ہماری روزی میں برکت کیوں نہیں؟

ہماری روزی میں برکت کیوں نہیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج کے دور میں ہر انسان کی زبان پر ہے۔ ہر شخص مہنگائی اور غربت کا رونا رو رہا ہے۔ ہر شخص قرض کے انبار تلے دبا ہے۔ہر شخص روزی کے پیچھے سرگر داں ہے۔ سارا دن ادھر ادھر سے پتہ نہیں کہاں کہاں سے روزی سمیٹتے ہیں لیکن پھر بھی برکت نہیں کیوں؟

گھر میں بیوی اور بچوں کے ساتھ جھگڑا کہ ابھی پچھلے ہفتے تو گھی کاٹین لا یا تھا اتنی جلدی ختم ہو گیا، چینی کیوں اتنی زیادہ ڈالتی ہو چائے میں دیکھتی نہیں مہنگائی ہے۔ الغرض گھر کے کھا نے پینے سے بھی برکت اٹھ گئی ہے کیوں ؟ اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ان اسباب کو دور کریں جو بے برکتی کے موجب بنے ہوئے ہیں۔ ان اسباب میں سے ایک بڑا سبب ترکِ نماز ہے اورخصو صاً نما ز فجر۔ انگریزوں کی طر ح دیر تک سو نا ہماری عادت بن گئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحا بی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س تشریف لائے اور اپنی نا داری اور مفلسی کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دیا کہ اپنے گھر کی دیواروں کو اونچا کر دو۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی، اور کچھ دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے۔ بتایا کہ حالا ت ابھی بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ دیواروں کے اونچا کرنے میں کیا مصلحت پوشیدہ تھی ؟ ارشاد ہو ا کہ تیرے گھر کے سامنے سے ایک بے نمازی شخص کا گزر ہو تا تھا جسکی نحوست تیر ے گھر پر اثر انداز ہوتی تھی اور تیرے رزق سے برکت اٹھ گئی تھی۔

استغفر اللہ ! یہ ایک بے نمازی کے صرف کسی کے گھر کے سامنے سے گزر نے کی حالت تھی تو اگر گھر میں بھی بے نمازی مو جو د ہوں تو اس گھر کی نحوست اور بے برکتی کا آپ خود اندازہ لگائیں ؟ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم آخرت کی تیاری کو چھوڑ کر صر ف دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور پھر بھی ہمارے ہا تھ کچھ آتا نہیں۔ کیوں ؟ حکا یت ہے کہ ایک دفعہ دنیا کسی جاندار کی شکل میں ایک بزرگ کے پا س آئی۔ اور ایسی حالت میں کہ اسکے ما تھے سے خون رس رہا تھا اور دم کے بال جھڑے ہوئے تھے۔ بزرگ نے حیرت سے دریا فت کیا کہ تم کو ن ہو اور تمہاری یہ حالت کس نے بنائی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں دنیا ہوں اور میری دم کے بال اس لیے چھوٹے ہوئے ہیں کہ کچھ لو گ میرے پیچھے بھاگتے ہیں اور مجھے پکڑنے کی کو شش کر تے ہیں جسکے نتیجے میں میری دم کے کچھ بال انکے ہا تھوں میں آجاتے ہیں۔ اور میں ان سے جان چھڑا کر بھاگ نکلتی ہوں۔ اور یہ جو میر ے ما تھے سے خون رس رہا ہے تو یہ اس وجہ سے کہ کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جو کہ مجھ سے دور بھاگتے ہیںاور میں انکے پیچھے پیچھے ان کے قدموں میں پڑتی ہوں کہ مجھے لے لے، لیکن وہ مجھے حقارت سے ٹھوکریں مار ما ر کر دھتکارتے ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہو جا تی ہے۔ کہ اگر ہم دنیا کا پیچھا چھوڑ دیں تو یہی دنیا ہمارے قدموں میںآئیگی۔ تو کیوں پھر ہم دنیا کے پیچھے بھاگیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمیںجو تنخوا ملتی ہے یا اپنے کا م کی جو اجر ت ملتی ہے۔ یا اگر ہم کوئی کا روبار کرتے ہیں۔ تو بھی ہم اپنی روزی کو حلا ل نہیں کرتے، جھوٹے بہانے بنا کر چھٹی لے لیتے ہیں دیر سے ڈیو ٹی پر جا تے ہیں، جلدی چھٹی کر نے کی کو شش کرتے ہیں۔ ڈیو ٹی کے دوران کا م چوری کرتے ہیں جتنا کام کرنا ہو تاہے اسے پورا نہیں کر تے تو اسی طر ح ہماری تنخواہ یا اجرت میں حرام کا عنصر شامل ہو جا تاہے۔ جو کہ بے برکتی کا موجب بن جا تاہے۔

حکا یت ہے کہ ایک شخص نہا یت غصے کے عالم میں جا رہا تھا کہ را ستے میں ایک بزرگ سے ملاقات ہو گئی، بزرگ نے ماجرا دریا فت کیا۔ تو وہ شخص کہنے لگا کہ میں قرض کے انبار تلے دبا ہوں، تنخواہ سے گزارہ نہیں ہوتا۔ آج اپنے مالک کے ساتھ دوٹوک بات کر نے جا رہا ہوں۔ کہ یا تو میری تنخواہ بڑھا دو یا پھر میں کا م چھوڑ دیتا ہوں۔ بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا کہ اگر میرے مشورے پر عمل کرو تو تمہاری مشکل حل ہو جائیگی۔ اس شخص نے وعدہ کیا۔ بزرگ نے کہا کہ اپنے مالک کو کہو کہ میری تنخواہ کم کر دے۔ اور پھر ایک مہینے بعد آکر اسی جگہ مجھ سے ملو۔اس شخص نے بزرگ کی بات پر عمل کیا۔ اور ایک مہینے بعد اسی جگہ بزرگ سے ملا۔ اور ان کا شکر یہ ادا کیا۔ کہ میرے حالات بہتر ہو نا شرو ع ہو چکے ہیں لیکن یہ بتائیں کہ تنخواہ کم کرانے میں کیا مصلحت پو شیدہ تھی ؟ بزرگ نے مسکرا کر بتایا کہ تم جتنی تنخواہ لیتے تھے اتنی ڈیوٹی نہیں کرتے تھے اس لیے تیری تنخواہ میں حرام کا عنصر شامل ہوتا تھا اور اسلئے تیری روزی میں برکت نہیں ہو تی تھی۔

قارئین کرام ! اسی طر ح اگر دیکھا جائے تو ہمارے روز مرہ زندگی کے بیشتر کا موں سے بھی برکت اٹھ چکی ہے۔ کھا نے کھا تے وقت، پانی پیتے وقت کوئی کا م شروع کرتے وقت بہت ہی کم لو گ ہو نگے جو بسم اللہ شریف سے شروع کرتے ہو نگے۔تو برکت کہاں سے آئیگی ؟ میں ایک جگہ کسی مسجد میں ایک آویزاں بورڈ پڑھا تھا جس پر لکھا تھا۔
” فاقہ و تنگدستی اور بیماری کے اسباب “
(1) بغیر بسم اللہ کے کھا نا پینا
(2) جوتے پہن کر کھا نا
(3)کھا نے پینے کے برتن کو صاف نہیں کرنا
(4) مہمان کو حقارت سے دیکھنا
(5) اولا د کو گالی دینا
(6)کھڑے ہو کر نہانا
(7)ننگے سر بیت الخلاءمیں جا نا
(8) دہلیز پر بیٹھنا
(9) بزرگوں کے آگے چلنا
(10) حمام میں پیشا ب کر نا
(11)ٹوٹا کنگھا استعمال کر نا
(12) غسل کر تے وقت باتیں کر نا

کچھ با تیں اور بھی تھیں لیکن میں بھول گیا ہوں۔ بہر حال اگر مندرجہ بالا اسباب پر غور کیا جائے اور ہم اپنا محاسبہ کر لیں تو ہمیں خو د ہی پتہ چل جائیگا کہ ہم کتنے پا نی میں ہیں ؟ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کی کمائی سے دور رکھے اور ہمیں اور ہمارے بچوں کو رزق حلا ل سے نوا زے۔ اور ہمیں رزق حلال کما نے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہماری روزی میں برکت آئے اور ہمیں ان تمام با توں سے منع فرمائے جن سے منع رہنے کا ہمیں حکم ملا ہے۔ اور ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

عبقری سے اقتباس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں