فانی زندگی کو اللہ کی عبادت سے لازوال بنایاجائے

فانی زندگی کو اللہ کی عبادت سے لازوال بنایاجائے

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمیداسماعیلزہی نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیات: «مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ وَمَا عِندَ اللّهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ*مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ» [النحل: 96-97]، (جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے (کہ کبھی ختم نہیں ہو گا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔ جو شخص نیک عمل کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) ان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔) کی تلاوت سے شروع کرتے ہوئے ’وقت‘ کو زندگی کا اہم ترین سرمایہ قرار دیا اور فانی زندگی کو باقی بنانے کیلیے صرف اللہ کی عبادت کی نصیحت کی۔

جامع مسجدمکی میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: جس طرح قرآن پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے، اس کی تعبیرات بھی معجزہ ہیں۔ قرآن پاک نے اپنے مضامین، معارف اور مفاہیم کو انتہائی منفرد اور خوبصورت انداز میں بیان کیاہے؛ عقلمند اور دانش ور لوگوں کو قرآنی آیات میں غور و تدبر کرنا چاہیے۔

قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: تلاوت شدہ آیات میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا جو کچھ آپ کے پاس ہے کسی دن وہ ختم ہوجائے گا۔ لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ ابدی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے عمومی الفاظ میں بغیرکسی استثنا کی، ہماری پوری زندگی اور دنیوی اشیاء کو فانی قرار دیاہے؛ لہذا ہماری جان، مال، دولت، عہدہ، صحت، وقت اور دیگر نعمتیں سب فانی ہیں۔ جب ہمارا کوئی عزیز انتقال کر جاتاہے تو مشاہدہ میں آتاہے کہ کیسے وہ سب کچھ چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور قرآن پاک کیا فرماتاہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم قبرستانوں کو دیکھتے ہیں لیکن عبرت نہیں لیتے!

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ’وقت‘ کو زندگی کے اہم ترین سرمایوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: اللہ رب العزت نے وقت کی نعمت سے ہم انسانوں کو نوازا ہے؛ اسی نعمت کی برکت سے ہم اللہ کی رضامندی حاصل کرسکتے ہیں۔ یوں فانی زندگی کو ابدی اور لازوال بناسکتے ہیں۔ جب زندگی کو اللہ کی عبادت میں گزار دیاجائے تو یہ ابدی ہوگی۔ مال و دولت جو فانی ہے ابدی بن سکتی ہے اگر ہم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردیں، مساجد و مدارس پر خرچ کریں، تعلیمی اور رفاہی امور میں خرچ کرنے سے فانی دولت ابدی بن سکتی ہے۔ چونکہ جو اللہ کے پاس ہوگا وہ ابدی اور ہمیشہ کیلیے ہوگا۔ روزِقیامت اللہ تعالی اسے دوگنا کرکے ہمیں عطا فرمائے گا۔

خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: انسان کو دنیوی زندگی کی حقیقت پر واقفیت حاصل ہونی چاہیے۔ قرآن پاک سے پوچھا جائے تو اس زندگی کی حقیقت یوں بیان فرماتاہے: «وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ» [عنکبوت: 64]، (اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور (ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے کاش یہ لوگ سمجھتے.)
ارشادخداوندی ہے کاش لوگوں کو معلوم ہوتا دنیاکی زندگی ایک کھیل ہے اور آخرت ہی پائیدار ہے۔ دنیا زندگی کیلیے ایک عارضی مقام ہے۔ ہم مسافر ہیں اور یہاں سے جلدہی گزر جائیں گے۔ انسانوں کو یہ حقیقت مان کر دنیوی زندگی کو آخرت کی ابدی زندگی پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ جب موت لاحق ہوجائے تو شاندار محلوں، کھوٹیوں اور کاروں سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے۔ نرم بستر کی جگہ قبر کی سخت زمین اور مٹھی پر سونا ہوگا۔ پھر حساب وکتاب اور محاسبہ ہوگا، لہذا اپنا ایمان دوستوں اور رشتہ داروں کی خاطر تباہ نہیں کرنا چاہیے۔

اپنے خطاب کے پہلے حصے کے اختتام پر شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: جنت اور جہنم دونوں انسان کے انتظار میں ہیں؛ انتخاب خود انسان پر ہے۔ دنیوی زندگی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں؛ ایک جہنم کی جانب جاتاہے دوسرا جنت جاکر ختم ہوجاتاہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو جنت تک پہنچانے والے رستے کا انتخاب کرتے ہیں اور ہوشیاری و سمجھداری سے زندگی گزارتے ہیں۔ تباہی و بربادی ان لوگوں کیلیے ہے جو اپنی زندگی غفلت میں گزارتے ہیں اور خدا و آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ یہ لوگ قبر کو یاد نہیں کرتے جہاں وہ ہوں گے اور ان کے اعمال! اس وقت انہیں معلوم ہوگا کتنی بڑی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہے۔ اس دن توبہ کیلیے دیر ہوگی، ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہذا ابھی یہ کام کردینا چاہیے جب موقع ہے۔

تنازع معاشرے کی بدنامی و نقصان کا باعث ہے
اپنے بیان کے دوسرے حصے میں حضرت شیخ الاسلام نے بلوچستان کے دو بڑے قبائل ’شہنوازی‘ اور ’گمشادزہی‘ کے درمیان مصالحت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: الحمدللہ صوبے کے دو بڑے قبائل جو کئی سالوں سے آپس میں دست وگریبان تھے اب شیروشکر ہو چکے ہیں، ان کی دیرینہ دشمنی کا تصفیہ ہمارے لیے مسرت کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا: لڑائی اور قتل ایک قبیح فعل ہے، جبکہ مصالحت مبارک کام ہے۔ جب لوگ صلح کرلیتے ہیں تو اللہ تعالی کی رحمتیں ان پر نازل ہوتی ہیں، لیکن جب لڑائی پر اتر آتے ہیں تو اللہ کی رحمتیں منقطع ہوجاتی ہیں اور معاشرہ نقصان کا شکار ہوگا۔ اختلاف و تفرق سے فتنوں اور آفات کا دروازہ کھلے گا۔

صلح پسند لوگوں کو ’بیدار و عاقل‘ قرار دیتے ہوئے مولانا عبدالحمیدنے کہا: جو لوگ تنازعات کے تصفیے کیلیے محنت کرتے ہیں وہ سمجھدار اور بیدار لوگ ہیں۔ لیکن جو لوگ اس فکر سے عاری ہیں وہ تنازع پیدا کرنے اور اسے ہوا دینے کے حق میں ہیں۔

قبائلی تنازعات کے تصفیے کیلیے بعض نکات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ان دو قبائل کی مجلس صلح میں بندہ شریک تھا؛ وہاں میں نے بعض طریقوں کی وضاحت کی تھی تاکہ ایسے تنازعات کا مکمل سدباب ہوجائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ معاشرے میں خداترسی و تقویٰ عام ہوجائے۔ جب لوگ اللہ سے ڈریں گے اور دیندار بن جائیں گے تو ایسے تنازعات رونما نہیں ہوں گے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ ناحق کسی کا خون بہانا جرم عظیم ہے اور روزِ قیامت جوابدہ ہونا پڑے گا۔

انہوں نے مزیدکہا: دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تعلیم کو فروغ دیاجائے، جب نئی نسل تعلیم کی زیور سے آراستہ ہوگی تو ہرگز کوئی نوجوان بندوق ہاتھ میں نہیں لے گا۔ علم کی بدولت لوگوں کو قتل ناحق کے منفی نتائج کا علم حاصل ہوجائے گا۔ لہذا علمائے کرام، عمائدین اور تعلیم یافتہ لوگوں سمیت تمام طبقے کے لوگ معاشرے میں تعلیم کے فروغ کیلیے محنت کرکے اپنا کردار ادا کریں۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: اس سلسلے میں میرا تیسرا مشورہ جو میں نے حاضرین کے سامنے رکھا یہ تھا کہ جس معاہدے پر تمام قبائل کے عمائدین نے دو عشرے پہلے جامع مسجدمکی میں اتفاق کیا تھا، عمل کیاجائے؛ تمام عمائدین نے تحریری طور وعدہ کیا ہے کہ ان کے کوئی ہم قبیلہ قتل کا ارتکاب کرے فورا اسے گرفتار کرکے حکام کے حوالے کیاجائے گا۔ کوئی قاتلوں کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس سے مزید کشت وخون کا انسداد ممکن ہوگا اور مقتول کے ورثا کو ایک گونہ اطمینان حاصل ہوگا۔ پھر لوگ اپنے طور پر انتقام کیلیے کمربستہ نہیں ہوجائیں گے جس سے مزید مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا تمام افراد جن کی بات سنی جاتی ہے محنت کیا کریں خطے کا امن مشکل میں نہ پڑجائے اور بے گناہ لوگوں کا خون نہ بہہ جائے۔

تیل سمگلرز پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ المناک ہے

اپنے خطاب کے آخری حصے میں ممتاز سنی عالم دین نے جائزاشیاء کے اسمگلرز پر فائرنگ کے واقعات کو المناک قرار دیتے ہوئے ملک کی ابتر معاشی صورتحال کو مدنظر رکھ کر ایرانی حکام اور سکیورٹی اداروں کو چشم پوشی و احتیاط کا مشورہ دیا۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دن دیہاڑے لوگوں کو محض چند لیٹر ڈیزل کی وجہ سے ماردیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا: ایران میں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں، معمولی اشیاء کی سمگلنگ پر سکیورٹی فورسز لوگوں پر فائر کھولتے ہیں۔ اسرائیل اپنی تمام تر درندگی کے باوجود صرف اپنے ایک سپاہی کی جان بچانے کیلیے ایک ہزار سے زائد فلسطینی اسرا کو رہاکرنے پر رضامند ہوگیا لیکن یہاں ہماری پولیس اور فورسز خود لوگوں کو قتل کرتی ہے۔

گزشتہ ہفتے میں زاہدان شہر کی حدود میں ایک نوجوان کے قتل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے اس سانحے کو انتہائی المناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا اس سے پہلے بھی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور لوگوں کو غیرقانونی طور پر تیل لوڈ کرنے کی وجہ سے فائرنگ سے قتل کیا جاچکاہے۔ لہذا حکام ایسے سانحات کی روک تھام کیلیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔

مولانا عبدالحمید اسماعیلزہی نے حکام کو مخاطب کرکے کہا: ہم کسی بھی شیء کی سمگلنگ کے حق میں نہیں ہیں، لیکن لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ملک کی معاشی حالت بحرانوں سے دوچار ہوچکی ہے؛ پہلے لوگوں کی معیشت کیلیے جائز راستے دکھائیں پھر سخت اقدامات کیلیے قدم بڑھائیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حکام چشم پوشی و مسامحہ اختیار کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں