میلادنبیﷺ؛ اخلاقیات، ایمان اورہدایت کی پیدائش ہے

میلادنبیﷺ؛ اخلاقیات، ایمان اورہدایت کی پیدائش ہے

خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے زاہدان شہر کے سنی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو انسانیت کیلیے نقطہ امید قرار دیا جس کے بعد وہ حقیقی ایمان، ہدایت اور مکارم اخلاقی تک پہنچ گئی۔

ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سورت الجمعۃ کی دوسری آیت: «هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ» [جمعه:2] کی تلاوت کے بعد کہا: نبی اکرمﷺ کی ولادت کسی معمولی انسان کی ولادت کی طرح نہیں تھی، بلکہ یہ انسانیت کیلیے بڑی رحمت اور کامیابی تھی۔ درحقیقت امام المرسلین والمتقین کی پیدائش ایمان اور اعلی اخلاقیات کی پیدائش ہے، یہ دین اسلام اور بشر کا تولدِنو تھا۔ انسان کی قدر اس کے نیک اعمال اور صحیح عقائد وکردار کی بنیاد پر ہے۔ ورنہ انسان شکل سے انسان رہے گا لیکن اندر سے جانور یا ان سے بھی بدتر بنے گا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں آیاہے : «أُوْلَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [اعراف: 179]

نبی کریمﷺ کی ولادت کو ’’نور و روشنائی‘‘ کی پیدائش قرار دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: امام الانبیاء علیہ السلام کی ولادت سے ہدایت اور اخلاقیات کا نور اور روشنائی دنیا میں پھیل گئی۔ جس دور میں آپﷺ کی ولادت ہوئی بنی نوع انسان اخلاقی واصلاحی لحاظ سے انتہائی پستی و زوال کا شکار ہوچکا تھا۔ جو لوگ انسان کی اصلاح کیلیے محنت کیاکرتے تھے اس کی اصلاح سے مایوس ہوچکے تھے؛ لیکن آپﷺ کی پیدائش سے تمام مایوسی و ناامیدی امیدوں میں بدل گئیں۔ آپﷺ کی بعثت سے قبل دنیا شرک و بت پرستی اور اخلاقی پستی کی تاریکی میں گرفتار تھی، لوگ غلط عقائد و کردار اور شیطان و نفس امارہ کے جال میں پھنس چکے تھے۔ شیطان رہبر و رہنما بن چکا تھا اور انسان کی رہنمائی و ہدایت کیلیے کوئی نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے رسول اکرمﷺ کو اس کام کیلیے چن کر میدان میں اتارا۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ سبحانہ وتعالی نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو نورِ ہدایت و علم قرار دیاہے۔ آپﷺ اگرچہ بشر اور عبداللہ قریشی کے بیٹے تھے لیکن انسان کی رہنمائی کیلیے آپ نور و روشنائی قرار پاگئے۔ لہذا آپﷺ کی ولادت علم و اخلاق، نور اور ہدایت کی پیدائش ہے۔ آپﷺ کی پیدائش کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، بلکہ یہ اللہ تعالی کے طے شدہ ارادے کے تحت رونما ہوا تاکہ انسان کی ہدایت کیلیے آخری نبی کو بھیجا جائے تاکہ انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بنائے۔ آپﷺ کی ولادت سے تمام بت خانے تباہ ہوئے، آتش گھروں میں جلی آگ بجھ گئی اور نورِ ہدایت چھاگیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش جزیرۃ العرب میں ہوئی جو شرک و بت پرستی اور جہل و نادانی کا مرکز تھا، لیکن آپﷺ کی ولادت سے یہ خطہ توحید و یکتاپرستی اور علم و دانش کا مرکز بن گیا اور یہیں سے پوری دنیا میں علم کا نور پھیل گیا۔ پہلے زمانے میں انبیاء کسی مخصوص خطے یا قوم کیلیے مبعوث ہوتے لیکن حضرت محمدمصطفی ﷺ پوری دنیا کیلیے نبی و رسول تھے اور آپ کی تعلیمات قیامت تک انسان کی صحیح رہنمائی کرتی رہیں گی۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مہتمم دارالعلوم زاہدان نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بے مثال ہیں جن کی کوئی نظیر دستیاب نہیں ہے۔ آپ نے بشر کو ایک ایسی عظیم کتاب عطا کی جو تمام سابقہ آسمانی کتب کا خلاصہ ہے؛ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

قرآن وسنت؛ اسلام کی حقانیت کی دلایل ہیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ کے ایک حصے میں قرآن پاک کو قیامت تک تحریف و تغییر سے محفوظ قرار دیتے ہوئے کہا: اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اور قیامت تک یہ عظیم کتاب آپ ﷺ کا معجزہ باقی رہے گی۔ لہذا نبی کریمﷺ کا معجزہ آج بھی موجود ہے۔ اگر کوئی ہم سے اسلام کی سچائی و حقانیت کیلیے کوئی دلیل مانگے تو ہم قرآن پاک کو پیش کریں گے۔ جس طرح قرآن کے نزول کی ابتداء میں مخالفین کو چیلنج کیا گیا کہ ایک آیت یا سورت اس کی مثل لائیں، ہم بھی یہود و نصارا سے کہتے ہیں اگر آپ اسے نہیں مانتے اور اسلام کی حقانیت پر آپ کو شک ہے تو اس کی شبیہ ایک آیت یا سورت اپنی جانب سے پیش کریں اور اس مہم میں دنیا کے تمام عرب ادبا و متخصصین کی خدمات بھی حاصل کریں۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو ہم ان سے کہیں گے ’اس آگ سے بچو جس کی ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘

انہوں نے مزیدکہا: نبی کریم ﷺ کی مبارک سنتیں اور احادیث بھی دین اسلام کی سچائی کیلیے کافی ہیں۔ صحابہ کرام اور ازواج مطہرات نے آپﷺ کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر لمحے اور گوشے کو ضبط کیا اور بعد کی نسلوں تک منتقل کرایا۔ ہم دیگر قوموں سے پوچھتے ہیں جن انبیائے کرام یا شخصیات کی پیروی کے دعویدار ہیں ان کی زندگی و سیرت پر اس طرح کا کوئی ذخیرہ پیش کریں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے یا گھر میں، عبادت میں مصروف ہوتے یا گفتگو میں، میدان جہاد میں ہوتے یا کسی اور مکان میں، ان کی تمام باتوں اور حرکات کو صحابہ کرام نے محفوظ کرکے مسلمانوں تک منتقل کرایا۔

آپ ﷺ کی عادات کو عمدہ، فطری اور قابل تقلید قرار دیتے ہوئے مولانا نے کہا: خاتم الرسل کی عادتیں بھی نرالی تھیں، آپ کا اٹھنا بیٹھنا، خوراک و پوشاک غرض ہر کام عین انسانی فطرت کے مطابق تھا جس کی تقلید ہر مسلمان کیلیے ضروری ہے۔ آپ کی عادات و اطوار بھی اللہ رب العزت کو پسندیدہ تھیں۔ اگر ہم ان کی پیروی کریں تو دنیا وآخرت کی عزت و سربلندی ہمارا مقدر ہوگا۔

قرآن مجید کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج اگر اللہ تعالی براہِ راست ہم سے گفتگو نہیں فرماتا تو قرآن پاک ہمارے سامنے موجود ہے جو ہم سے بات کرتاہے۔ قرآن پاک صرف عہدنبویﷺ کی جاہلیت کے خاتمے کیلیے نہیں آیاتھا بلکہ یہ ہر دور کی گمراہیوں اور جہالت کی بیخ کنی کیلیے ہے۔ قرآن پاک سدابہار کتاب ہے جس کی تعلیمات ہر دور میں کارآمد ہیں۔ لہذا سب کو یہ عظیم کتاب سیکھنا چاہیے اور غوروخوض سے تلاوت کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: دنیا نے علمی ترقی قرآن پاک کی برکت سے حاصل کی؛ جب اس کا نور پھیلا تو اہل دنیا نے یہ محسوس کیا کہ انہیں قرآن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرآن پاک نے انسان کو صحیح سیاست اور حکومت کرنے کا طریقہ سکھایا۔ اس کتاب کی برکت سے صحابہ نے اپنا سب کچھ آپﷺ پر قربان کردیا اور جان ومال اور اولاد پر آپﷺ کو ترجیح دینے لگے۔ نبی کریمﷺ خود بھی ایک دن اگر شکم سیر تھے تو اگلے دن بھوکے بسر کرتے؛ یہاں تک کہ جب آپ کا وصال ہوا تو ترکہ میں کوئی مال ودولت باقی نہ رہی۔ یہی حال خلفائے راشدین کا تھا جنہوں نے آپﷺ کو اپنا اسوہ بنایا تھا۔

مسلمانوں کا اتحاد نعروں اورخواہش سے حاصل نہیں ہوسکتا

اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے قوموں کی ترقی کا راز اتحاد و یکجہتی میں قرار دیتے ہوئے کہا: مسلم فرقوں میں اتحاد خالی نعروں اور خواہش سے ہاتھ نہیں آسکتا۔

زاہدان کے سنی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اسلامی اتحاد امت کی ضرورت ہے؛ اگر مسلمان متحد و متفق نہ ہوں تو دشمن فرقہ واریت کے ذریعے انہیں باہمی تنازعات میں مصروف کردے گا جو اس کیلیے فوجی حملے کی نسبت انتہائی آسان ہے۔

مولانا نے مزیدکہا: مسلمانوں کے مشترکہ دشمن کی کوشش ہے کہ ان کے قومی، لسانی اور فکری اختلافات کو ہوا دے کر اپنے مذموم مقاصد و مفادات کو حاصل کرے۔ لیکن ہوشیار و سمجھدار قومیں ان کی جال میں نہیں پھنستے؛ جو دشمن کی خواہش کے مطابق فرقہ وارانہ فسادات پیدا کرتے ہیں دراصل عقلی پس ماندگی کا شکار ہوچکے ہیں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: مسلمانوں کی ترقی اور پیش رفت کا راز ان کے اتحاد میں مضمر ہے۔ یہاں تک کہ وہ ممالک جو دیگر قوموں کے درمیان اختلافات پیدا کرتے ہیں باہمی اتحاد پر زور دیتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کو زیادہ آسانی سے حاصل کریں۔ ناٹو اور یورپی یونین کی تاسیس کا مقصد یہی ہے تاکہ یورپی ریاستیں متحد ہوکر بآسانی سیاسی و معاشی جیسے مسائل سے نمٹ سکیں۔ مسلمانوں کو اپنی بقا اور سربلندی و عزت کیلیے بھی متحد و متفق ہونا پڑے گا۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: اتحاد کھوکلے اور خوش نما نعروں یا محض کسی کی خواہش کی بنیاد پر ہرگز میسر نہیں ہوتا۔ اتحاد و بھائی چارہ کیلیے باربار نعرے لگانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک عملی اقدامات نہ اٹھائے جائیں اور نعروں کو جامہ عمل نہ پہنایا جائے۔ اتحاد اس وقت حاصل ہوگا جب ہم عملی طور پر مساوی و یکساں ہوجائیں اور سب سے منصفانہ برتاؤ کیاجائے۔

جامعہ دارالعلوم زاہدان کے مہتمم و شیخ الحدیث نے مزیدکہا: ایران کی سنی برادری کا سرکاری حکام اور شیعہ مراجع و علماء سے گزارش یہ ہے کہ نگاہیں تمام شہریوں کیلیے یکساں ہوں؛ کسی سنی کو اس کے مسلک کی وجہ سے نظرانداز نہ کیاجائے۔ شیعہ وسنی کے درمیان امتیازی سلوک اور تبعیض کا خاتمہ ہونا چاہیے اور روزگار کی فراہمی اور کلیدی عہدوں کی تقسیم میں شیعہ و سنی کا فرق ختم ہونا چاہیے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: ہم سب اپنے مختلف آراء و افکار کے باوجود اسلام کے دائرے میں داخل ہیں اور اپنے ملک اور مذہب کی عزت کے متمنی ہیں۔ ’اسلامی جمہوریہ ایران‘ کے استحکام اور انقلاب کی بقا انصاف کی فراہمی ہی سے ممکن ہے۔ جیسا کہ ہمارے معزز مہمان حجت الاسلام تسخیری نے کہا کسی بھی رجیم کی بقا کا راز عدل وانصاف کی فراہمی اور عوام کی بات سننے میں ہے چاہے وہ نظام دینی ہی کیوں نہ ہو، ہمارا خیال بھی یہی ہے۔ ایرانی اہل سنت والجماعت اپنے ملک میں امن اور قومی اتحاد کا خواہان ہے۔

انہوں نے مزیدکہا: ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہماری دینی و تعلیمی آزادیوں کو محدود نہ کیاجائے جو آئین میں ان پر تاکید آئی ہے۔ جب ایران میں شیعہ و سنی برادریاں حقیقی وحدت حاصل کریں گی پھر دیگر مسلم قوموں کیلیے ہم عملی نمونہ بن سکتے ہیں، اور یہ اتحاد صرف عدل و انصاف کے نفاذ سے حاصل ہوسکتاہے۔

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں