’دینی وعصری علوم ترقی کے دوبازو‘

’دینی وعصری علوم ترقی کے دوبازو‘

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعہ(04 جنوری) کو سورت العلق کی ابتدائی آیات کی تلاوت سے شروع کرتے ہوئے دینی و دنیاوی علوم کے حصول کو کسی بھی قوم کیلیے ضروی قرار دیا جو ترقی کے لیے دو بازو جیسے ہیں۔
علم کو خالق ذوالجلال کی بڑی نعمتوں میں شمار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اگر غور کیاجائے تو معلوم ہوگا کہ سب سے پہلی چیز جو آدم علیہ السلام کو خلقت کے بعد عطا کی گئی وہ علم و دانش کی دولت تھی۔ یوں فرشتوں پر ثابت ہوگیا کہ نئی مخلوق کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا مقصود ہے اگرچہ خود ملائکہ سے عبادت کرنے میں کوئی قصور نہیں تھا۔

ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: جس طرح پہلے انسان کو علم کی نعمت سے نوازا گیا، اسی طرح نبی اکرمﷺ پر سب سے پہلی آیات جو نازل ہوئیں وہ علم، پڑھنے اور سکھانے کے بارے میں تھیں۔ ’’اقرا باسم ربک الذی خلق‘‘، اللہ تعالی کا پہلا حکم تھا جو پڑھنے کے بارے میں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے دراصل یہ پیغام دیا کہ دنیا کو کفر وضلالت کی تاریکیوں سے گھیرلیاہے اب اسے علم و آگہی کے نور سے منور کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔ اللہ تعالی نے علم، قلم اور دیگر آلات تعلیم کے ذریعے گزشتہ نسلوں کے علوم او تجربات کو آنے والی نسلوں کیلیے محفوظ کردیا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے مزیدکہا: قرآن پاک کا آغاز علم و دانش کے انوار سے مزین ہوا جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ دنیا میں پیش قدم اور کامیاب وہی ہے جو علم و دانش کی دولت سے محروم نہ ہو۔ چونکہ انسان ظاہری و معنوی ترقی علم ہی کے ذریعے حاصل کرسکتاہے؛ عمرانی و آبادانی عصری علوم سے جبکہ تزکیہ واصلاح اور صحیح عقائد اسلامی علوم ہی کی بدولت ممکن ہیں۔ دنیا میں جتنی ترقی حاصل ہوئی ہے سب سائنس اور علم کی وجہ سے ہے۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہل و نادانی کے غلبے کو قیامت کی علامات میں شمار کیا ہے۔ نادانی و جہالت ہی کہ وجہ سے معاشرے میں فساد اور اخلاقی بے راہ روی کا رواج ہوتاہے۔ زنا و بدکاری جیسے برے فعل جہالت کے نتائج ہیں جو تمام اقوام کے نزدیک قبیح و قابل مذمت ہیں۔ سمجھدار لوگ ہرگز دوسروں کی آبروریزی و عزت لوٹنے کو اچھا نہیں سمجھتے؛ اسی لیے حال ہی میں ہندوستان میں زیادتی کے ایک کیس کے ردعمل میں عوام نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا، حالانکہ اکثر ہندوستانی غیرمسلم ہیں لیکن یہ قبیح عمل سب کے نزدیک قابل مذمت ہے۔

انہوں نے عصری ودینی علوم کے حصول کو ترقی کا راز قرار دیتے ہوئے کہا: عصری علوم دنیوی ترقی و خوشحالی کیلیے ضروری ہیں جبکہ دینی علوم اور قرآن وحدیث سے انسان کی روحانی ترقی اور نشوونما ممکن ہوجاتی ہے۔ لہذا انسان کی مکمل ترقی کیلیے ان دونوں علوم کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن نے اپنے دورہ ہندوستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: چندسال قبل مجھے انڈیا کے دورے کا موقع ملا؛ ایک اسلامی یونیورسٹی کے افتتاحی پروگرام میں جہاں مسلم علمائے کرام و دانشوروں کے علاوہ غیرمسلم حضرات بھی شریک تھے میں نے دو نکات ان کے سامنے رکھا۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ جس طرح برصغیر کی آزادی کیلیے مسلم وغیرمسلم نے جدوجہد کی اب انہیں مل کر اپنے ملک کی ترقی کیلیے محنت کرنی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ بعض مسلمان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اگر ہم نے دینی تعلیم حاصل کی تو یہ ہمارے لیے کافی ہے۔ یہ ایک غلط سوچ ہے؛ دورِحاضرمیں سائنس اور عصری علوم کے سوا کوئی چارہ نہیں، ہمیں دونوں علوم پر دسترسی حاصل ہونی چاہیے۔ عصری علوم کے بغیر ہم دنیا میں کس طرح دوسروں سے مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی یہ سوچے کہ ہمیں قرآن وحدیث کے علوم کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بھی غلط سوچ ہوگی۔ انسان دنیوی علوم میں جتنی ترقی حاصل کرے پھر بھی شرعی علوم سے بندہ بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ترقی کے دونوں بازؤں سے آگے جانا پڑے گا۔

طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: یونیورسٹی کے طلباء محنت کریں اپنے متعلقہ فنون کے علاوہ قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کریں، تجوید کے ساتھ تلاوت قرآن اور قرآن پاک کا مطالعہ ان کے مشغلوں میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح دینی مدارس کے طلبہ کو عصری علوم پر دسترسی حاصل کرنا پڑے گا۔

اولاد کی صحیح تربیت والدین کیلیے باعث فخرہے
مولانا عبدالحمید نے بچوں کی صحیح تربیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: اولاد اپنے والدین کیلیے بہت عظیم سرمایہ ہیں جن کی اہمیت ان کیلیے ان کی نوکری اور دیگر امور سے زیادہ ہے۔ لہذا ان کی بہتر اور مناسب تربیت کیلیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور تعلیمی امور کے سلسلے میں ان سے گفتگو کرنی چاہیے۔

معاشرے میں معاصی اور گناہوں کے پھیلاؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ دن بہ دن منکرات اور معاشرتی برائیاں پھیلتی جارہی ہیں۔ منشیات کا استعمال وبا کی شکل اختیار کرتا جارہاہے۔ حتی کہ یورپ میں تیارشدہ منشیات ملک میں استعمال ہورہے ہیں۔ لہذا اس تہذیبی حملے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ سب کو دین کی جانب لوٹ کر نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ عمائدین سمیت تمام بااثر شخصیات معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کیلیے اپنا کردار ادا کریں۔

قبائل اپنے ذہین افراد کی شناخت کیلیے خرچ کریں
خطیب اہل سنت زاہدان مولانا اسماعیلزہی نے ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گویاہوئے: ہر قبیلہ اور قوم اپنے باصلاحیت اور ذہین افراد کی شناخت کیلیے محنت کرے اور پھر انہیں اعلی تعلیم دلوانے کیلیے فنڈ قائم کرے؛ اس طرح نادار طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع میسر آئے گا۔ اگر ضرورت پڑے تو ملک کے باہر بھی انہیں تعلیم کیلیے بھیجاجاسکتاہے۔

محکمہ تعلیم سیستان بلوچستان میں اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرے
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے صوبہ سیستان بلوچستان میں شرح خواندگی اور تعلیم کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہمارے صوبہ سیستان بلوچستان میں تعلیمی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ خاص کر بستیوں اور دوردراز علاقوں کے طلبہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ حاصل نہیں کرسکتے اور ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ لہذا اگر محکمہ تعلیم اس صورتحال میں مثبت تبدیلی لانے کے خواہاں ہے تو صوبے میں اس محکمے کو مقامی افراد کے حوالے کردے۔ انہیں اپنی پالیسی کی اصلاح کرنی چاہیے کہ اکثر دیگر صوبوں اور علاقوں سے اساتذہ اور افیسرز تعینات کیے جاتے ہیں۔ مقامی اساتذہ اور ذمے داران بلاشبہ زیادہ خیرخواہی سے کام کریں گے ۔ حکومت کو تمام سنی علاقوں میں اپنی اس پالیسی کی اصلاح کرنی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں