بعثت نبوی کاسب سے بڑا کارنامہ؛ توحید و معرفت الہی

بعثت نبوی کاسب سے بڑا کارنامہ؛ توحید و معرفت الہی

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے حالیہ خطبہ جمعہ میں اسلام سے قبل عہدجاہلیت کے بحرانی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’توحید‘ اور ’معرفت الہی‘ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا۔

یکم فروری کو جامع مسجدمکی زاہدان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: حقیقی انسانیت اسی میں ہے کہ انسان اللہ کی معرفت سے مالامال ہو۔ انسان اگر زندگی کا مقصد چھوڑدے جس کیلیے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور اللہ کی شناخت ومعرفت سے محروم ہو تو اس کی زندگی بے مقصد ہوجائے گی۔ انسانی زندگی اس وقت خوبصورت اور پرمقصد بن سکتی ہے جب بندہ زندگی کے مقصد سے غافل نہ ہو اور اسی راہ پر گامزن ہو۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: نبی اکرم ﷺ کی بعثت ایسے دور میں ہوئی جب انسانیت موت کے قریب پہنچ چکی تھی اور انسان نے اپنا مقصد چھوڑ دیا تھا۔ لوگ ایمان اور توحید وبندگی سے دور ہوچکے تھے۔ علم و دانش کی جگہ جہالت اور نادانی غالب آچکی تھی۔ لوگوں کو اپنے خالق کے بارے میں صحیح معلومات حاصل نہیں تھے، جو تھوڑے علم رکھتے تھے وہ غاروں اور صحراوؤں میں رہبانیت کی زندگی گزارتے تھے اور معاشرہ سے الگ تھلگ رہتے تھے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون راج کرتا تھا اور کمزور لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے تھے۔ خواتین یکسر اپنے حقوق سے محروم تھیں۔ انہیں میراث میں کچھ نہیں ملتا بلکہ وہ خود دیگر اشیا کی طرح ترکہ میں شمار ہوتیں اور لوگ انہیں اپنی جائیداد سمجھتے تھے۔ بیوہ عورتوں کو ان کے سابق ازدواجی رشتے دار اپنے اختیار میں سمجھتے اور جس سے چاہتے اس کی شادی کراتے تھے۔ والدین، بچوں اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔ ظلم وجبر تمام حدوں سے عبور کرچکا تھا۔

انہوں نے مزیدکہا: اسلام کے سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں میں درندگی کی صفت بری طرح سرایت کرچکی تھی۔ دنیا کے بادشاہ عوام کو اپنا غلام سمجھتے اور عوام بھی ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور انہیں معبود کا درجہ دیتے تھے۔ ایسے میں سیدالمرسلین رحمت للعالمین محمدعربی ﷺ مبعوث ہوئے اور اسلام کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوا جس کی کرنیں بعد میں دوردور تک پہنچ گئیں۔ اسلام کا سب سے پہلا پیغام توحید و یکتاپرستی کا تھا۔ اسلام نے تمام معبودوں کو باطل قرار دیا اور شرک کے تمام اقسام پر بطلان کی لکیر کھینچ دی۔

ممتازسنی عالم دین نے اسلام اور نبی کریمﷺ کے وجودمبارک کو انسانیت پر اللہ کی جانب سے رحمت قرار دیا۔ انہوں نے کہا: اسلام کے نورانی احکام نازل ہوئے تاکہ انسان حقیقی معنوں میں انسان بن جائے اور کمال و عزت حاصل کرکے جنت الفردوس میں جگہ پالے۔ عزت اور نجات کا واحد راستہ اسلام ہے۔ اسلام انسان کو کامیاب بنانے کیلیے آیاہے۔ اسلام نے تمام سابقہ آسمانی کتب اور ادیان کو منسوخ کردیا چونکہ اسلام انسان کیلیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اورتمام گزشتہ انبیائے کرام کی تعلیمات سے بہرہ مند ہے۔

مولانا عبدالحمیدنے مزیدکہا: اسلام میں معاشرے کے تمام طبقوں کے حقوق پر زوردیا گیاہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے توحید ویکتایی کے بعد نماز کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ والدین کے حقوق پر تاکید فرمائی۔ حدیث نبوی کے مطابق اگر کوئی محبت و پیار سے اپنے والدین کو دیکھ لے اسے حج مقبول کا ثواب ملے گا۔ والدین کی خدمت اولاد کیلیے باعث فخر ہے اور اسلام میں اس پر تاکید آئی ہے۔ بیٹیوں کی تربیت اور نشوونما عبادت ہے اور والدین کیلیے نجات وکامیابی کا باعث ہے۔ اسلام نے خواتین کو عزت دی ہے؛ اسلامی نقطہ نظر سے وہ ماں ہے یا بیٹی، بہن یا زوجہ وبیوی جو مقدس اصطلاحات ہیں۔ اسلام کے بعد خواتین کو حق ارث ملا؛ آپﷺ اپنی بیٹیوں اور ازواج مطہرات سے مشورہ لیا کرتے تھے اور تمام خواتین معاشرے کی ہدایت و تعمیر میں کردار ادا کرتی تھیں۔

مہتمم دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا: اسلام نے تمام طبقوں کو برابر کے حقوق دیا ہے۔ اسلام نے جزیرہ نمائے عرب کو جو جہنم بن چکی تھی پوری انسانیت کیلیے جنت بنادی اور مکارم اخلاقی پر زور دیتے ہوئے تمام اقلیتوں کے حقوق پر تاکید کردی۔ اسلام میں کسی رنگت، نسل اور قومیت کو دوسروں پر برتری حاصل نہیں ہے۔ روم کا ’صہیب‘، حبشہ کا ’بلال‘ اور ایران کا ’سلمان‘ جب اسلام کے حلقے میں داخل ہوئے تو انہیں وہی مقام ملا جو دیگر صحابہ کرام کو حاصل ہوا تھا۔ بلال ایک غلام تھا اور مدینہ میں نبی کریمﷺ نے انہیں اپنا موذن مقرر فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اپنا سردار وآقا کہہ کرپکارا۔ سلمان بھی ایک یہودی کا غلام تھا اور ان کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا: سلمان منا اہل البیت، سلمان ہم میں سے ہے اور ہمارے اہل بیت میں شمار ہوتاہے۔ یہی حال تھا دیگر صحابہ کرام کا جو پہلے غلام و کنیز تھے۔

انہوں نے اسلام میں آزادی اظہار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: اسلام میں آزادی اظہارخیال پر تاکید آئی ہے اور نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدین کی عملی زندگی اس بات کے ثبوت ہے۔ بعض اوقات بوڑھی عورتیں اور غلام وکنیز آپﷺ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روکتے اور رحمت للعالمین بھی ان کی بات سنتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ مسجد میں خطاب کررہے تھے تو ایک عمررسیدہ خاتون نے ان پر اعتراض کیا اور ان سے اپنی بات بھی منوائی۔ حقیقی جمہوریت اور آزادی یہی ہے۔ آج کل کے صدور اور حکام اپنے عوام کی بات کیسے سنتے ہیں حالانکہ کمزور طبقے کے لوگ ان پر دسترسی نہیں رکھتے ہیں۔

ایرانی قوم نے آمریت سے نجات کیلیے سابق رجیم کیخلاف قیام کیا
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں حضرت شیخ الاسلام نے ایران کے عوامی انقلاب کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: چونتیس برس پہلے ایران میں بادشاہت کا نظام راج کرتا تھا اور خوف وہراس کی فضا ملک میں قائم تھی۔ حکام عوام کی بات سننے کیلیے تیار نہ تھے اور صرف انٹیلیجنس حکام عوام کو خوفزدہ رکھنا چاہتے تھے۔

انہوں نے مزیدکہا: شاہ ایک آمر حکمران تھا اور اس کے اردگرد مستبد لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ عوام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی کی قیادت میں منظم مظاہروں کا سلسلہ تیز کردیا اور سابق رجیم کا تختہ الٹ دیا تاکہ اپنے ملک کی تقدیر میں شریک ہوجائیں۔ سابق رجیم میں انتخابات نمائشی تھے اور بکسز سے وہی نکلتا جو حکام چاہتے تھے! صرف حکام سے قریب لوگ ووٹ حاصل کرسکتے تھے۔

ممتازسنی رہ نما نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم سابق نظام کیخلاف اس لیے اٹھ کھڑی ہوئی تاکہ ظلم و جبر اور آمریت کی بیخ کنی ہوجائے۔ شروع میں شیعہ وسنی بھائی بھائی تھے اور اہل سنت کے علماء و قائدین نے آیت اللہ خمینی سے وعدہ لیا تاکہ شیعہ وسنی میں کوئی تفریق نہ ہو۔ انہوں نے وعدہ کیا اہل سنت کو امتیازی سلوک کا سامنا نہیں ہوگا۔ دراصل انقلاب کی کامیابی کا راز اسی اتحاد و یکجہتی میں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے اس بارے میں تفصیلی گفتگو اگلے جمعے تک موخر کردی۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں