دنیوی زندگی سے ابدی حیات کیلیے فائدہ اٹھائیں

دنیوی زندگی سے ابدی حیات کیلیے فائدہ اٹھائیں

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے حالیہ خطبہ جمعے میں شریعت پر عمل کو عذابِ الہی سے بچنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہوئے دنیا کی زندگی کو ایک موقع قراردیا جس میں بندہ سفرِ آخرت کیلیے توشہ تیار کرسکتاہے۔ 
دوہزار بارہ کے آخری جمعے میں 28 دسمبر کو زاہدان کے سنی مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے سورت البقرہ کی آیت: 281 کی تلاوت سے اپنے خطبے کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا: اللہ رب العزت نے ہم کو خبردار فرمایاہے کہ اس دن سے بچاؤ کی فکر کرو جب تمہیں میرے پاس لایاجائے گا۔ اس دن سب کا محاسبہ ہوگا اور کسی کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ نہیں ہوگا۔ سزا وجزا اعمال کے مطابق ہوگی۔

انہوں نے مزیدکہا: دین اسلام اللہ کا آخری دین ہے؛ اس کے بعد کوئی دین نہیں آئے گا۔ قیامت ہوگی تو اسلام ہی کے ساتھ ہوگی۔ چونکہ مسلمانوں کے بعد کوئی نئی قوم اور امت نہیں ابھرے گے۔ قرآن پاک کا پیغام قیامت تک سب کیلیے مشعلِ راہ ہے۔ جو اس پر عمل کرے کامیابی اس کا مقدر ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق سے پہلے اس کی حاجتوں کا بندوبست فرمایا۔ اسی لیے قرآن مجید انسان کو دعوت فکر دیتاہے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور ذات آسمان و زمین سے تمہیں رزق دیتی ہے؟ ارشاد ہے:  “وَاتَّقُواْ يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ” (اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اﷲ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو جو کچھ عمل اس نے کیا ہے اس کی پوری پوری جزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا.)

ممتاز عالم دین نے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو آگاہ کیا ہے کہ آخرت کا سفر بہت کٹھن اور جان کاہ ہے۔ اس سفر کیلیے توشہ تیار کرنا چاہیے۔ مشکلات سے نمٹنے کیلیے پوری طرح تیار رہنا چاہیے۔ موت کا فرشتہ ہمارے انتظار میں بیٹھاہے؛ موت اور اس کی سختیوں سے ہمیں کوئی چارہ نہیں ہے۔ حساب وکتاب، سوال وجواب کا سامنا کرکے ہمیں محاسبے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہذا ان سخت ایام کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ جب موت آجائے تو اللہ سبحانہ وتعالی بندے سے رضامندی کا اعلان فرماتاہے یا ناراضگی کا۔ ہمیں محنت کرنی چاہیے کہیں برے اعمال کی وجہ سے ہم مغضوب نہ بنیں اور اللہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے۔

خطیب اہل سنت نے مزیدکہا: مسلمانوں کو جوابدہ اور ذمے دار ہونا چاہیے؛ اسلام نے جن فرائض ان پر عائد کیا ہے انہیں صحیح طریقے سے بجا لایاجائے اور معتبر عقائد کے ساتھ اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیے۔ گناہ کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے، بال بچوں، پڑوسیوں، یتیموں اور نادار و کمزور لوگوں کے حقوق ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ فرشتے سب کچھ نوٹ کرتے ہیں اور روزِ قیامت ہم سے سوال ہوگا۔

انہوں نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے وارننگ دیاہے کہ اس خطرناک سفر کے بارے میں ہوشیار رہیں اور قبر، حساب وکتاب اور مختلف قسم کی سزاؤوں کے بارے میں آگاہ رہیں۔ آپ کی منزل جنت اور اس کے باغات ہوسکتی ہے اور جہنم اپنی ہولناکیوں کے ساتھ بھی آپ کا مقدر بن سکتا ہے! اللہ کا غضب ایسے لوگوں پر ہوگا جو اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے اور لاپرواہی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔

شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: یہ زندگی ایک موقع ہے؛ اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ نماز ادا کیا کریں، زکات دیدیں اور صحیح عقائد کے ساتھ اللہ کی بندگی کیا کریں۔ سردیوں کی لمبی راتوں کو سونے اور غفلت میں نہ گزاریں؛ کچھ حصہ عبادت کیلیے بھی خاص کردیں۔ اسی طرح پورے دن کو کمانے اور روزمرہ کاموں میں ختم نہ کریں بلکہ سفرِآخرت کیلیے بھی توشہ تیار کریں۔

موت کے بعد انسان کی روحانی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: جب کسی نیک اور صالح بندے کی موت کا وقت آپہنچے تو فرشتے اسے بشارت و خوشخبری دیتے ہیں۔ اللہ تعالی اسے مخاطب کرکے فرماتاہے: ’’یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی‘‘، (اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا، اور میری بہشت میں داخل ہو جا)۔ جو بندے زندگی میں گناہوں سے نفرت کرتے تھے اور ہمیشہ اللہ کی یاد میں رہتے تھے انہیں موت کے وقت جنت کی خوشخبری سنائی جائے گی۔ سورت فصلت میں اللہ تعالی نے انہیں ان کلمات سے یاد فرمایاہے: “إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ*نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ‘‘ [فصلت: 30-31] ، (جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے ان پر فرشتے اُتریں گے (اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ).

اپنے خطاب کے آخر میں حضرت شیخ الاسلام نے کہا: دنیا کی زندگی فانی و ناپائیدار ہے؛ سب کو موت کا ذائقہ چکنا پڑے گا۔ قابل اہمیت بات یہ ہے کہ ہم کس حالت میں اس دنیا سے چلیں گے؟ اپنے رب کو کس حال میں ملاقات کریں گے؟ یہ سوال ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ پھر زندگی کے موقع سے فائدہ اٹھانے کا داعیہ دل میں زیادہ آئے گا اور بندہ آخرت کی تیاری میں لگ جائے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں