علامہ کی اُڑان کس کے اشارے پر؟

علامہ کی اُڑان کس کے اشارے پر؟

چاہے پاکستان کے اکثر علماء کرام مغرب میں خوب شہرت پانے والے علامہ کے اسلام سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کریں۔

چاہے یو ٹیوب میں آپ کوعلامہ کے پیروکار اُن کو سجدہ کرتے ہوئے کیوں نہ دکھائی دیں۔ چاہے علامہ کو انٹر نٹ میں دکھائی جانے والی وڈیوز میں تازہ تازہ دفنائے گئے مردے سے بات چیت کرتے اور اس کو یہ بتاتے ہوے کہ منکر نکیر کو اُسے کیا جواب دینا چاہیے جیسا کہ علامہ قبر کے اندر حساب کتاب لیے جانے کو دیکھ اور سن رہے ہوں۔ چاہے کتنی ہی فلمیں چلا لیں جس میں علامہ رسول پاک(ص) سے متعلق اپنے انتہائی متنازعہ خواب کا ذکر کرتے ہیں۔ چاہے آپ علامہ کو ایک جگہ یہ کہتے سنیں کہ انہوں نے عالم رویاء میں امام ابو حنیفہ(رح) سے 15 سے 20 سال تک تعلیم حاصل کی اور دوسری جگہ وہ اللہ اور
رسول(ص) کی قسمیں اُٹھا کر یہ کہہ رہے ہوں کہ انہوں نے عالم رویاء میں امام ابو حنیفہ(رح) سے نو سال تعلیم حاصل کی۔ چاہے ناموس رسالت کے موضوع پر پاکستان میں اور پاکستان کے باہر علامہ کو دہری پالیسی اختیار کرتے دکھایا جا رہا ہو۔ چاہے لاہور ہائی کورٹ کمیشن کی اُس رپورٹ کے میڈیا میں کتنے ہی حوالے کیوں نہ دیتے جاتے رہیں جس میں علامہ کو ناقابل اعتبار ہونے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے اوپر حملہ کا ایک خودساختہ کیس بنایا۔ چاہے پاکستان کے سیاستدان علامہ کے بارے میں جو مرضی کہیں، چاہے کوئی اُن پر یہ الزام لگائے کہ وہ امریکا و برطانیہ یا پاکستانی فوج کے ایجنڈے پر الیکشن کو ملتوی کروانے آئے ہیں۔ چاہے تجزیہ نگار اور اخبار نویس اُن کے بدلتے سیاسی بیانات مثلاً ایک موقع پر انہوں نے کہاکہ وہ نگراں وزیر اعظم بن سکتے ہیں مگر بعد میں کہا کہ وہ یہ عہدہ کبھی قبول نہیں کریں گے، کبھی وہ الیکشن کو ملتوی کرنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ وہ تو ہر حال میں 90 دن میں الیکشن کروانے کے حق میں ہیں، کبھی وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کا تحریر اسکوائر یہ فیصلہ کرے گا کہ نگراں حکمراں کون ہوں گے مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے معاملات کو طے کرنے کے لیے صدر اور وزیر اعظم سے بھی ملاقات کا وقت منگ لیا۔

چاہے کوئی کچھ بھی کہے علامہ کی اڑان ہے کہ نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور نہ ہی اُن کا کوئی توڑ نظر نہیں آیا۔ بلکہ اُن کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی شکل میں جو جوڑ ملا ہے اُس نے تو بہت سوں کی نیندیں ہی حرام کر دیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ یہ جوڑ بے جوڑ ہے اور اسے جوڑ توڑ کرنے والوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بنایاہے۔ مگر کوئی پوچھے کہ ان دونوں کا جوڑ کیوں نہیں بنتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک نے کینیڈا کی ملکہ اور دوسرے نے برطانیہ کی ملکہ سے وفاداری کا حلف اُٹھاکر بیرون ملک شہریت حاصل کی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے مسئلہ پر دونوں ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں جو امریکا کو قابل قبول ہے۔ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ دونوں رہنماؤں کے پیروکار اُن پر اندھا یقین کرتے ہیں اور ان کے لیے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ دونوں میں یہ بھی قدر مشترک ہے اُن کی خطابت میں جوش اور غصہ عیاں ہوتا ہے۔ بلکہ حال ہی میں الطاف حسین نے اپنے ایک خطاب کے دوران گالی تک دے ڈالی ۔ ایک اور خطاب میں صحافیوں کو تنبیہ کی کہ وہ متحدہ کے بارے میں بکواس کرنا بند کر دیں۔

علامہ تو ناکامی کی صورت میں کسی بھی وقت اپنے نئے ملک کینیڈا لوٹ سکتے ہیں مگر الطاف حسین چاہے پاکستان آئیں یا نہ آئیں ان کی متحدہ نے تو یہاں ہی سیاست کرنی ہے اس لیے مناسب ہو گا کہ وہ اپنے مخالفین اور اخبارنویسوں کے لیے غیر مناسب زبان استعمال نہ کریں کیوں کہ اس میں اُن کا اپنا اور اُن کی پارٹی کا ہی نقصان ہے۔اب تو یہ بھی ڈر پیدا ہو گیا ہے کہ اگر علامہ اور الطاف حسین کا انقلاب کامیاب ہو گیا تو پھر اختلاف رائے رکھنے والوں کا کیا بنے گا۔ کیا میں امید کر سکتا ہوں کہ الطاف حسین اپنے نامناسب الفاظ پر عوام سے معذرت کریں گے جو ایک خوش آئین اقدام ہو گا۔ بہتر تو یہ بھی ہو گا کہ ایم کیو ایم اپنے آپ کو قادری صاحب سے علیحدہ کر لے کیوں کہ قادری صاحب توہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں نہ اُن کی کوئی یہاں سیاسی جماعت ہیں نہ ہی وہ الیکشن لڑنے کی حالت میں ہیں۔ ایم کیو ایم تو نہ صرف موجودہ سسٹم کا حصہ ہے بلکہ وہ کسی بھی طور پر الیکشن سے دور رہنا برداشت نہیں کر سکتی۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ علامہ اور الطاف حسین کے جوڑ کے پیچھے در اصل امریکا اور برطانیہ ہیں۔ آئی ایس پی آر کی وضاحت کے باوجود کہ فوج کا اس تمام معاملہ سے کوئی تعلق نہیں بہت سے لوگ کسی طور پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ سب کچھ فوج کی مرضی کے بغیر ہو سکتا ہے۔ سچ کیا ہے اس کے بارے میں شائد ہی پاکستان میں کسی کو صحیح علم ہو مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہا ہے اور سیاست دان بشمول پی پی پی اور مسلم لیگ ن فوج کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں مگر کوئی کچھ کر نہیں رہا۔

محسوس ایسا ہوتا ہے کہ سب نے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کوئی صلاح مشورہ نہیں۔ کوئی حکمت عملی نہیں۔ کوئی بات چیت نہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ علامہ کیا کریں گے۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ اگر علامہ نے الیکشن نہیں لڑنا، وہ نگراں وزیر اعظم بھی بننے کے لیے تیار نہیں مگر پورے سسٹم کے لیے خطرہ بن کرسامنے آکھڑے ہوئے ہیں تو حکومت اُن کو اُن کے نئے ملک ڈی پورٹ کیوں نہیں کر دیتی۔ یہ بھی رائے دی جا رہی ہے کہ اپنے آپ کو حالات کے حوالے کرنے کی بجائے وفاقی و صوبائی حکومتیں اور ان حکومتوں میں شامل سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر ایک متفقہ حکمت عملی طے کرنے سے کیوں کترا رہی ہیں ۔ اگر فوج پر ان کو شک ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ فوج کو بھی اس صلاح و مشورہ میں شامل کر لیا جائے کہ علامہ اور الطاف حسین کے جوڑ کا توڑ کیسے نکالا جائے۔ اگر ایسا کچھ نہ کیا گیا تو موجودہ کنفیوژن کا اصل فائدہ تو اُن بیرونی قوتوں یا اندرونی قوتوں کو حاصل ہو گا جنہوں نے یہ سارا کھیل سجایا ہے۔

ایسے میں تو علامہ بھی شائد ہاتھ ملتے دکھائی دیں جبکہ ایم کیو ایم تو سراسر گھاٹے کا سودا کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر داخلہ صاحب جن کو ان حالات کا مقابلہ کرنا ہے وہ تو خود اپنی وصیحتیں لکھ کر بانٹتے پھر رہے ہیں۔ جس ملک کے وزیر داخلہ کا یہ حال ہو گا اُس کی قوم کا کیا حال ہو گا۔

انصار عباسی
جنگ نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں