مولانا عبدالحمیدکی اہلسنت کے مطالبات پر تاکید

مولانا عبدالحمیدکی اہلسنت کے مطالبات پر تاکید

ممتازسنی عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے خاش شہر میں ایک بڑے مجمع سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی اہل سنت کے مطالبات کی منظوری، ان کی مقدسات کے احترام اور مذہبی آزادی پر زور دیا۔


صوبے کو کسی مخصوص گروہ کے حوالے کرنا غلط پالیسی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے مناصب و عہدوں کی مساوی تقسیم پر زور دیتے ہوئے کہا: شیعہ وسنی کو مساوی حقوق ملنے چاہییں۔ مناصب کی تقسیم میں مساوات ضروری ہے۔ یہ انتہائی غلط پالیسی ہے کہ صوبے کو ایک مخصوص نسل اور گروہ کے حوالے کیاجائے۔ ملکی مفادات کے خلاف اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے۔ آخر کیوں سنی شہریوں کو صلاحیت کے باوجود صرف ان کے مسلک کی وجہ سے نظرانداز کیا جاتاہے؟ کیا وہ اپنے مسلک کی وجہ سے گورنر بننے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے ہیں؟ شیعہ وسنی دونوں کے باصلاحیت افراد پر اعتماد کیاجائے اور سنی شہریوں کو بھی اپنے ملک کی حفاظت میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے؛ مسلح افواج کو ان کیلی شجرہ ممنوعہ قرار نہ دیاجائے۔

مسلکی و فرقہ وارانہ تنازعات کو خطرناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: شیعہ و سنی کو اپنے مخالف فرقے کو برداشت کرنی چاہیے۔ مفاہمت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مسلکی لڑائیوں سے بچنا چاہیے۔ اختلافات کے بجائے مشترکہ مسائل پر زور دینا چاہیے۔

مولانا عبدالحمید نے کہا: بھائی چارہ اور امن وامان کا مسئلہ معاشرے میں انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔ اگر باہمی بھائی چارہ اور خطے کے امن پر حرف آئے تو پوری قوم متضرر ہوگی۔ آج کل حکام سمیت سب بھائی چارہ واتحاد کی بات کرتے تھکتے نہیں لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے اتحاد باتوں سے نہیں عملی اقدامات سے حاصل ہوتاہے۔ ہرسنی مسلمان کا مطالبہ ہے کہ اس کے جائز حقوق پر اسے دسترسی حاصل ہو۔ شیعہ وسنی دونوں ایرانی ہیں؛ ایران کسی مخصوص مسلک کا ملک نہیں ہے، شیعہ کا نہ سنی کا۔ لہذا ان مسالک میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔

بڑے شہروں میں اہل سنت کی مذہبی وتعلیمی آزادی؛ ایک آئینی مطالبہ ہے
ممتازسنی عالم دین نے ایرانی اہل سنت کی بدامنی کی مخالفت پر زور دیتے ہوئے کہا: ہم بھائی چارہ اور امن کے خواہاں ہیں۔ ہمیں امید ہے ہماری مذہبی آزادی کا خیال رکھاجائے اور یہ اہل سنت کے فردفرد کا مطالبہ بھی ہے۔ بڑے شہروں جیسا کہ اصفہان میں سنی برادری کو بلارکاوٹ نماز قائم کرنے کا حق ہے اور جس طرح ان کا مسلک ہے وہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلواسکتے ہیں۔ یہ مطالبہ آئین کے دائرے میں ہے اور بالکل معقول و منطقی ہے۔ اس کو زیادہ طلبی نہیں کہاجاسکتا، ہمارا خیال ہے تمام لوگوں کا حق ادا ہونا چاہیے اور کسی کو محض اس کے مسلک و عقیدے کی وجہ سے محروم نہ رکھاجائے جس سے اتحاد کمزور پڑجاتاہے۔

ملک میں سیاسی اختلافات کو صحابہ کرام کے اختلافات سے موازنہ نہ کیاجائے
بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے ایران میں اہل سنت کی مقدسات کی خیال داری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: حال ہی میں ایک ذمے دار حکمران نے غیرذمہ دارانہ بیان دیتے ہوئے دوہزار نو کی سیاسی تحریک [گرین موومنٹ] کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں رونما ہونے والے اختلافات سے تشبیہ دی ہے اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا نام تک لیاہے جس سے سنی برادری میں تشویش کی لہر دوڑچکی ہے۔ صحابہ کرام کی حرمت محفوظ رہنی چاہیے؛ یہ مسئلہ ہمارے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہم نے باربار حکام کو خبردار کیا ہے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو مشاجرات صحابہ سے تشبیہ دینے سے بازآئیں؛ ایک بار پھر ہم حکام کو خبردار کرتے ہیں کہ ایسی حرکتوں سے بازآکر دوسروں کو بھی منع کریں۔

اس ملک میں ہم نے ایسے کسی شخص کو نہیں دیکھا ہے جس سے حضرات حسن و حسین اور علی کی بو آتی ہو، نہ ہی کوئی فرد حضرات عمر، طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین سے موازنے کے قابل ہے۔ لہذا کوئی لائق نہیں کہ ان سے مشابہت کا دعویٰ کرے۔ ایسی تشبیہات سے اہل سنت کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ہمارے لیے تمام اہل بیت اور صحابہ کرام واجب الاحترام ہیں۔ عام طور پر جب کوئی ان حضرات کی توہین کرتاہے تو حکام سے رجوع کیاجاتاہے لیکن جب حکام خود ہی ایسی باتیں زبان پر لائیں تو کس سے شکوہ کیا جائے اور کہاں شکایت درج کرائی جائے؟ اہل سنت خود پر لازم سمجھتے ہیں کہ کسی شیعہ کی مقدسات کی توہین نہ کریں، شیعہ حضرات سے بھی مطالبہ ہے کہ ہماری مقدس ہستیوں کی گستاخی کرنے کا سلسلہ بند کردیں۔

abdolhamid.net

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں