’صبر‘سے موت کے وقت جنت کی بشارت نصیب ہوتی ہے

’صبر‘سے موت کے وقت جنت کی بشارت نصیب ہوتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے گزشتہ جمعے کے بیان میں ایک مسلمان کی زندگی میں صبرواستقامت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا صبرکرنے والوں کو موت کے وقت جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔

آٹھ مارچ میں زاہدان شہر کے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بیان کا آغاز سورت البقرہ کی آیات 153-155 سے کیا۔ انہوں نے کہا: حدیث شریف کے مطابق اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت صبر ہے۔ صبر کا تعلق زندگی کے مختلف مراحل اور امور سے ہوتاہے؛ انسان کی کامیابی کا تعلق اسی سے ہے۔ جسے اللہ رب العزت صابرون میں شمار کرے درحقیقت اسے بہت وسیع نعمت نصیب ہوئی ہے۔

روزہ رکھنے کوصبر کی اہم مثالوں اور مصداقوں میں شمار کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ روزہ صبر کا آدھا حصہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ دار بندہ بھوک پیاس اور نفس کی خواہشات پر صبر سے کام لیتاہے۔ جو صبر کی نعمت سے محروم ہو وہ ہرگز ایسی سختیوں پر صبر کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ لہذا روزہ رکھنا انسان کی اصلاح نفس کیلیے بہت موثر و کارآمد ہے۔ نفس اور غرور توڑنے میں اس کی تاثیر بے مثال ہے۔ صابرکے پاس سب کچھ ہے۔

تلاوت شدہ آیات کی تشریح کرتے ہوئے ممتازسنی عالم دین نے کہا: اللہ تعالی نے ان آیات میں صبر اور نماز پر تاکید کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے نماز بندے کو خالق سے ملاتی ہے، بندہ نماز کے ذریعے اپنے رب سے رابطہ کرتاہے اور صبرواستقامت کی نعمت حاصل کرتاہے۔
اس کے بعد قتال اور اللہ کی راہ میں لڑائی کا تذکرہ آتاہے۔ شہدا کو مردہ نہ سمجھاجائے، وہ اللہ کے پاس حیات میں ہیں اگرچہ ان کی زندگی کی نوعیت آپ کی زندگی سے مخلتف ہے اور آپ ان کی حیات کی کیفیت نہیں سمجھ سکتے۔ سوال یہ ہے کیوں شہید کو اس قدر اعزاز دیاجاتاہے؟ جواب یہ ہے کہ شہید کو اس کے صبر کی وجہ سے نئی زندگی اور مختلف نعمتوں سے نوازا جاتاہے۔ شہید میدان جہاد سے نہیں بھاگ چکا اور صبر کرکے اللہ کے دشمنوں سے لڑچکاہے، اسی لیے ان انعامات کے مستحق ہے۔ تذکرہ صبر کے بعد شہید کا تذکرہ اسی لیے کیا گیا۔ نماز بھی صبر کرنے والوں کا کام ہے۔ نفس کے مقابلے میں استقامت دکھانے والے ہی نماز ادا کرسکتے ہیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ارشاد الہی ہے: ’’ولنبلونکم بشی من الخوف والجوع ونقص من الاموال۔۔۔‘‘ اللہ تعالی ہم انسانوں کو خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی اورنقصان جیسی چیزوں سے آزماسکتاہے تاکہ معلوم ہوجائے کون صبر سے کام لیتاہے۔ صبر کا مطلب یہی ہے کہ بندہ ہر مصیبت وبلا کے مقابلے میں صبروخودداری کا مظاہرہ کرے۔ اللہ تعالی مختلف مصائب سے بندے کا امتحان کرکے اس کی تربیت فرماتاہے۔ تجربے سے اس بندے کو صابراور صاحب استقامت بنادیتاہے اور بالاخر اسے گناہوں سے پاک کرتاہے۔ لہذا یہ امتحان وآزمائش اللہ کی رحمت ہے؛ جب اس آزمائش میں بندہ کامیاب وسرخرو نکلے تو اس کے تمام گناہ پاک ہوجائیں گے اور جنت اس کی منزل ہوگی۔

آیت پاک کی روشنی میں گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا: دولت اورنعمت کی فراوانی میں صبر سے کام لینا صبر کی اہم مثال ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالی بندے کو مال ودولت سے آزماتاہے۔ چونکہ بندہ دولت وپیسے سے مختلف قسم کے گناہوں کا ارتکاب کرتاہے۔ مالدار لوگوں کیلیے متعدد گناہوں کا امکان وسہولت پیدا ہوجاتاہے۔ لیکن جب مالدار افراد صبر سے کام لیں اور اپنا پیسہ غلط کاموں پر خرچ نہ کریں تو وہ صابرون سے ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ ہمارے لیے گناہ سے امتناع پر صبر کرنا مال ودولت کی زیادتی پر صبر کرنے سے زیادہ آسان تھا۔ گناہ لوگوں کی نظر میں پرکشش ہوتے ہیں، لیکن جب بندہ صبر سے کام لیتاہے اور نفس پر قابو پاتاہے تو اللہ تعالی اس کی حفاظت فرماتاہے۔ نفس کی خواہشات اور ہواؤں پر قابو پانے کیلیے صبر کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: پوری زندگی میں تا دم موت طاعت وبندگی پر صبر کرنا مؤمنوں کا کام ہے۔ صابرلوگ پنج وقتہ، جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں، دوسرے انسانوں کے حقوق کاخیال رکھتے ہیں اور اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام سات سال تک بستربیماری پر رہے، سب نے ان کو اکیلا چھوڑدیا سوائے ان کی بیوی کے جو ان کی خدمت کرتی رہی۔ سات برس بعد شیطان ان کی بیوی کو دھوکہ دینے کیلیے کمربستہ ہوا اور اس کی زبان پر شرکیہ کلمات لایا تو ایوب علیہ السلام نے دعاکی: ’رب انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین‘۔ اس دعا کے نتیجے میں اسے صحت اور مال و اولاد کی نعمتیں عطا کی گئیں۔ جو صبر سے کام لیتاہے اس کا انجام ایسا ہی ہوتاہے۔ یہی حال تھا حضرت یوسف علیہ السلام کا جو عین شباب میں انہوں نے گناہ سے روگردانی کی اور گناہ سے بھاگ گیا تو بند دروازے اس کیلیے کھول دیے گئے۔ صبرکرنے والوں کیلیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، انہیں موت کے وقت جنت کی بشارت سنائی جاتی ہے۔

مدارس وعصری جامعات کے طلبہ ہماری امیدیں ہیں
اپنے بیان کے آخری حصے میں حضرت شیخ الاسلام نے حال ہی میں منعقد ہونے والے اجتماع کی جانب اشارہ کیا جہاں ایران کی مختلف یونیورسٹیوں کے سنی طلباء دارالعلوم زاہدان کے احاطے میں اپنے علما و دانشوروں سے ملنے کیلیے اکٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا: ہرسال مختلف ملکی یونیورسٹیوں کے معزز طلبا اپنے علما سے ملنے اور دین کی بات سننے کیلیے دارالعلوم زاہدان میں جمع ہوجاتے ہیں۔ ایسی ملاقاتوں کا مدارس اور عصری جامعات کے درمیان اتحاد پیدا کرنے میں بہت اثر ہوتاہے ۔ طلبہ کا شمار ہمارے معاشرے کے بہترین افراد میں ہوتاہے۔ ہمارے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہیں ورنہ ہم خود ان کے پاس چلے جاتے اور انہیں زحمت نہ دیتے۔

انہوں نے کہا: کوئی بھی مسلم معاشرہ دینی وعصری علوم کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ ہمیں دونوں علوم کی ضرورت ہے۔ شرعی و عصری علوم معاشرے کی ترقی وکامیابی کے دو بازو ہوتے ہیں۔ لہذا دونوں علوم کے طلبا کی کامیابی کیلیے خیر کی دعا کرنی چاہیے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان آتے ہوئے بعض طلبہ کیلیے سرکاری سنگ راہ پیدا کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اگرچہ طلبہ کی بڑی تعداد نے اس اجتماع میں شرکت کی جنہوں نے دین کی باتیں سنیں اور یہاں انہیں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی جو دینداری کے زیور سے آراستہ ہو لیکن افسوس کی بات ہے کہ متعدد طلبہ کو زاہدان پہنچنے ہی نہیں دیاگیا۔ ہمیں یقین ہے جب تک معاشرے میں دینی و علمی انقلاب بپا نہ ہو کوئی اور مثبت تبدیلی ہاتھ نہیں آسکتی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں