رپورٹ: شیخ الاسلام مرکزی وجنوبی بلوچستان کے دورے پر (پہلی قسط)

رپورٹ: شیخ الاسلام مرکزی وجنوبی بلوچستان کے دورے پر (پہلی قسط)

صدرشورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید چند دن قبل ایرانی بلوچستان کے بعض مرکزی اور جنوبی شہروں اور علاقوں کے تبلیغی و تعلیمی دورے پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے متعدد تقاریب اور عوامی مجالس میں شرکت کی۔
سولہ فروری سے اکیس فروری تک جاری رہنے والے اس دورے میں حضرت شیخ الاسلام نے خطے کے علمائے کرام اور دینی وسماجی کارکنوں سے ملاقات کے علاوہ عوام سے بھی گفتگو کی اور سب کو دینی احکام کی پابندی کی نصیحت کی۔

’دامن‘ کا دورہ
پہلے اسٹاپ میں خطیب اہل سنت زاہدان اور ان کے ساتھی ’دامن‘ نامی سب تحصیل میں قیام پذیر ہوئے جہاں آپ نے عوام کے جم غفیر سے خطاب کیا۔
دامن ایرانشہر سے بیس کلومیٹر دور ہے۔ یہاں کے علماء واساتذہ کافی سرگرم ہیں۔ اسی تحصیل کے ’زہلنفان‘ بستی میں مدرسۃ البنات خدیجۃ الکبریٰ میں 250طالبات زیرِتعلیم ہیں جبکہ دینی مدرسہ میں 50طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس تحصیل میں متعدد دینی مدارس اورسرکاری سکولز سرگرم ہیں اور عوام کی تعلیمی صورتحال کافی مناسب ہے۔ چنانچہ 500کے قریب اساتذہ اس علاقے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے دامن سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان مختلف یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اس تحصیل کی جامع مسجدمیں منعقد ہونے والی تقریب میں مقامی عالم دین مولوی عبداللہی نے سب سے پہلے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور خطے میں دینی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک مختصر کارگزاری پیش کی۔ ان کے بعد خاش کے خطیب اہل سنت مولانا محمدعثمان اسٹیج پر آئے جنہوں نے قرآن پاک کی تعلیم وتعلم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

نشست کے آخری خطیب شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم العالیہ تھے۔ آپ نے سب سے پہلے بلوچستان کے ممتاز عالم دین ’مولانا نظرمحمد دیدگاہ‘ اور ان کے صاحبزادے مولوی ظفرمحمد کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مذکورہ تقریب کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا۔

انہوں نے کہا: اللہ تعالی کا خصوصی رحم وکرم کی بدولت ہمیں اسلام کی نعمت عظمی نصیب ہوئی اوراللہ تعالی نے اپنی محبوب ترین نعمت ہمیں عطا فرمائی۔ صحابہ کرام اسی نعمت کی برکت سے عزت وسیادت پاگئے اور دنیاوالے ان کے قدموں کے نیچے گرگئے۔ صحابہ کرام نے نعرے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اسلام کے تمام احکام پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کا مسلمان دیگر تہذیبوں سے متاثر ہے اور ان کی پیروی میں فخر محسوس کررہاہے! مسلمانوں کا ایمان اس قدر کمزور ہوچکاہے کہ اب انہیں گناہ سے بھی نہیں روک سکتا۔ لہذا مسلمانوں کی عزت وکامیابی کا واحد راستہ اسلام کی جانب واپس لوٹ جاناہے۔

حضرت شیخ الاسلام ’ایرانشہر‘ میں
اتوار کی رات مولانا عبدالحمید اور ان کے ساتھی مرکزی بلوچستان کے اہم شہر ’ایرانشہر‘ چلے گئے جہاں شہر کے باہر علمائے کرام، عمائدین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ جامعہ شمس العلوم کی نئی عمارت کا دورہ کرنے کے بعد آپ جامع مسجد نور پہنچ گئے جہاں عوام اور خواص کی بڑی تعداد ان کا خطاب سننے کیلیے اکٹھی ہوئی تھی۔

جامع مسجدنور کے خطیب مولوی طیب ملازہی نے حضرت شیخ الاسلام اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی آمد کو شہر کیلیے خیروبرکت کا باعث قرار دیا جس پر ایرانشہر کے علماء اور عوام فخر محسوس کررہے ہیں۔

ایرانشہر کے معزز شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: عصرحاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقیوں کے باوجود لوگوں کو پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان پریشانیوں کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد بھول چکاہے اور غفلت کا شکار ہوچکاہے۔ انسان کا خیال ہے اس کی تخلیق دنیا کی آبادی اور کھانے پینے کیلیے ہے؛ لیکن اگر تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوگا بنی نوع بشر کی تخلیق کا مقصد اللہ رب العزت کی ذات پر ایمان لانا اور اس کے سامنے جھکنا ہے، اس کی عبادت کرنا اور اسی کی بندگی کرنا مقصدزندگی ہے۔

انہوں نے کہا: تمام مخلوقات اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اس کی عظمت و بڑائی کو مانتے ہیں۔ مگر بعض سرکش اور متمرد انسان اور جن اللہ کی بڑائی کو تسلیم نہیں کرتے۔ سب سے بڑی عبادت جو قلب و دل سے عمل میں لایاجاتاہے توحید ہے۔ توحید یعنی اللہ تعالی کی یگانگی کا اقرار۔ جبکہ عملی عبادات میں سب سے اہم نماز ہے۔

ایرانشہری عوام سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مذہبی بنیادوں پر جھڑپوں اور لڑائیوں کو بدترین لڑائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا: بعض ممالک میں لوگوں کو صرف ان کے عقائد اور مسلک کی وجہ سے قتل کیاجاتاہے؛ آئے دن کئی افراد شام، مالی اور بعض دیگر ملکوں میں ٹکرے ٹکرے ہوتے ہیں، یہ بشر کی سنگدلی کا بدترین مظاہرہ ہے۔ اگر مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو پوری کریں اور گناہ ومعاصی سے پرہیز کریں تو انہیں ہرگز ایسے دلسوز مناظر دیکھنا نہیں پڑے گا۔ ہم سب کو اپنا معاشرہ پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اسلام پسندی کی لہر مشرق وسطی تک محدود نہیں
اپنے بیان کے ایک حصے میں مہتمم دارالعلوم زاہدان نے بعض اسلامی ممالک میں’ اسلامی بیداری‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج کل مشرق وسطی میں مسلم عوام اسلام طلبی کا مظاہرہ کررہے ہیں جو ان کی ایمانی غیرت وحمیت کی نشانی ہے۔ ایسے ملکوں میں اسلام پسندی زور پکڑرہاہے جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ البتہ یہ اسلام پسندی مشرق وسطی تک محدود نہیں؛ بعض یورپی ممالک میں بھی ’اللہ اکبر‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہوتے ہیں اور متعدد ممالک میں لوگ اسلام اور اسلامی شریعت چاہتے ہیں۔ کسی زمانے میں ترکی میں آمریت قائم تھی اور آتاترک جیسے افراد اسلامی شعائر سے مقابلہ کررہے تھے، لیکن آج ترکی قوم آگاہ ہوچکی ہے اور لوگ اسلام و ایمان اور نیک اعمال کی جانب لوٹ رہے ہیں۔

ایرانی اہل سنت رواداری واتحاد کے علمبردار ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیدنے ایران کی سنی برادری کو روادار اور اتحادکے متمنی قرار دیتے ہوئے اہل سنت کے جائز مطالبات اور آئینی حقوق کی تکمیل پر زور دیا۔

ایرانی بلوچستان کے مرکزی شہر ’ایرانشہر‘ کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: الحمدللہ ایران کی سنی برادری رواداری، صبر اور اتحاد پر یقین رکھنے والی برادری ہے۔ اہل سنت ایران نے کسی بھی دور میں اپنی قوم اور ملک سے غداری نہیں کی ہے اور اپنا وطن اجنبیوں کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے۔ حتی کہ میری اطلاعات کے مطابق بعض لوگ بوجوہ ملک سے فرار ہوگئے اورجب دشمن ریاستوں کی جانب سے انہیں غداری کیلیے کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کیا۔ مفرور سنی شہریوں نے بھی غداری کو غلط سمجھا ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: جب ایرانی اہل سنت ایک وفادار برادری ہے تو بجا طور پر انہیں مساوات و برابری کی امید ہوسکتی ہے۔ اسی لیے ان کی خواہش ہے ملک میں شیعہ سنی کا فرق ختم ہوجائے اور سنی برادری کو دوسرے درجے کے شہری نہ سمجھا جائے۔ شیعہ علماء خاص کر رہبرانقلاب (آیت اللہ خامنہ ای) سے امید ہے ایرانی اہل سنت کے جائز حقوق پر خصوصی توجہ دیں اور ملک میں موجود سیاسی ومسلکی امتیازی سلوک کی بیخ کنی کریں۔

نامور سنی رہنما نے مزیدکہا: ہم ایران کے شہری ہیں اور ایران ہمارا وطن ہے۔ اکثر سنی سرحدی علاقوں میں آباد ہیں؛ اگر کوئی جنگ چھڑجائے تو سنی باشندے اپنے ملک کا دفاع کریں گے اور اپنے وطن کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر بہادری سے لڑیں گے۔ ہم بہادر اور جنگجو لوگ ہیں؛ بزدل اور کمزور نہیں ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا: یہ ایرانی اہل سنت کا حق ہے کہ  مذہبی حقوق سمیت سارے شہری حقوق انہیں مل جائیں۔ ہماری نظر میں شیعہ وسنی میں کوئی فرق نہیں ہے، ہمارے خیال میں کوئی شخص جو خود کو مسلمان کہلاتاہے یا غیرمسلم ہے اور مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی اور ان سے دشمنی میں ملوث نہیں ہے تو انسانی لحاظ سے وہ ہمارا بھائی ہے اور اس کیلیے ہم نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ہمارا مطالبہ ہے جن ممالک میں شیعہ حضرات اقلیت میں ہیں ان کے حقوق کا خیال رکھاجائے۔ شیعہ سنی تفریق وامتیاز سے اللہ تعالی کی رضامندی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اگر حکام اور علماء یکساں برتاؤ رکھیں تو اس سے اللہ تعالی راضی ہوگا۔ امتیازی سلوک کے خاتمے پر ہم ہمیشہ زور دیتے رہیں گے۔ اسلام اور ملکی آئین کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پوری قوم کو مساوی حقوق دیے جائیں؛ اپنے اور پرائے کی تفریق ختم ہونا چاہیے۔

ایرانشہر کی جامع مسجدنور میں اکٹھے ہونے والے سینکڑوں افراد کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارا مطالبہ آپ سے یہی ہے کہ آپ اسلامی شریعت کے احکام پر پابندی سے عمل کیا کریں۔ جب ہم نے اسلام قبول کیا تو ہم نے دراصل اسلام کے تمام احکام و دستورات کو بھی مان لیا ہے۔ یاد رکھیں اب تک کوئی قوم غربت کی وجہ سے ہلاک وبرباد نہیں ہوچکی ہے لیکن جس قوم نے اللہ کے احکام سے دوری اختیار کی اور گناہ ومعصیت میں مبتلا ہوگئی تو تباہی وبربادی ان کا انجام بن گیا۔

دارالعلوم حقانیہ میں علمائے کرام اور تبلیغی کارکنوں کا اجتماع
اتوار کی صبح حضرت شیخ الاسلام ایرانشہر کے ممتاز دینی ادارہ دارالعلوم حقانیہ میں منعقد علمائے کرام اور دینی کارکنوں کے اجتماع میں شریک ہوئے۔

اپنے خطاب کے آغاز میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مذکورہ اجتماع کے انعقاد پر خوشی ومسرت کا اظہار کیا اور ایسی محافل کو علمائے کرام کی ذمے داریوں کی وضاحت وتشریح کیلیے مناسب موقع قرار دیا۔

آل عمران کی آیت نمبر18 کی روشنی میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یہ علمائے کرام کیلیے باعث فخر وشرف ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی توحید ویگانگی کے ثبوت کیلیے اہل علم کو گواہ پکڑتاہے۔ لیکن علماء کی جتنی عزت زیادہ ہے اتنی ہی ان کی ذمے داریاں بھی سنگین ہیں۔ اگر علما اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی پوری کریں تو انہیں اجرمضاعف ملے گا، بصورت دیگر انہیں دوچند سزا بھگتنا پڑے گا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے صدر شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت نے ’علوم دینی کی تعلیم وتدریس‘ اور ’تبلیغ دین‘ کو علماء کی اہم ذمے داریوں میں شمار کیا۔ انہوں نے کہا: دین کی بقا کا راز اس کے متعلقہ علوم کی تدریس و تعلیم میں ہے۔ لہذا دین کی تعلیم کو مدارس تک محدود نہ کیاجائے۔ بلکہ مساجد میں بھی قرآنی حلقے منعقد کیے جائیں اور بطورخاص سکولوں کے طلبہ کی تعلیم کیلیے علمائے کرام باہمی مشاورت سے منصوبہ بندی کریں۔

تعلیم دین کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین بھی علمائے کرام کی ذمہ داری ہے؛ انبیائے کرام علیہم السلام کی کوشش تھی ان کی امت شیطان کا شکار نہ ہوجائے۔ لہذا علماء اس حوالے سے بھی محنت کریں۔ علماء کیلیے بہترین لباس تقوی کا لباس ہے بڑا جبہ نہیں۔ ہرماہ اہل علم اکٹھے ہوکر فکردین کریں اور اپنے امور کو باہمی مشاورت سے آگے چلائیں۔

دینی وتعلیمی آزادی سے اہل سنت کی حیات ممکن ہے
ایرانشہر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام سے خطاب کے دوران مہتمم دارالعلوم زاہدان نے اہل سنت کی مذہبی آزادی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: مذہبی آزادی اور مدارس ومساجد کی آزادی سے اہل سنت کی بقا ممکن ہے۔ اگر ہماری آزادی چھین لی گئی تو ہمارے پاس کھونے کیلیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہم اپنے تمام منافع سے چشم پوشی کیلیے تیار ہیں لیکن دینی مسائل کی آزادی پر سمجھوتے کیلیے نہیں۔ مساجد کے ائمہ کا انتخاب ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ ہر مسلک کی مساجد کا اختیار متعلقہ مسلک کے پیروکاروں کے پاس ہونا چاہیے۔

اسلام، قرآن پاک اور قانون نے ہمیں آزادی دی ہے، کوئی خدا کی دی ہوئی آزادی کو ہم سے نہیں لے سکتا۔ جس قانون اور آئین نے حکام کی حاکمیت کو قانونی حیثیت دی ہے اسی قانون نے ہمیں آزادی ہے۔ لہذا آزادی ہمارے لیے بہت اہم اور حیاتی ہے۔ ہماری آزادی سے کسی حکومت یا مسلک کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ الحمدللہ ہمیں کسی حدتک آزادی حاصل ہے لیکن ایسی آزادیاں پورے ملک میں ہونی چاہییں حتی کہ اگر کسی علاقے میں اہل سنت اقلیت میں ہوں؛ تمام شہروں میں اہل سنت کو نمازجمعہ و عیدین قائم کرنے کی اجازت و آزادی حاصل ہونی چاہیے۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: ہم کسی بھی فرد یا حکومت کو اپنے مذہبی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہر مسلک کے دینی امور کا تعلق اسی مسلک سے ہے۔ تبلیغی جماعت کی آزادی ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن سنی علمائے کرام کی طرح تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور قانون کے تحت کام کرتے ہیں۔ اہل سنت کے مطالبات آئین کے خلاف نہیں اور ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔

آزمن آباد میں جلسہ
حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید اپنے ساتھیوں سمیت اتوار سترہ فروری دوہزارتیرا کے دوپہر کو ’آزمن آباد‘ بستی تشریف لے گئے جہاں آپ نے جامع مسجد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں عوام سے خطاب کیا۔

مولانا عبدالحمید نے نوجوانوں کی والہانہ مشارکت اور استقبال کو ان کی دینداری و دین دوستی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے ہم انسانوں کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے؛ آفاقی نعمتوں کے علاوہ صحت وتندرستی وغیرہ جیسی نعمتوں کو اکٹھی کی جائے تو نعمت دین کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سب سے بڑا سرمایہ ایمان کا سرمایہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہمیں بندگی کا طریقہ سکھایا گیا۔ سعادت و کامیابی کی راہ صرف وہی ہے جو آپﷺ نے ہمیں بتایاہے۔ لہذا اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑکر قرآن پاک سیکھیں، اس کی تلاوت کیا کریں اور اپنی دنیا وآخرت اس طرح آباد کریں۔

محمدان شہر میں خطاب
اتوار کی شام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم اور ان کے ساتھی ’محمدان‘ شہر کی جانب روانہ ہوگئے۔ محمدان کے عوام نے بھی انتہائی گرمجوشی سے حضرت شیخ الاسلام کا استقبال کیا۔ محمدان ایرانشہر-چابہار روڈ پر واقع ہے جہاں ایک دینی مدرسہ (مصباح العلوم) اور چار مدرسۃ البنات سرگرمِ عمل ہیں۔

محمدان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: قرآن پاک صرف اپنے زمانہ نزول کی جاہلیت ختم کرنے کیلیے نہیں اتراہے، یہ عظیم آسمانی کتاب ہر دور کی جاہلیت کی بیخ کنی کیلیے بہترین کتاب ہے۔ ہر مسلمان کیلیے اسے سیکھ کرتلاوت کرنا ضروری ہے چاہے مردہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ مسلمانوں کی حیاتِ نو اسی کتاب میں ہے۔

ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: اسلام نے تمام انسانوں کیلیے حقوق مقرر کیاہے، کسی بھی شخص کو جس کا تعلق کسی بھی مسلک یا مذہب سے ہو قابل گردن زنی قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اگرکسی مسلم اکثریت ملک میں بعض اقلیتوں پر تعرض ہوتاہے تو اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر آسکتاہے اسلام پر ہرگز نہیں! امیدہے جن ملکوں میں انقلاب بپا ہواہے اور آمریت کا خاتمہ ہوچکاہے وہاں کے حکمران دنیاوالوں کو اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں