رول ماڈلز اور طلاق کا رجحان

رول ماڈلز اور طلاق کا رجحان

ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں طلاق کی شرح شادی کی شرح سے بلند ہے جب کہ وہاں زیادہ تر لوگ پچاس برس کے لگ بھگ شادی کرتے ہیں ایک طویل رپورٹ کے اس مختصراً جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب میں اب شادی کی کیا اہمیت رہ گئی ہے جب کہ بے راہ روی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، تنہائی کی اذیت سے نفسیاتی الجھنوں کا شکار افراد کی مجرمانہ کارروائیاں اور اسی طرح کے دیگر مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

پڑوسی ملک بھارت میں بھی کچھ اسی طرح کا حال ہے جہاں نوجوانوں کا پڑھا لکھا اعلیٰ کلاس سے تعلق رکھنے والا طبقہ جو اپنی کمائی کے بل بوتے تنہا زندگی گزارنے میں زیادہ لطف محسوس کرتا ہے۔ اب شادی بیاہ کے جھنجھٹ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ بے راہ روی جس طرح بھارت میں ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے وہیں ایک یہ تاثر بھی قائم ہورہا ہے کہ بھارتی فلمیں اور غیر اخلاقی ٹی وی پروگرامز نہ صرف بھارتی نوجوان طبقے بلکہ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی برے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ لہٰذا کہیں لڑکیوں کے کالجز، اسکولز میں موبائل فونز پر پابندی کی صدائیں ابھر رہی ہیں تو کہیں لڑکیوں کے یونیفارم میں اسکرٹ کی جگہ پائجامے یا طویل کوٹ استعمال کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔

پاکستان میں بھی طلاق کے بڑھتے رجحان سے جہاں دیگر مسائل ابھر رہے ہیں وہیں ایک بہت بڑی تعداد ان معصوم بچوں کی بھی نشانہ بن رہی ہیں جو ان طلاقوں کے چکر میں الجھ کر نفسیاتی مسائل کا شکار بن رہے ہیں ایک اطلاع کے مطابق صرف لاہور میں 20 فیصد میں صرف ایک دن میں تقریباً سو کے قریب طلاقیں فیملی کورٹ میں رجسٹرڈ ہوئیں جب کہ فروری 2005 سے 2008 تک طلاق کے کیس پچھتر ہزار کے قریب رجسٹرڈ ہوئے جب کہ فروری 2008 سے مئی 2011 تک چوبیس ہزار ایک سو اکتالیس طلاق کے کیس رجسٹرڈ ہوئے جب کہ پچھلے دس سال میں 2011 تک پورے صوبے میں دو لاکھ سے زیادہ علیحدگی کے کیسز ہوئے ، علیحدگی اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح معاشرے کے لیے ایک بڑا سوال بن کر ابھر رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ فیملی لاء کے ماہر وکیل ظفر اقبال کے مطابق جب سے مسلم فیملی کورٹ ایکٹ 2001 میں ترمیم کی گئی ہے طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انھوں نے اس رجحان کا الزام ان این جی او ز اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی لگایا ہے جو اپنے آپ کو سرگرم اور خبروں میں رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں۔

عورت کی آزادی اور حقوق کے لیے سرگرم این جی اوز ایسے بہت سے کیسز میں خواتین کی بھرپور مدد کرتی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کے لیے قانونی مدد فراہم کرنا گناہ ہے بلکہ اس طرح ان رجحانات کو بھی تقویت ملتی ہے جس سے خواتین میں برداشت، صبر اور زندگی کو اپنے بچوں کی خاطر گزارنے کے جذبے کو کسی زمانے میں سراہا جاتا ہے لیکن اب خواتین کو ان کے انفرادی حقوق دلوانے کے لیے بہت سی زندگیوں کو جو ان سے منسلک ہوتی ہیں ان کے حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے۔

وہ خواتین طلاق جیسے مکروہ فعل کے عمل سے گزرنے کے بعد کس طرح زندگی گزارتی ہیں معاشرے میں آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی انھیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں، حال ہی میں مشہور ومعروف ایک گلوکارہ کی شادی اور پھر اختلافات کی خبریں میڈیا میں خاصی گرم رہیں، گلوکارہ کے بیانات اور ان کے شوہر کے پریس کانفرنسز سے نیوز چینلز سجتے رہے کون غلط ہے کون صحیح سب اپنی اپنی بولی بول رہے تھے۔

اسی طرح ایک مشہور ٹینس کھلاڑی کی شادی اور چند مہینے بعد ہی خاموش طلاق کی بازگشت ابھری یہ دونوں نوجوان نسل کے نمایندہ افراد تھے لیکن حال ہی میں ایک سنجیدہ بڑے بچوں کی ماں مشہور اینکر کے عشق کی صدائیں اور پھر اپنے شوہر سے طلاق لینے کی صدائیں ابھریں، یہ کیسا رجحان ہے جو ایک ماں کو اپنے تین چار بچوں سے دور کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا، یا شاید ممتا کے جذبے سے آج کی عورت ناآشنا ہوتی جارہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں بلکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عورت کی حالت کمزور رہی ہے ایک رجحان جو ان دنوں خاصا دیکھا گیا ہے کہ وہ خواتین جو خود کماتی ہیں اپنے پیروں پر کھڑی ہیں طلاق لینے میں زیادہ جلدی دکھاتی ہیں لیکن وہ خواتین جن کا انحصار صرف ان کے شوہروں پر ہے اس عمل میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں، ظاہر ہے معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے ضروریات زندگی کا ہونا بھی بہت اہم ہے۔

غالباً 2010 کی بات ہے جب ہم نے ایک مشہور چینل پر پٹی چلتی دیکھی جو ایک مشہور اینکر کے نکاح کی تقریب سے متعلق تھی وہ مشہور اینکر جنھیں اتفاقاً ذاتی طور پر ہم بھی جانتے ہیں دیکھنے میں انتہائی شریف النفس لگتے تھے بہت ساری بہنوں کے ایک بھائی جنھیں جو بننے کا شوق زمانہ طالب علمی سے تھا بن گئے والدین نے ان کی اپنی طرح ایک سیدھی سادی گھریلو لڑکی سے شادی کردی خیر سے ایک بچی کے باپ بھی بن گئے، لیکن شہرت کا جن انھیں رفتہ رفتہ نصیب ہوا خدا جانے اس جن نے انھیں ان کی ہی جیسی بیگم سے ایسی عداوت پیدا کردی کہ جس نے انھیں ایک اور شادی کرنے پر مجبور کردیا جو کچھ بھی ہوا ایک معصوم بچی ان دو مختلف مدارج میں الجھ کر اب کس طرح کی زندگی گزارے گی، پیسے کی دوڑ، والدین کی بے جا ضد اور خواہشات اولاد کے لیے بہت سے مسائل کھڑے کردیتی ہیں اولاد کی غلط تربیت بھی انھیں زندگی کے غلط فیصلوں پر مجبور کردیتی ہے۔

محبت کی شادی کو اکثر جذباتی شادی کہا جاتا ہے لیکن اگر اسلام کی محبت ہو تو کیا کہا جاسکتا ہے ایک میچوربڑے بچوں کی ماں کا طلاق کا عمل کیا اس کا ذاتی مسئلہ ہے؟ کیا یہ اس کے ذاتی حقوق کی بات ہے؟ کیا یہ اس کی اپنی زندگی کا فیصلہ ہے؟ اگر ہم معاشرے میں اسی طرح کی مثالیں دیکھتے رہے جو رول ماڈل بن کر ہمارے گھروں میں ہر روز ایک بجلی کے تار کے ذریعے آتے رہے تو ہماری نسلیں کیا سبق لیں گی، کیا ہماری مشرقی عورت کی ممتا کہیں سو گئی ہے، ایک مسلمان ماں کے جذبات اتنے ہی مدھم ہوگئے ہیں، دراصل ہم اندر سے بہت سخت اور کھردرے ہوچکے ہیں ہم دوسروں کے لیے بھی اسی طرح کے جذبات رکھتے ہیں، ان دوسروں میں ان کی اپنی اولاد بھی آجاتی ہے، بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں بیوی میں اتفاق محبت اور ہم آہنگی زندگی کی گاڑی کو چلاتے ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کچھ بھی نہ ہو لیکن عورت میں ہمت، محبت استقلال اور صبر ہو تو زندگی کی گاڑی بہت آرام سے چل جاتی ہے۔ اپنے اردگرد دیکھئے بہت سی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی۔

بشکریہ “ایکسپریس”
شہلا اعجاز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں