’عوام کے تنازعات کاتصفیہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے‘

’عوام کے تنازعات کاتصفیہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے‘

خطیب اہل سنت زاہدان شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے اپنے تازہ ترین خطبہ جمعے کا آغاز سورت النساء کی آیت 114کی تلاوت سے کرتے ہوئے انفاق، قیام صلاۃ اور تنازعات کے تصفیے کے حوالے سے بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔

جامع مسجدمکی زاہدان میں ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: قرآن پاک کے ذریعے اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں کو ایک بہت عظیم نعمت عطا فرمائی ہے، اگر ہم پوری زندگی سجدے میں گزاریں تاکہ اس نعمت کا شکر ادا کریں تو یہ ناکافی ہوگا۔ اسلامی تعلیمات سب سے بڑی نعمتیں ہیں جن کے ذریعے مسلمان بہتر زندگی گزارسکتے ہیں؛ اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے غیرمسلم محروم ہیں۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: تلاوت شدہ آیت کے مطابق مسلمانوں کو ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کیلیے محنت کرنی چاہیے تاکہ لوگ تشتت اور فساد سے محفوظ رہیں۔ اللہ تعالی نے معاشرے کے اتحاد اور شناخت کی حفاظت کیلیے سورت النساء کی آیت میں مذکور تین نکات کو واضح کیاہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ خفیہ گفتگو میں کوئی نفع نہیں ہے مگر یہ کہ خیرخواہی، مصالحت اور صدقہ کیلیے ہو۔ اگر خفیہ گفتگو انفاق اور نادار لوگوں کیلیے ہو، یا اچھی بات ہو تو مناسب ہے ورنہ نہیں۔

انفاق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: قرآن پاک میں اس قدر نفقہ کرنے پر تاکید آئی ہے کہ بندہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ جو لوگ خرچ کرتے ہیں ان کی زندگی میں کوئی خیر وبرکت نہیں ہے۔ اگر انسان تمام اچھائیوں کے حامل ہو لیکن سخی نہ ہو اورانفاق کرنے سے گریز کرے تو اس کی معاشرتی زندگی میں بہت بڑی کمی آتی ہے۔ انفاق سے بندے کی برائیاں ختم ہوں گی اور بخل اور حبِ مال جیسی بری صفات کاازالہ ہوجائے گا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے آیت میں’’او معروف‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: نیکیوں میں بہترین یہ ہے کہ نماز پر نصیحت کیاجائے۔ نماز اسلام کی بنیاد ہے؛ اگر ضرورت پڑے تو نجوا اور خفیہ کلام سے غافلوں کو نماز کی ترغیب دی جائے۔ بعض لوگ رات کو دیر تک ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور فجر کی نماز ان سے قضا ہوجاتی ہے۔ کیا لوگ بھول چکے ہیں کہ روزِ قیامت سب سے پہلے ان سے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا؟کسی بھی صورت میں نماز قضا نہیں ہونی چاہیے؛ ہرحال میں حتی کہ اداروں اور عوامی مقامات میں نماز قائم کرنی چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کا راز نماز میں ہے۔ نماز لوگوں کو گناہ و معصیت سے روکتی ہے۔ نماز کا تعلق ایمان وتوحید سے ہے، اگر مسلمان نماز قضا کرے تو دین کے سلسلے میں اس کیلیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کل مساجد میں لوگ کم آتے ہیں حالانکہ اگر لوگ نماز کو اہمیت نہ دیں تو وہ دین کے دیگر ارکان کو کیا اہمیت دے سکیں گے؟ نماز مسلمانوں کی شناخت و ثقافت کی حفاظت کرے گی اور وہ دیگر کلچرز میں ضم نہیں ہوجائیں گے۔

لوگوں میں مصالحت کرانے کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: بعض معمولی اختلافات قبائلی و خاندانی تنازع کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے ایسے اختلافات کے خاتمے کیلیے کوشش کریں۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مصالحت کرانے کے سلسلے میں بہت کم لوگ مصروف ہیں؛ الٹا بعض لوگ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ ناچاقی اور اپنے مسلمان بھائی سے بات نہ کرنا بہت بری صفت ہے۔ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ترک کلام حرام وناجائز ہے۔ مسلمانوں کوخیرخواہی کامظاہرہ کرکے اپنی حدتک ذاتی، عوامی اور قومی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

آخری نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: تمام اعمال اور عبادات خالص اللہ کیلیے ہونی چاہییں شہرت اور ذاتی مقاصد کیلیے نہیں۔ نیک اعمال کی قبولیت کی شرط یہی ہے کہ انہیں محض اللہ کی رضامندی کیلیے کیاجائے۔ اسلامی احکام کی مانند جسم ہے اور ان کی روح ’اخلاص‘ ہے۔ ملت اسلامیہ کی طاقت تقوی و اخلاص میں ہے؛ یہی چیز مسلمانوں کو ناقابل شکست بنادیتی ہے۔

ایرانی حکام مداخلت کرکے بشار اسد کواستعفا پرآمادہ کریں
اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں دنیا میں اسلام پسندی کے پھیلاؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: الحمدللہ آج پوری دنیا میں اسلام پھیل رہاہے اور دنیاکی ایسی جگہوں سے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند ہوتے ہیں جو کبھی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آتا۔ امید ہے اللہ تعالی بیت المقدس اور فلسطین کو مکمل آزادی نصیب فرمائے۔

’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘ کے رکن نے شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزیدکہا: شام میں جاری تبدیلیوں کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے؛ ایرانی حکام بالا اس بات کو مدنظر رکھیں کہ شام کا اکثر حصہ مخالفین کے قبضے میں آچکا ہے اور دنیاکے اکثر ممالک نے نئے اپوزیشن اتحاد کو شامی قوم کی قانونی نمائندہ حکومت تسلیم کیا ہے، ایک طرف بشاراسد کا اصلی حامی، روس، بھی اس بات کا اعتراف کرچکاہے کہ مسلح اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات بہت ہیں۔ لہذا ایران مداخلت اور ثالثی کرکے مسٹر الاسد کو مستعفی ہونے کی ترغیب دیدے۔ بشاراسد کے دن گنے جاچکے ہیں، اگر ایران موجودہ حالات کے تناظر میں شام میں مزید کشت وخون اور تباہی کی راہ روک لے تو اس سے ملک کے قومی مفادات کا تحفظ ممکن ہوگا۔

انہوں نے مزیدکہا: میرا خیال ہے ایران کا یہ موقف اور اقدام سب سے پہلے اللہ کی رضامندی اور دوسرے مقام پر قومی مفادات کے تحفظ کا باعث ہوگا۔ ایرانی قوم کے دمشق میں بعض مفادات ہیں، حکام کو جلدازجلد کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔

ممتاز سنی عالم دین نے زور دیتے ہوئے کہا: ایران کھلم کھلا بشارالاسد کی روبہ زوال حکومت کی حمایت کرتاچلا آرہا ہے؛ اگر ان حالات میں ایران کا بشارالاسد کی برطرفی میں کوئی کردار ہو تو اس اقدام کے عالم اسلام میں مثبت نتائج نکلیں گے اور ہمارے ملک کی عزت بھی بچ سکتی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں