فلسطینی فتح

فلسطینی فتح

یہ امریکا کے لیے ‘بدقسمتی’ اور اسرائیل کے لیے ‘بے معنیٰ’ بات ہوسکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیٹھے دنیا بھر کے مختلف ملکوں کی اکثریت نے فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے اس کے حق میں ووٹ دیا ۔
یوں جمعرات کو ہونے والی رائے شماری کے نتیجے میں، اکثریتی حمایت سے فلسطین کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ‘غیر رکن مبصر ریاست’ کا درجہ مل گیا۔
فلسطین کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں نے اُنہیں اپنی آبائی سرزمین پر اپنے لیے ایک خود مختار اور آزاد ریاست کے قیام کی منزل سے ایک قدم اور قریب کردیا ہے۔
صدر محمود عباس نے اس اقدام کو فلسطینی عوام کے لیے ‘برتھ سرٹیفکیٹ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقوامِ متحدہ کا یہ اقدام ‘دو ریاستوں کے حل کو محفوظ بنانے کا آخری موقع’ تھا۔
اب تک ایک سو تیس ممالک فلسطین کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں۔ جمعرات کو رائے شماری میں انہیں ایک سو اڑتیس ووٹ پڑے۔ مخالفت میں صرف نو ووٹ ڈالے گئے جب کہ اکتالیس ارکان غیر حاضر تھے۔
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسے تسلیم کرنے والے ممالک کے علاوہ بھی مزید دوسرے ممالک اسرائیل کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنے لگے ہیں۔
فلسطین کا موقف ہے کہ اسرائیل قبضہ کی گئی اُن کی سرزمین فوراً چھوڑ دے۔
یہ رائے شماری اس بات کا بھی اظہار ہے کہ فلسطینی موقف کے مخالف دونوں ممالک، اسرائیل اور امریکا، دنیا بھر میں سفارتی لحاظ سے تنہا ہوتے جارہے ہیں۔
جمعرات کی اس رائے شماری کے بعد اب فلسطین اقوامِ متحدہ کے مختلف اداروں میں بھی شامل ہوسکے گا۔ یہ بات امریکا کو ناپسند تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ فلسطین انٹرنیشنل کریمنل کورٹ تک رسائی حاصل کرے، مگر اب ایسا ہوسکے گا۔
اگرچہ فلسطین نے اپنی اس سفارتی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے، تاہم اب اسرائیل کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنی تنگ نظری چھوڑ دینی چاہیے۔
یہودی ریاست، مغربی کنارے پر بدستور آبادکاری،  پُرغرور رویے اور ہتھیاروں کی قوت کے استعمال کے باوجود امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کھلی حمایت نامعقول رویہ ہے۔
اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر کا کہنا ہے یہ رائے شماری امن مراحل کو ‘پسِ پشت’ ڈال دے گی۔ حقیقت میں اس بیان سے ہی اسرائیلی حکومت کی پالیسی کا اظہار ہوجاتا ہے۔
دریں اثنا، اسرائیلی وزیراعظم نے جناب عباس پر حملہ کرتے ہوئے، اقوامِ متحدہ میں اُن کی تقریر پر الزام لگایا اور کہا کہ اُن کے الفاظ امن کے خواہاں شخص کے نہ تھے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس موقع پر امریکی اور اسرائیلی سفیروں کے لب و لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قیامِ امن کے لیے فلسطینی حکام اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات ہونے چاہئیں۔
یہ کہتے ہوئے شاید انہیں یاد نہیں رہا کہ اسرائیل نے امن کے لیے ہر مذاکرات کو سبوتاژ کیا ہے۔ ایک بار تو اس مذاکرات میں وہ خود ہی فریق بنا تھا۔
اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی شان دار فتح سے اسرائیل اور امریکا کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب ان کے پاس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں۔
فلسطینی عوام تاریخی بنیادوں پر اپنا نہایت مضبوط موقف رکھتے ہیں۔

بشکریہ “ڈان”


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں