’تمام گروہوں کی مشارکت ہی سے ایرانی انقلاب بچ سکتاہے‘

’تمام گروہوں کی مشارکت ہی سے ایرانی انقلاب بچ سکتاہے‘

ممتازسنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایرانی انقلاب کی 34ویں سالگرہ کی آمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مخصوص سیاسی ونگ، مسلک یا قومیت کی حکمرانی کا انجام ناکامی ہے اور موجودہ نظام حکومت کی بقا تمام گروہوں کی مشارکت و اتحاد سے ممکن ہے۔

آٹھ فروری دوہزارتیرہ میں زاہدانی سنی عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: آج سے چونتیس برس قبل ایرانی قوم نے بیک آواز آزادی کا مطالبہ کیا اور آمریت و فردواحد کی حکومت کے خلاف متحد ہوکر عوام نے انقلاب کیا۔ جن لوگوں نے 1979ء کے انقلاب کی کامیابی میں حصہ لیا ان کا مقصد یہ تھا کہ اپنے ملک کی تقدیر میں حصہ دار بن جائیں۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: اسلامی انقلاب کا اصل مقصد یہ تھا کہ عوام کی حاکمیت ملک میں مستحکم ہوجائے اور اسی لیے عوام کی اکثریت نے انقلاب کی کامیابی کیلیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ حریت پسندی کو ہمارے انقلاب سے نئی زندگی ملی؛ آزادی پسندی قوموں کی عزت کا باعث ہے اور غلامی کسی قوم کی ذلت و کم بختی کی نشانی ہے۔ انقلاب سے چونتیس برس گزرنے کے بعد ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کس قدر اپنے اہداف اورمفادات حاصل کرچکے ہیں اور ہمیں کتنے مسائل و مشکلات ملے ہیں؟ جس دن انقلاب بپا ہوا سب لوگ اس کے حامی تھے؛ اب دیکھنا چاہیے کہ کتنے لوگ مخالفت پر اتر آئے ہیں اور اپنی راہیں انقلاب سے الگ کرچکے ہیں؟ کیا ہم انہیں دور کرچکے ہیں یا وہ خود دوری اختیار کرتے ہیں؟ اختلاف رائے رکھنے والوں کو مزید بھگانے کے بجائے ان کی بات سننی چاہیے۔ انقلاب کی بقا کا راز مخالفین کی بات سننے میں ہے۔ انہیں منانا ہوگا۔

انہوں نے مزیدکہا: اس ملک میں کسی مخصوص گروہ، پارٹی یا مسلک کی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس نظام کی پائیداری واستحکام جمہورعوام کی حمایت اور ساتھ دینے سے ہی ممکن ہے۔ تمام لسانی و مسلکی اکائیوں کو اپنی تقدیر میں شرکت کا موقع دینا چاہیے۔

خطبہ جمعہ کے ایک حصے میں آنے والے صدارتی انتخابات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: صدارتی الیکشن بھی کسی مخصوص فرقہ یا سیاسی ونگ تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ صدارتی انتخابات آزاد اور شفاف ہونا چاہیے، جب ’آزادانتخابات‘ کی بات کی جاتی ہے غرض یہ ہے کہ امیدواروں کی اہلیت چیک کرتے ہوئے فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تمام قومیتوں اور پارٹیوں کو حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔

غیرشیعہ حضرات کی صدر بننے پرپابندی سنگین غلطی ہے
نامور سنی رہ نما نے مزیدکہا: مجھے کوئی امید نہیں کہ کسی سنی شہری کو الیکشن لڑنے کی اجازت حاصل ہوجائے لیکن یہ ان کا حق بنتاہے کہ اپنے ملک کے صدر بن جائیں اور سیاسی ومعاشرتی میدانوں میں حصہ لے لیں۔ قومی آئین کو انقلاب کے بعد تیار کرنے والوں سے ایک سنگین غلطی یہ سرزد ہوئی کہ مسودہ میں لکھا گیا صرف شیعہ حضرات ایران میں صدر بن سکتے ہیں۔ ایران سب کا وطن ہے؛ فارسی، بلوچ، عرب، کرد اور ترک سمیت شیعہ وسنی جیسے مسالک اسی ملک کے باشندے ہیں اور ان کا جینامرنا یہیں پر ہے۔ یہ آرٹیکل قابل اصلاح ہے لیکن اب تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس آرٹیکل کی اصلاح کی لیے آواز اٹھائے۔ کم ازکم صدارتی انتخابات کا دائرہ شیعہ برادری میں وسیع ہونا چاہیے تاکہ مختلف رجحانات کے لوگ اس میں حصہ لے سکیں۔ اگر کوئی فرد کسی سیاسی الزام کی وجہ سے قید میں ہے اسے رہا کردینا چاہیے تاکہ پوری قوم کو اعتماد میں لیا جاسکے؛ دشمنوں کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے، اب ہمیں دوست ڈھونڈنا پڑے گا۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: کمرتوڑ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے عوام سخت مشکلات کے شکار ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں مختلف پس منظر اور افکاروخیالات کے حامل لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملک کی حفاظت اور عالمی سامراجی طاقتوں کے دباؤ کے سامنے ملک کو محفوظ بنانے کیلیے فراخدلی کی ضرورت ہے، تنگ نظری سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: عوامی انقلاب کی 34ویں سالگرہ کے موقع پر ایران کے سنی مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں امتیازی سلوک کا خاتمہ کیاجائے۔ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ شیعہ، سنی، عیسائی، یہودی اور دراویش سمیت تمام لوگ اسی ملک کے باشندے ہیں اور اس کی حفاظت میں حصہ دار ہیں۔

تمام ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کاخیال رکھنا چاہیے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: کلیدی عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں شیعہ سنی کا امتیاز ختم ہونا چاہیے۔ اہل سنت کی مذہبی و دینی آزادی کو محدود نہیں کرنی چاہیے اور انہیں مساجد کی تعمیر کے سلسلے میں رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ سنی ملکوں میں شیعہ اقلیتوں کے حقوق کی خیال داری ہمارا مطالبہ بھی ہے۔ کسی بھی ملک میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ رہیں۔ مصری انقلابی بھائیوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ نیز عراقی حکام کو چاہیے سنی مسلمانوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ عراق کے شیعہ، سنی اور عرب وکرد برادریوں کو برابر کے حقوق ملنے چاہییں۔

عراقی وزیراعظم نوری المالکی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ایک ماہ سے عراق کے سنی عوام سڑکوں پر ہیں اور انہیں امتیازی سلوک کا شکوہ ہے۔ موجوہ بحران سے جان چھڑانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے اور سب کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ امن، اتحاد اور بھائی چارہ اس وقت حاصل ہوں گے جب تمام لوگوں کے حقوق محفوظ ہوں اور مساوات قائم ہوجائے۔

اپنے خطاب کے ایک حصے میں حال ہی میں بعض ایرانی صحافیوں کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: صحافیوں کی گرفتاری ملکی مفادات کے خلاف ہے اور ایسے واقعات سے دنیا میں ملک کے خلاف منفی تاثر پھیلے گا۔ ہمیں ہر ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے ملک کی حیثیت و اعتبار پر حرف آسکتی ہے۔

بیان کے آخرمیں خطیب اہل سنت نے زاہدان شہر میں سنی عالم دین مولانا عبداللہ براھویی کی شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم پرزور الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔ متعلقہ حکام سے مطالبہ ہے جلدازجلد اس عالم دین کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائیں۔ قابل ذکر ہے اس شہید کا کسی بھی شخص سے کوئی ذاتی دشمنی یا رنجش نہیں تھی۔

سنی آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں