی تعداد میں ان کی بے سروسامانی کے عالم میں محفوظ علاقوں کی طرف بھاگنے کی المناک انسانیت سوز اطلاعات سامنے آئیں۔
برما کی انتہا پسند بدھ مت تنظیموں کے افراد نے وسیع پیمانے پر بے رحمی سے روہنگیا مسلمانوں کو زندہ جلا کر یا بری طرح تشدد سے ہلاک کیا۔
سیکورٹی فورسز نے متاثرہ علاقوں کا رخ کرتے ہی فسادیوں کا قتل و غارت گری کا عمل ایک بار بھر دہرایا۔
برما کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تازہ فسادات میں چالیس روہنگیا افراد ہلاک ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیںجبکہ ہلاکتوں کی غیر سرکاری اطلاعات بہت زیادہ ہیں۔
برما میں گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے نسلی فسادات منگل کو ملک کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں اور حکام کے مطابق دو مساجد سمیت درجنوں گھروں کو اس دوران نذر آتش کردیا گیا ہے۔پولیس اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ رنگون کے شمال میں پیگو کے علاقے میں رات بھر سے جاری فسادات میں تاحال کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
میختیلا کے علاقے میں یہ فسادات گزشتہ ہفتے شروع ہوئے تھے۔
یہ لہر تاحال ملک کے بڑے شہر رنگون تک نہیں پہنچی ہے۔ لیکن، شہر کی فضا کشیدہ ہے اور ممکنہ جھڑپوں کی افواہوں کے تناظرمیں سر شام ہی اکثر بازاروں کو بند کر دینے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
مبصرین تشدد کی اس تازہ لہر کے بارے میں زیادہ متفکر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ توقع سے زیادہ پھیل سکتی ہے۔
ملک میں حکومت کی طرف سے کی جانے والی سیاسی اصلاحات کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے اس تشدد کے خاتمے کے لیے امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے۔

برما کے صوبہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برما کے عدم تشدد کے پرچاری بدھ مت کے افراد نسلی اور مذہبی بنیادوں پر عرصہ دراز سے قتل و غارت گری کرتے چلے آئے ہیں۔
گزشتہ سال بھی تین چار بار روہنگیامسلمانوں کے قتل عام کی خوں ریزی و غارت گری کی مہم کئی کئی دنوں جاری رہی۔برما(مانمر) کے صوبے اراکان میں گزشتہ سال جون اور اکتوبر میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے مکانات ،مساجد کو آگ لگانے کے واقعات وسیع پیمانے پہ ہوئے ۔
گزشتہ سال جون اور اکتوبر میں ہونے والے قتل عام اور فسادات کے بارے میںہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ برما کے سیکورٹی فورسز روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ،ہلاکتوں ،ریپ اور بڑے پیمانے پہ گرفتاریوں میں ملوث ہے ،فورسزنے یہ کاروائیاں اراکان میں بدھ مت کے افراد کے مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھروں کوجلانے کی مہم کے بعد کیں۔حالیہ قتل و غارت گری کے فسادات کے ساتھ ساتھ برما کے بدھ مت افراد میں روہنگیامسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
گزشتہ سالڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیامسلمانوں نے بنگلہ دیش،تھائی لینڈ کی طرف ہجرت کی ہے۔اس دوران بھی وہ ان ملکوں کی فورسز کی سختیوں کا نشانہ بن رہے ہیںیہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ برما میں روہنگیا مسلمانوں کایہ قتل عام روانڈا میں ہونے والے قتل عام کے مماثل ہے۔

برما کے ملٹری چیف سینئر جنرل من آنگ ہلنگ نے برما کے آرمڈ فوسز ڈے کے موقع پراس قتل عام میں فورسز کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
مغرب کی ڈارلنگ برما کی اپوزیشن لیڈر آن سان سوچی بھی اس فوجی تقریب میں صف اول میں موجود تھیں۔
ان کے ساتھ چند اقلیتی نسلی گروپ کے نمائندے بھی فوجی تقریب میں موجود تھے۔
آنگ سان سوچی برما کی خود مختاری کے رہنماجنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں،جس نے برما کی فوج تشکیل دی۔
اپوزیشن نیشنل لیگ کی آنگ سان سوچی یہ سمجھتی ہیں کہ فوج کی حمایت کے بغیر برما میں جمہوریت قائم نہیں کی جاسکتی۔برما میں فوج کی نگرانی میں گزشتہ دو سال سے سول حکومت قائم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا افراد کے خلاف حالیہ قتل و غارت گری کے سنگین واقعات میں آنگ سان سوچی کا ایک حمایت یافتہ بدھ گروپ بھی شامل ہے جس کی قیادت ایک نسل پرست بدھسٹ کر رہا ہے۔
برما (میانمر) کے صدر تھین سین کہا ہے کہ فسادات کم کرنے کے لئے فورس استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
فسادات بعد پانچ قصبوں میں کرفیو لگایا گیا جو تجارتی مراکز کے طور پر مشہور ہیں۔
صدر نے کہا کہ ہم کنفیوز ہیں کہ یہ اصل میں مونکس (بدھ مت) ہیں یا نہیں،ہو سکتا ہے کہ قتل کرنے والے نامعلوم گروپ ہوں۔
صحافیوں کو بھی ان دہشت گرد گرپوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ برمی حکومت نے اراکان صوبے میں متاثرہ مسلمانوں کو امدادی تنظیموں کی طرف سے خوراک دینے پر پابندی عائید کی ہوئی ہے۔پناہ کی تلاش میں مختلف غیر محفوظ کیمپوں میں رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت نہایت خراب ہے اور انہیںکھانے پینے کو کچھ بھی میسر نہیںہے۔
بدھ مت کی متعدد تنظیموں کے ارکان نے مسلمانوں کے علاقوں کا گھیراﺅ کیا ہوا ہے تا کہ وہاں خوراک ،ادویات نہ پہنچائی جا سکیں۔

برما کے صدر نے بعد میں ملک میں ایمرجنسی لگا دی،ہزاروں مسلمان بے سرو سامنی کے عالم میں بدن پہ پہنے کپڑوں میں ہی اپنی عزت و جاں بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر ناجا معلوم منزلوں کی جانب بھاگنے پہ مجبور ہوئے ۔مسلمانوںکے تجارتی مراکز کو بھی آگ لگا دی گئی۔
مسلمانوں کی قیمتی دکانوں بشمول گولڈ کی دکانوں کو فورسز کے سامنے لوٹ کر آگ لگا دی ۔
مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اراکان میں تجارت پرمسلمانوں کی مضبوط گرفت توڑنے کے لئے بھی حالیہ ہلاکتیں اور تباہی کی گئی ہیں۔
چند افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک روہنگیا مسلمان سونے کے تاجر کی طرف سے اپنی دوکان زبردستی بیچنے سے انکار پر انتہا پسند بدھ مت کے افراد نے قتل و غارت گری شروع کی جو تیزی سے مختلف علاقوں میں بھی پھیل گئی۔

برما میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے بارے میں خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ عوامی حکومت کے دور میں فوج نے جو خلاف ورزیاں کی ہیں ،ان پر وار کرائم اور کرائمز اگینسٹ ہیومینٹی قرار دیا جا سکتا ہے ۔
خصوصی نمائندے نے 2010ءمیں اقوام متحدہ کو اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ اس معاملے پر فیکٹ فائینڈنگ مشن تشکیل دیا جائے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے مطابق برما فوج عرصہ سے نسلی گروپوں کے خلاف مسلح جارحیت، بیگار،ہلاکتوں ،تشدد،نسلی اقلیت کے لوگوں کے علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنے اور ریپ کوان کو خوفزدہ کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
فوج کی طرف سے قتل عام کے کئی واقعات درج ہوئے ہیں۔یو این ہیومن رائٹس کونسل نے کہا ہے کہ برما حکومت مغربی اراکان میں بدھ مت کے افراد اور روہنگیامسلمانوں کے درمیان فسادات کی لازمی تحقیقات کرائے جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں اور ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر برما نے روہنگیا مسلمان مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اقدامات نہ کیے تو ملک میں وسیع مذہبی تقسیم کا خطرہ ہے اپنی ایک نئی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے بے گھر روہنگیا افراد کی نو آباد کاری میں ناکامی سے ” آبادی میں مذہبی تقسیم سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
“ ریاست راکین کے مرکزی شہر ستتوی میں تنظیم کے مطابق مسلمان آبادی اب ”مکمل طور پر علیحدہ ہوچکی ہے“۔نیویارک میں قائم اس تنظیم نے حکومت پر اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ بارشوں کے موسم میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ”انسانی المیہ“ پیش آ سکتا ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ کیمپ زیادہ تر زیریں علاقوں میں واقع ہیں اور سیلاب کی صورت میں یہاں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھوٹ سکتی ہیں۔ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ ہزاروں روہنگیا افراد خصوصاً کیمپوں سے باہر مقیم غیر اندارج شدہ پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد بھی ناکافی ہے۔
تنظیم کے مطابق برما کی حکومت مختلف امدادی ایجنسیوں کی طرف سے مدد فراہم کرنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روہنگیا قوم سے تعلق رکھنے والے دنیا کی اقلیتوں میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
برما انھیں اپنی شہریت دینے کے علاوہ بنیادی حقوق فراہم کرنے سے انکار کر چکا ہے اور یہاں انھیں بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس جب راکین ریاست میں یہ نسلی فسادات شروع ہوئے تو برما کی سکیورٹی فورسز نے اسے روکنے کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت کم کوشش کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف بعض واقعات میں حصہ بھی لیا۔

برما کی فوجی حکومت نے1982ءکے سٹیزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو برما کا شہری قرار نہیں دیا ۔اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں،فورسز کے افراد ہر جگہ ان کو چیک کرتے ہیں۔فورسز کے افراد ان کا ریپ کرتے ہیں اور ان سے پیسے بھی چھین لیتے ہیں۔ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔
غیر شہری قرار دیئے جانے کی وجہ سے روہنگیا اور دوسرے مسلمان برما میں کسی بھی قسم کی ملکیت نہیں رکھ سکتے۔انہیں حکومت کو یہ تحریری عہد نامہ بھی دینا پڑتا ہے کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔شادی پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں عائید ہیں۔

اقوام متحدہ 2005ءسے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں موجود روہنگیا افراد کی کچھ مدد کر رہا ہے ۔
اقوام متحدہ ان کیمپوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔
برمی حکومت کے سخت ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا واپس اراکان نہیں جا سکتے۔
بنگلہ دیش میں انہیں مناسب سہولیات حاصل نہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔
گزشتہ سالوں میںکافی تعداد میں روہنگیا تھائی لینڈ داخل ہوئے جنہیں تھائی حکومت نے برما کی سرحد کے ساتھ ہی 9کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔
حال ہی میںشمالی تھائی لینڈ میں مہاجرین کے ایک کیمپ کی جھونپڑیوں میں آگ لگنے سے تیس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
کافی تعداد میں یہ افراد سمندری راستے سے مختلف ملکوں کی طرف جانے کی کوشش میں سمندر کا نشانہ بن چکے ہیں۔برما میں روہنگیا کے خلاف ہلاکتوں،عصمت دری،غارت گری ،تشدد،جبری مشقت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
انسانی حقوق تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرین کے کیمپوں میں خوراک مہیا کرنے کی اجازت دی جائے۔

روہنگیا اراکان صوبے سے تعلق رکھتے ہیں جس پر برما نے1700ءمیں قبضہ کیا۔اس وقت روہنگیامسلمان برما میں 8لاکھ،بنگلہ دیش میں 3لاکھ،پاکستان میں 2لاکھ،تھائی لینڈ میں ایک لاکھ اور ملائیشیا میں 24ہزار کی تعداد میں موجود ہیں۔
قتل و غارت گری اور غیر انسانی سلوک کی وجہ سے برما سے بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہجرت پر مجبور روہنگیا مسلمانوں کو سرحدی علاقے میں ہی عارضی کیپموں میں رکھا گیا ہے جہاں ان کی حالت تکلیف دہ اور غیر انسانی ہے۔1785ءمیں اراکان پر برمیوں کے قبضے پر 35ہزار اراکانی لوگ ہجرت کر کے چٹاگانگ آ گئے۔
اس دوران برمیوں نے ہزاروں کی تعداد میں اراکانی افراد کو ہلاک کیا۔1799تک مسلمانوں کی ہجرت کا سلسلہ جاری رہا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال ایڈمنسٹریشن کو اراکان تک توسیع دی کہ بنگال اور اراکان کے درمیان کوئی سرحد موجود نہ تھی۔اور آمد و فرت پہ کوئی پابندی نہ تھی۔19ویں صدی میں چٹاگانگ سے بڑی تعداد میں بنگالی اراکان منتقل ہوئے اور ہزاروں اراکینی اراکان سے چٹاگانگ منتقل ہوئے۔
برٹش حکومت کی مردم شماری کے مطابق 1891ءمیں اراکان میں مسلم آبادی 58ہزار 225تھی جو 1911ءمیں بڑھ کر ایک لاکھ 78ہزار 647 ہو گئی۔
20ویں صدی میں ہندوستان سے بڑی تعداد میں لوگ سے برما منتقل ہوئے اور 1927ءمیں یہ تعداد چار لاکھ اسی ہزار تک پہنچ گئی ۔جبکہ مقامی آبادی اس وقت ایک کروڑ بیس لاکھ تھی۔
1942ءمیں 25ہزار سے زائد روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے بعد برٹش حکومت نے برما بالخصوص اراکان میں امیگرینٹس کی آمد کی صورتحال اور رکھنی بدھ مت اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان قدیم دشمنی کے بارے میں ایک خصوصی تحقیقاتی کمیشن جیمز ایسٹر اور ٹن ٹٹ کی سربراہی میں قائم کیا ۔
کمیشن نے اپنی سفارشات میں سرحد کو محفوظ بنانے کی تجویز بھی دی تاہم دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش حکومت نے اراکان کا اقتدار چھوڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوج برما میں داخل ہو گئی جو اس وقت برطانوی کالونی تھا۔
برطانیہ کے انخلاءپر برما میں بدھ مت اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے۔
برطانوی جمایت یافتہ مسلح روہنگیامسلمانوں نے حملہ آور جاپانی فوج اور برٹش ہندوستان کے درمیان بفر زون کا کام کیا۔روہنگیا مسلمانوں نے دوسری جنگ میں برٹش حکومت کا ساتھ دیا اور جاپانی فوج سے مسلح مزاحمت کی۔
جاپانی فوجیوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریپ،قتل کے سینکڑوں واقعات کئے۔اس وقت40ہزار روہنگیا مسلمان سرحد عبور کر کے برٹش علاقے بنگال میں ہجرت کر گئے۔

1947ءمیں روہنگیا رہنماﺅں نے شمالی اراکان میں جہاد کی تحریک کی حمایت میں مجاہد پارٹی قائم کی ۔اس کا مقصد اراکان کو ایک مسلم ریاست بنانا تھا۔
1962ءتک یہ تحریک بہت سرگرم رہی۔اس کے بعد بیس سال تک برما کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی کاروائیاں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
1978ءمیں ” آپریشن کنگ ڈریگون“ کیا گیا۔اس وقت بہت بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے بنگلہ دیش اور کافی تعداد میں کراچی پاکستان چلے گئے تھے ۔
” آپریشن کنگ ڈریگون“ میں برما میں فوجی آپریشن کرتے ہوئے ایک ایک شخص کو چیک کیا گیا کہ وہ ”غیر ملکی“ہے یا برما کا شہری ہے؟اس فوجی آپریشن کا نشانہ روہنگیا مسلمان خاص طور پربنے۔
اس انسانیت سوز آپریشن میں وسیع طور پر روہنگیا مسلمان ہلاک کئے گئے،عصمت دری ،مکانات ،مساجد کو بلانے کے بے شمار واقعات رونما ہوئے۔
1991-92ءکے دوران روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایسی ہی ایک اور لہر میں ڈھائی لاکھ روہنگیا مظلوموں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔برما میں روہنگیا انسانوں کو برمی فوج،پولیس کی طرف سے بھی جبری مشقت،معمولی بات پہ ہلاک کرنے ،تشدد،ریپ کے واقعات بڑی تعداد میں درج کئے گئے ہیں۔برمی فوج روہنگیا افراد سے تعمیراتی منصوبوں میں جبری مشقت بھی کراتی ہے ۔

حریت پسند روہنگیا مجاہدین اراکان کے دور دراز علاقوں میں اب بھی سرگرم ہیں۔ان حریت پسندوں کو بنگلہ دیشی مجاہدین کی حمایت حاصل ہے ۔
برما میں پچاس سال برمی نیشنل ازم اور تھراوڈا بدھ ازم کی بنیاد د پہ فوجی اقتدار رہا اور اس دوران روہنگیا،کوکانگ چینی باشندوں اور پنتھے چینی مسلمانوں کے خلاف شدید کاروائیاں کی گئیں۔اکثریتی برمی روہنگیا اور ان سے منسلک دوسری نسلوں کے مسلمانوں کو برما کے شہری نہیں سمجھتے۔

برما میں انسانی ہلاکتوں کے حالیہ واقعات نہایت دلخراش ہیں کہ ان میں زیادہ افراد کو زندہ ہی آگ لگا کر مار دیا گیا،کئی کو شدید تشدد سے۔میڈیا میں شائع تصویروں میں بچوں عورتوں سمیت جلی ہوئی انسانی لاشوں کے ڈھیر دور قدیم کی قتل و غارت گری کی یاد تازہ کر دیتی ہیں۔
برما میں شامل صوبہ اراکان کے روہنگیا مسلمان برما میں تو مسلسل انسانیت سوز کاروائیوں کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں ،افسوس در افسوس کہ جان بچا کر وہاں سے قریبی ممالک کی طرف بھاگنے والے افراد بھی بدترین صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا۔پاکستان میں موجود دو لاکھ روہنگیا برمی مسلمانوں کی حالت مناسب تو کیا باعث ندامت ہے ۔بلاشبہ برما میں روہنگیا باشندوں پہ ہونے والے قتل عام پر عالمی برادری کا موثر ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی مسلم اکثریتی ممالک کی طرف سے اس حوالے سے کسی مناسب ردعمل کا اظہار کیا گیاہے۔روہنگیا اور دوسری اقلیتوں کے خلاف برما میں ” عدم تشدد کے پرچاری“ بدھ مت کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل عام کی” داستان مسلسل“ آج کی جدید اور انسانی حقوق کی علمبرداری کی دعویدار دنیا کے لئے سوالیہ نشان ہے۔عام لوگوں کو مذہب، نسل، زبان، عقیدے،علاقے کی بنیاد پر نہایت ظالمانہ طور پر ہلاک کرنے کے انداز ظاہر کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں انسانیت کی ارتقائی ترقی دوسرے ممالک سے ابھی بہت پیچھے ہے۔برما میں روہنگیا اور دوسری اقلیتوں کی نسل کشی کی مسلسل تاریخ چلی آ رہی ہے،انڈیا میں بھی اقلیتوں کو جلا کریاتشدد سے ہلاک کرنا معروف و محبوب مشغلہ ہے اور یہ یہ رسم مختلف ناموں سے ہمارے ملک میں بھی ” معتبر“ انداز میں چل نکلی ہے۔میں کس منہ سے برما میں روہنگیا نسل کے انسانوں پر ہونے والے بھیانک مظالم کے خلاف آواز مذمت بلند کروں کہ میرے” پاک دیس“ میں بھی تو انسان کو مذہب کے نام پر مارا جاتا ہے،جلایا جاتا ہے،برباد کیا جاتا ہے۔ کیاآج کی انسانی نسل مذہب،نسل،زبان،علاقے،عقیدے یا کسی بھی بنیاد پر شدید نفرت کے خاتمے اور انسانی حرمت کی بالادستی کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے؟

Athar Massood Wani
ہماری ویب


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں