شادی معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھتی ہے

شادی معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھتی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ (یکم مارچ2013ء) میں اسلامی ثقافت میں ’شادی‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: شادی کے مسئلے پر توجہ دینے سے معاشرہ مختلف قسم کی برائیوں سے محفوظ رہ جائے گی، لہذا والدین اپنے بچوں اور بچیوں کی بروقت شادی کرادیں۔

اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖؕوَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ، (اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا ان کو اپنے فضل سے خوشحال کر دے گا اور خدا (بہت) وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے) کی تلاوت سے کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اللہ تعالی کی حکمت و تدبیر سے شادی انسان کے سکون وآرام کا سامان ہے۔ نسل انسانی کی بقا اور ازدیاد بھی اسی شادی کے ذریعے ممکن ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو مرد اور عورت کی شکل میں خلق فرمایاہے؛ ان میں ہرفرد جنس مخالف کے ساتھ ہی کامل بن سکتاہے، یہ کام شادی سے ممکن ہے۔ انسانی زندگی کی تکمیل مشترکہ ازدواجی زندگی میں ہے۔

نامور عالم دین نے مزید کہا: شادی انتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ اسلام سمیت تمام ادیان اور تہذیبوں نے اس مسئلے کی اہمیت واضح کردی ہے۔ لیکن جتنی اہمیت اسلام نے شادی کو دی ہے اتنی اہمیت کسی بھی دین میں نہیں ہے۔ قرآن پاک میں متعدد آیات شادی کے احکام اور مسائل پر موجود ہیں اور اسلامی مصادر میں بہت سارا مواد اسی موضوع پر خاص ہے، اس سے واضح ہوتاہے شادی کس قدر اسلام میں اہم ہے۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے ’’و انکحوا الایامیٰ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہا: اس آیت میں خاندان کے بڑوں کو وصیت کی گئی ہے کہ غیرشادی شدہ افراد کی شادی کرادیں اور مناکحت طلب مرد کی غربت کو بہانہ مت بنائیں۔ وجہ یہ ہے کہ شادی اور بال بچے خود رزق و روزی میں وسعت کے اسباب ہیں۔ خواتین اور بچے ہرگز معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں چونکہ سب کی روزی کا ذمہ دار اللہ تعالی کی ذات اقدس ہی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’انما ترزقون و ترحمون وتنصرون بضعفائکم‘‘، اللہ کا رزق اور رحم تم پر ہوگا اور تمہارے کمزوروں کی مدد ہوگی۔

معاشرے میں شادی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: جس معاشرے میں لوگ دیر سے شادی کرتے ہیں یا بالکل شادی کو اہم نہیں سمجھتے ہیں، وہاں فساد اور سیاہ کاری عام ہوجاتی ہے۔ ایسے معاشرے تباہی و بربادی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں شادی پر زور دیاجاتاہے، نوجوان جلدی شادی کرتے ہیں، وہاں حیا و عفت اور برکات کا ازدیاد ہوگا۔ بعض منفی پروپگینڈوں کے برعکس شادی ہرگز تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؛ تجربے سے ثابت ہوا ہے شادی شدہ طلبہ و طالبات کی تعلیم شادی کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔ لہذا والدین اور خاندان کے سرپرست حضرات نوجوانوں کی شادی کیلیے فکرمند رہیں اور شادی کے اسباب فراہم کریں۔ حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تین امور میں تعجیل و جلدی کی جائے: پہلی چیز نماز ہے جسے بروقت پڑھنی چاہیے، دوسرا مسئلہ میت کا ہے جس کی تکفین و تدفین جلدی ہونی چاہیے۔ تیسرا امر شادی ہے؛ اگر کسی کی بیٹی کیلیے مناسب رشتہ آئے اور لڑکی بالغ ہو تو دیر نہ کی جائے۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: شادی کے مسئلے پر بیٹیوں کی رائے لینی چاہیے، ان کی رضامندی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوگا۔ اگر خاتون بیوہ ہے تو صراحت کے ساتھ اسے شادی کی وکالت دینی چاہیے۔ نیز مناکحت کے طلبگار حضرات براہ راست لڑکیوں سے وعدہ نہ کریں، بلکہ جس سے شادی کرنی ہے اس کے والد یا بڑے بھائی کو بتانا چاہیے۔ اس حوالے میں مناسب خاندانی آداب کو مدنظر رکھاجائے۔ کوئی خاتون اکیلی شادی کیلیے کمربستہ نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے خواتین کو عزت دی ہے۔

اپنے بیان کے پہلے حصے کے آخر میں خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے کہا: شادی بیاہ کی تقاریب میں اسراف اور مقابلے سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔ شادی میں آسانی و سادگی سے کام لینا چاہیے۔ ابتر معاشی صورتحال کی وجہ سے نوجوانوں کیلیے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوگیاہے۔ ولیمہ نکاح میں سینکڑوں افراد کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تقریب مختصر ہو اور تکلف سے دوری کی جائے۔ نیز شادی کی تقاریب میں حرام امور سے پرہیز ضروری ہے مثلا گانا، میوزک اور رقص و ناچ سے دوری کی جائے۔ اس کی جگہ مناسب اسلامی نظمیں پڑھی جائیں یا قرآن پاک کی تلاوت اور تقاریر سے مجلس کو پربرکت بنادی جائے۔

‘بلوچستان’ ہماری قومی شناخت ہے
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں ایرانی صوبہ ’سیستان بلوچستان‘ کی تقسیم کی افواہوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’بلوچستان‘ کے نام مٹانے کی کوشش پر اعلی حکام کو خبردار کیا۔

ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں خطبہ جمعہ کے دوران ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: بعض ذمہ دار افراد سے سناگیا ہے کہ صوبہ سیستان بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا پلان تیار کیاجارہاہے جس میں ’بلوچستان‘ کا لفظ شامل نہیں ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ موجودہ صوبہ کو صوبہ ’سیستان‘، ’مکران‘ اور ’ولایت‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں میں تشویش کی لہر دوڑی ہے۔ علمائے کرام، اکیڈمی شخصیات، قبائلی عمائدین، طلبہ اور دیگر طبقے کے لوگوں کو اس بات پر سخت تشویش ہے۔ یاد رکھیں ’بلوچستان‘ ہماری قومی شناخت اور تاریخ کا لاینفک جزو ہے۔ بعد میں ’سیستان‘ کا اس میں اضافہ کیاگیا۔ اگر کوئی بلوچستان کا لفظ ختم کرنا چاہے ہم اسے اپنی قوم کا دشمن سمجھ لیں گے۔ (عوام کا نعرہ تکبیر)

مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: اگر صوبے کی تقسیم کے سوا کوئی چارہ نہیں، تو صوبہ خراسان کا تجربہ سب کے سامنے ہے جہاں خراسان کو تین صوبوں میں تقسیم کیا گیا لیکن ’خراسان‘ کا لفظ محفوظ رہا۔ لہذا وزارت داخلہ اور گورنرہاؤس کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ بعض عناصر لوگوں کی قومی و ثقافتی شناخت کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ کسی بھی صورت میں ’بلوچستان‘ کا لفظ محفوظ رہنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کا کوئی طبقہ بلوچستان کے نام مٹانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گا۔ عوام کیلیے ناقابل قبول ہے کہ صوبے کی تقسیم کسی مخصوص گروہ کے مفادات کی خاطر عمل میں لائی جائے۔

خطیب اہل سنت اور رکن عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین نے مزیدکہا: اگر صوبے سے منتخب ارکان پارلیمنٹ اس حوالے سے خاموشی یا سستی کا مظاہرہ کریں تو عوام ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ (تکبیر)۔ عوامی نمائندوں کو اس موضوع کی چھان بین کرنی چاہیے۔ صوبے کی ممکنہ تقسیم اہل نظر، عمائدین اور عوام کی رائے اور خواہش کی روشنی میں ہونی چاہیے۔ ہمیں یقین ہے وزارت داخلہ اور حکومت عوام کی ناراضگی نہیں چاہتے، لیکن ممکن ہے بعض عناصر دوسرے راستوں سے سرگرم ہوجائیں اور غلط رپورٹس بھیج کر اپنی خواہش کے مطابق صوبے کی تقسیم کی کوشش کریں۔

اپنے اہم خطاب کے دوران پاکستان میں بدامنی کی نئی لہر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ممتاز سنی عالم دین نے مزیدکہا: حال ہی میں پاکستان کے بعض شہروں میں دینی شخصیات اور علمائے کرام سمیت بعض اقلیتوں کو نشانہ بنایاگیا جو افسوسناک بات ہے۔ ایسے واقعات پاکستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں جو اس برادر اسلامی ملک کیلیے المیہ ہے۔ پاکستانی قوم اور حکام کو موجودہ بحران سے نجات پانے کی سخت محنت کرنی چاہیے۔ امیدہے پاکستانی حکام دوراندیشی اور سمجھداری سے ایسے مسائل اور مشکلات کی بیخ کنی کیلیے کوشش کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں