ناانصافی؛ جنگوں، بدامنیوں اور مظاہروں کی جڑ

ناانصافی؛ جنگوں، بدامنیوں اور مظاہروں کی جڑ

ممتاز سنی عالم حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے 18جنوری 2013ء میں زندگی کے تمام شعبوں میں نفاذ عدل پر زور دیتے ہوئے کہا: دنیا میں جنگیں لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں، بدامنی عام ہوچکی ہے اور ہرسو احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں؛ ان سب کی جڑ ناانصافی اور عدل کا عدم نٖفاذ ہے۔

انہوں نے کہا: اسلام نے انسانیت کیلیے حرمت و عزت لایا، اس کی دنیا آباد کرنے اور آخرت کو کامیاب بنانے کا پیغام لیکر آیاہے۔ کسی سچے مسلمان کیلیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دوسرے لوگوں کے حقوق و کرامت کا خیال رکھے۔ آج دنیا بدامنی اور ٹینشن کی کھائیوں میں جاگری ہے؛ اس کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی اور اخلاقی مکارم کا ناپید ہونا ہے۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے مزیدکہا: اگر عالمی برادری واقعی ’دہشت گردی‘ کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے بے کس اور مظلوم لوگوں کی بات پر کان دھرنا ہوگا۔ وہ عوام جو اپنے حقوق سے محروم ہوچکے ہیں ان کی بات سنی جائے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کیاجائے۔ اگر فلسطینی عوام کی بات مان لی جاتی اور انہیں ظلم و جبر کا نشانہ نہ بنایاجاتا تو آج دنیا اس قدر مصائب و مشکلات سے دوچار نہ ہوتی۔ نفاذ عدل سے بھائی چارہ اور امن کو فروغ ملتاہے۔ دنیا میں یکجہتی، امن اور اتحاد اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک انصاف سب کیلیے نہ ہو۔

عراق کی نجات غیرمسلکی و غیرلسانی حکومت کی تشکیل میں ہے
حالیہ ہفتوں میں عراق میں احتجاجی مظاہروں پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے صدر شورائے مدارس اہل سنت نے کہا: عراق میں بڑے پیمانے پر حکام کیخلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکاہے؛ اہل سنت کے علاوہ بعض شیعہ رہنما بھی عراق میں مشکلات سے دوچار ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ مشکلات و مصائب اہل سنت کے حصے میں آئے ہیں۔ انہیں سخت امتیازی رویے کا سامنا ہے اور انہیں اقتدار میں نظرانداز کیاجا چکاہے۔ اب انہیں اپنے حقوق کیلیے آواز اٹھانی پڑی جب انہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے دیوار سے لگانے کی کوششیں تیز ہوئیں۔

انہوں نے مزیدکہا: بعض عناصر عراق میں حالیہ احتجاجی مظاہروں کو عالمی صہیونیزم اور سامراجی قوتوں سے جوڑتے ہیں، لیکن یہ غلط بات ہے۔ جب بعض حکام صحیح راستے سے انحراف کرتے ہیں اور اپنے عوام کو مسلسل نظر انداز کرتے ہیں تو ان کی ناانصافیوں کا نتیجہ احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سامنے آتاہے جو ایک طبعی امر ہے۔ البتہ ہوسکتاہے بعض سامراجی قوتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلیے جلتی پر تیل کا کام کریں اور اختلافات کو مزید ہوا دیدیں۔ لیکن ان کی فتنہ بازیوں اور دسائس کا مقابلہ نفاذعدل سے ممکن ہے۔

مولانا عبدالحمیدنے کہا: ہمارا پیغام عراقی حکام کو یہ ہے اپنے عوام کی بات پر کان دھریں اور پوری قوم کے حقوق کیا خیال رکھیں۔ عراقی قوم چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ، عیسائی ہوں یا کسی اور مذہب کے، سب کا تعلق اسی ملک سے ہے۔ تمام اقوام اور مسالک کو مل کر اپنا ملک چلانا چاہیے۔ عراق و ایران جیسے ممالک جن میں متعدد لسانی و مسلکی برادریاں آباد ہیں کسی مخصوص گروہ کے ہاتھ میں نہیں چل سکتے، عراق صرف اہل سنت یا اہل تشیع کا نہیں ہے، عراق ان سب کا ہے۔ لہذا عراق کی نجات کا واحد راستہ ایک غیرمسلکی و غیرلسانی حکومت کی تشکیل میں ہے جس میں تمام مسالک و قومیتوں کو برابر کے حصے دیے جائیں۔

ایران کی سنی برادری ابھی تک انصاف کے انتظار میں ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں ایران کے عوامی انقلاب کی 34ویں سالگرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اہل سنت والجماعت ابھی تک انصاف کے انتظار میں ہے، ان کی خواہش ہے کہ وہ اپنے ملک کی تقدیر میں کردار ادا کریں۔ سوال یہ ہے کیوں اہل سنت کو مسلح اداروں سے دور رکھاجاتاہے اور حکومتی اداروں میں انہیں روزگار نہیں دیاجاتاہے؟ امتیازی سلوک اور عدم مساوات کی بیخ کنی ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: میرا تعلق کسی سیاسی ونگ سے نہیں ہے؛ ایک طالبعلم کی حیثیت سے میری سوچ مستقل ہے اور میں سب کے خیرخواہ ہوں۔ میرا عقیدہ ہے ایران میں حکومت کسی خاص دھڑے کے حصے میں آئے تو ناکام ہوجائے گی۔ مخصوص گروہ ملک نہیں چلاسکتے، اگر مشکلات پر قابو پانا ہے تو سب کو اکٹھے ہوکر ملک چلانا چاہیے۔ اصلاح پسند ہوں یا قدامت پسند، ان میں کوئی اکیلا بلاشرکت غیر ملک نہیں چلاسکتا۔ ایران صرف اہل تشیع یا اہل سنت کا نہیں ہے۔ دوران جنگ شیعہ وسنی سب نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات سے شیعہ وسنی دونوں متضرر ہیں۔ بلکہ سب سے زیادہ اہل سنت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ ہمیں اجنبی نہ سمجھا جائے، ہم اسی ملک کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کسی سنی اکثریت علاقے میں ایک حکومتی شعبے میں 250 ملازموں سے صرف دس یا بیس ملازم اہل سنت کے ہوں۔

اہل سنت کے ممتاز رہنما نے مزیدکہا: ملک کے مسلح افواج میں اہل سنت کو عہدہ ملنا چاہیے۔ انہیں عام سپاہی سے بڑھ کر خدمت کا موقع دینا چاہیے۔ اس ملک کی عزت اور امن کو اہل سنت نے محفوظ کیاہے۔ جرات ویقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے اگر آج ملک میں امن قائم ہے تو اس کا سہرا سکیورٹی اداروں کے علاوہ اہل سنت برادری کے سر جاتاہے۔ اگر اہل سنت کے علماء، تعلیم یافتہ حضرات اور عمائدین کی کوششیں نہ ہوتی تو حالات بالکل مختلف ہوتے۔ لہذا اعلی حکام ہمارے حقوق کا خیال رکھیں اور دنیا میں موجود فضا کو مدنظر رکھ کر ایرانی قوم کی آواز کو لبیک کہیں۔

ایران میں صدارتی انتخابات کے قریب ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: گیارہویں صدارتی انتخابات کو ایک وسیع نظر سے دیکھنا چاہیے، عوام کو یہ حق دیاجائے کہ جسے وہ چاہیں ووٹ دیدیں۔ اس کا حلقہ تنگ نہیں کرنا چاہیے۔

مالی میں فرانس کی فوجی مداخلت ظلم و سینہ زوری ہے
اپنے بیان کے آخر میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اسلامی ملک ’مالی‘ میں فرانس کی فوجی مداخلت کو ظلم و جبر اور عالمی طاقتوں کی سینہ زوری کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا: افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ ہفتے میں فرانس نے ایک مستقل ملک کے اختلافات میں مداخلت کرتے ہوئے اسلام پسندوں سے مقابلے کیلیے مالی پر فوجی لشکرکشی کی۔ فرانس اور اس کے اہم خیالوں کا یہ اقدام بہت بڑی غلطی ہے۔

اسلام پسندوں کی کامیابیوں کو فرانس کی یلغار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: فرانس کی فوجی مداخلت کی اصل وجہ یہ ہے کہ مالی میں اسلام پسند گروہ اپنے حریفوں پر فائز ہورہے ہیں؛ اگرچہ انہیں ’شدت پسند‘ قرار دیا جاتاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی دنیا کے کسی کونے میں فرانس جیسے ممالک کو اسلام پسندوں کے اقتدار کا خوف ہوتاہے تو وہ مداخلت کرکے واویلا کرتے ہیں۔

خطیب اہل سنت نے زور دیتے ہوئے کہا: یہ آمر طاقتیں کس قانون کے تحت کسی مستقل اور اجنبی ریاست پر فوجی حملے کرتی ہیں؟ ان کی یہ مداخلت حملہ آوروں کیلیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ اللہ تعالی حق کو کامیاب کرائے اور باطل کو جو کسی بھی لباس میں ہو اور خود کو بڑا دکھائے ناکام و برباد کرے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں