طالبان سے مذاکرات مجبوری نہیں دانشمندی

طالبان سے مذاکرات مجبوری نہیں دانشمندی

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی کا اعلامیہ دیر آید درست آید کا مظہر ہے خون کے دھبے بارود کے بجائے مذاکرات کے پانی سے دھونے پر 24 جماعتوں کا اتفاق رائے ہر امن پسند پاکستانی کے لئے اطمینان بخش ہے۔
مقامی تحریک طالبان کس طرح وجود میں آئی؟ یہ امریکی جنگ میں پاکستانی شمولیت کا ردعمل تھا؟ افغان طالبان، پاکستان کی بے وفائی کا شاخسانہ؟ قبائلی علاقوں میں مغربی کارروائیوں کا نتیجہ؟ شکئی اور وانا معاہدوں کی خلاف ورزی نے عسکریت پسندوں کو کتنا مشتعل کیا اور لال مسجد میں یتیم بچیوں کی شہادت نے دہشت گردی کو کتنا ایندھن فراہم کیا؟ یہ بحث اب فضول ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ ہم طاقت کے زور پر عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں بالکل ناکام رہے۔
امریکہ افغانستان میں اجنبی تھا، زمینی حقائق سے بے خبر اور طاقت و ٹیکنالوجی کے نشے میں چور مگر ہم تو قبائلیوں کے مزاج، رسم و رواج، مارو یا مر جاؤ کے انداز فکر اور اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے اصنام یعنی عسکریت پسندوں کی گوریلا تربیت، مقابلے کی اہلیت و صلاحیت اور نظریاتی کمٹ منٹ کے علاوہ یکسوئی کے واقف تھے ہم نے مناسب تیاری، قوم کے اطمینان قلب اور ایک سے عوامی نفرت کا ادراک کئے بغیر اس جنگ میں کودنے کا احمقانہ فیصلہ کیوں کیا یہ سوال آج تک جواب طلب ہے زوال پذیر معاشی و انتظامی ڈھانچہ، جوش و جذبے سے محروم ریاستی ادارے اور اثاثوں، جائیدادوں اور بینک بیلنس میں اضافے کے خواہش مند حکمران سیاستدان اور مغربی جرنیل جان ہتھیلی پر لئے پھرنے والوں کا محدود مالی وسائل، امریکی پشت پناہی اور چند ہتھیاروں کے ساتھ کس طرح مقابلہ کریں گے یہ بھی کسی نے نہ سوچا؟ جس کی وجہ سے مغربی افسروں اور جوانوں سمیت چالیس ہزار قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد اگر سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی اے این پی اگر مذاکرات کی خواہش مند ہے تو بعض حلقوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے اور ریاست کی رٹ تسلیم کرنے کی پیشگی شرط ناقابل فہم ہے جبکہ حاجی غلام احمد بلور یہ واضح کر چکے ہیں کہ کوئی پختون ہتھیار ڈالنے پر مر جانے کو ترجیح دے گا۔
یہ حقیقت اب ہمارے دانا و بینا سیاستدانوں، حکمرانوں اور عقل کے بجائے بھاری بھر کم بوٹوں سے سوچنے والوں کو تسلیم کر لینی چاہئے کہ مقامی تحریک طالبان نہ ہو، کسی اور سے بہتر شرائط پر مذاکرات کا وقت اب ہے۔ امریکی فوج بوریا بستر لپیٹ کر افغانستان سے نکل گئی، ملا محمد عمر کے پیروکار، فاتحانہ انداز میں کابل، قندھار، اور جلال آباد میں داخل ہو گئے تو پاکستان میں ان کا دم بھرنے والے عسکریت پسندوں کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور ان کی کارروائیوں میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
اے این پی ٹی ا ے پی سی نے پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کی طرح امن کو موقع دینے کی سہولت فراہم کی ہے ماضی میں ہم اپنی بے عملی، امریکہ کے دباؤ اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ مذاکرات کو اپنی کمزوری سمجھا حالانکہ یہ کمزوری نہیں دانشمندی ہے۔ اب جبکہ امریکہ خود دوحا میں افغان طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے صدر بارک حسین اوبامہ، بہر صورت 2014 میں انخلاء چاہتے ہیں میاں نواز شریف، سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمن موثر ثالثی کردار کے ذریعے مذاکرات اور امن کی طرف پیش رفت کر سکتے ہیں۔
اتحاد سازی کے اقدام کے طور پر طالبان کو کم از کم ایک ماہ تک دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کرنی پڑے گی تاکہ ایک طرف تو ان کی نیک نیتی ثابت ہو اور دوسری طرف تمام گروپوں پر مضبوط گرفت کا تاثر ابھرے جواباً قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن روکنے کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اس کے اس وقفے کے دوران باضابطہ مذاکرات کا طریقہ کار وضع کیا جائے اور عسکریت پسندوں کو یہ خوشگوار پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی ریاست کے بازو ایسے بگڑے ہوئے بچوں کے لئے بدستور کشادہ ہیں۔
اگر دونوں فریق کہا سنا معاف کر کے ایک دوسرے کو گلے لگانے پر آمادہ ہوں تو قیام امن کی ضمانت مل سکتی ہے۔ یہی بات جب کچھ قلمکار، مذہبی رہنما اور عمران خان کرتے تو انہیں بنیاد پرستی، طالبان نوازی اور عسکریت پسندوں سے ہمدردی کا طعنہ ملتا تھا۔ مگر اب سارے روشن خیال ترقی پسند، امریکہ کے پجاری اور مخالف سب کے سب مل کر انہی طالبان سے مذاکرات کی حمائت کر رہے ہیں چند ماہ قبل جن کا نام لینا جرم تھا۔ فارسی کی کہاوت ہے آنچہ کند دانا ہم کند ناداں و لیک بعد از خرابی بسیار (جو دانا کرتا ہے بالآخر نادان کو بھی وہی کرنا ہوتا ہے مگر ماضی خرابی اور تباہی کے بعد)
مگر یہ موقع طعن و تشنیع اور گڑے مردے اکھاڑنے کا نہیں۔ اے این پی کو سیاسی فائدہ ہو، یا نقصان پہنچے اس سے قطع نظر 24 جماعتوں کے اعلامیہ پر نیک نیتی سے پیش رفت ہونی چاہئے اور یہ اعلامیہ صوفی محمد سے ہونے والے معاہدے کی طرح کسی نئی فوجی کارروائی کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو۔ وانا اور شکئی کے علاوہ سوات معاہدوں کے حوالے سے ہمارا ٹریک ریکارڈ کچھ اچھا نہیں مگر اب شائد مذاکرات کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں۔

ارشاد احمد عارف
جنگ نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں