کراچی میں فرقہ وارانہ لڑائیاں؛ علاج کیاہے؟

کراچی میں فرقہ وارانہ لڑائیاں؛ علاج کیاہے؟

ویسے تو پاکستانی حکام کی نااہلی کی وجہ سے اہلیانِ کراچی کیلیے بدامنی، لوٹ مار اور انتقامی قتل عام سی بات بن چکی ہے۔ لیکن گزشتہ چند دنوں سے سیاسی وجوہات کی بناپر انتقامی کارروائیوں نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیاہے۔


مسئلے کی سنگینی اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ بھی سامنے ہے۔ اس مہینے میں کراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی بدامنی کے چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر میں کراچی کے ایک نامور دینی مدرسے کے طلبا بھی شہیدکردیے گئے جن کا، رپورٹس کے مطابق، کسی ’متحارب‘ گروپ سے کوئی تنظیمی تعلق یا ہمدردی نہیں تھی۔ چند شرپسندوں کی شرانگیزی کی وجہ سے ہر شہری خود کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگاہے۔ سوال یہ ہے کہ شہر کے امن تباہ کرکے ان موقع پرست شرپسندوں کو یا ان کے ممکنہ “کاز” کو کیا فائدہ پہنچتاہے؟ کیا ان کے مخالفین کلیہ طور پر ختم ہوجائیں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات کی بہت بڑی ذمہ داری انتظامیہ اور امن نافذ کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے؛ ان سے بہتر کون جانتاہے کہ کون سے لوگ فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا ان کے موقف انہیں انتقام پر اکساتاہے؟ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھتے تو اب تک سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع نہیں ہوتیں۔ سینکڑوں بچے یتیم ہوتے نہ خواتین کے سر سے شوہر کا سایہ جاتا۔

مذہبی بدسلوکی یا دوسرے الفاظ میں مذہبی تہواروں میں اپنے مخالفین پر برسنا ، لاؤڈسپیکر کا غلط استعمال اور بینرز جیسے ذرائع سے دوسروں کی دل آزاری کرنا چاہے کسی بھی فریق کی جانب سے ہو بدامنی اور قتل وغارتگری کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ ایسے میں مذہبی رہنماؤں اور بااثر سماجی ودینی شخصیات کی دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے پیروکاروں اور سننے والوں کو برداشت اور رواداری کی تلقین کریں۔ رواداری دکھانا کوئی کمزوری نہیں بلکہ یہ کسی فریق کی شرافت اور عظمت کی نشانی ہوسکتی ہے۔ نیز دوسروں کو آنکھیں دکھانے کیلیے فضول نعرے بازی، غیرضروری جلوس نکالنا اور ہنگامہ آرائی کرنا ہرگز طاقت کی علامت نہیں ہے۔ دوسروں کو مشتعل کرنا کوئی مشکل کام نہیں جسے پاکر لوگ فخر محسوس کریں۔

دوٹوک لفظوں میں عرض کیاجاسکتاہے کہ شیعہ و سنی، دیوبندی، بریلوی اور تمام دیگر مسالک و مذاہب کے سخت گیر پیروکاروں اور رہنماؤں کو ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ علمی بنیادوں پر اختلافات کا وجود ایک فطری بات ہے لیکن جو مذموم ہے وہ تفرقہ اور فرقہ پسندی ہے۔ اس سے سب کو گریز کرنا چاہیے۔

اتحاد کے نام پر سیمینارز اور کانفرنسز بہت منعقد ہوتے ہیں لیکن کئی وجوہات کی بناپر مثبت نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ایسے سیمینارز میں مخصوص حلقوں کو دعوت دینے کے بجائے تمام جماعتوں اور گروہوں کو اتحاد کیلیے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ فرقہ واریت کے انسداد کیلیے قانون سازی وقت کی ضرورت ہے؛ تمام مسالک کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کو قابل سزا جرم قرار دینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ پاکستان جیسا عظیم مسلم ملک خون میں مزید لت پت ہوجائے ارباب حل وعقد، علمائے کرام، ائمہ وخطبا اور سماجی وسیاسی رہنماؤں کو سنجیدہ اقدامات اٹھانا چاہیے۔

SunniOnline.us/Urdu

 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں